حروف کی صوتی پہچان:بولنے اور سننے والے الفاظ میں ان حروف کی صوتی پہچان اور ان کو بدل کرپڑھنا سیکھنے کی پہلی کڑی ہے مثلاً کری میں ’’ک‘‘ کی آواز ایک ہے، کالا میں دوسری شکل ہے اور کسان میں بالکل ہی الگ ہے۔ ہمارے یہاں بھی آواز اور لہجے سے ہی بچے کو لفظ کی پہچان کرائی جانے لگی ہے۔ اس طرح حروف کی آواز سے پہچان میں آسانی ہوسکتی ہے۔ پرانے زمانے میں ہمارے یہاں لفظ کے لہجے پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اب بھی اگر بچوں کو بار بار حروف کی آوازوں کی پہچان کرائی جائے تو وہ جلد پڑھنا سیکھا لیتے ہیں لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اساتذہ اور والدین بھی پڑھنا سکھانے کی عجلت کی بنا پر پوری پورے جملے رٹواکر پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا حرف کی آواز کی پہچان بھی پوری طرح نہیں ہو پاتی اور بچہ پورے پورے جملے فرفر پڑھ دیتا ہے۔ حالاں کہ حروف کی آواز کی پہچان اور بار بار ہجے کرنے سے بچے کی سمجھ میں ترکیب آئے گی جو وہ خود بھی دوبارہ استعمال کرسکے گا۔ الفاظ کے جوڑ توڑ کرنے سے پڑھنے میں آسانی ہوگی۔ والدین اور اساتذہ بھی اس طریقے کی مدد سے آسانی سے بچوں کو پڑھا سکیں گے۔ حرف کی پہچان آواز کے ذریعے اور اس کی مختلف اشکال سمجھ میں آنے کے بعد بچہ خود پڑھنے کی کوشش کرے گا۔بچہ پہلے بولنا شروع کرتا ہے اور پھر پڑھنا:اس طریقے سے بچے کو بولنے اور پڑھنے اور پڑھنے والے الفاظ میں تعلق قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ صوتی اندازے سے پڑھنا سکھانے کی اہمیت یہ ہے کہ بچے بولنے میں جو الفاظ استعمال کرتے ہیں اور پڑھنے میں جو الفاظ انہیں سکھائے جاتے ہیں ان کا صحیح طور پر اندازہ کرسکیں۔ اس کا طریقہ یوں ہونا چاہیے کہ پہلے بچے کو ان چند الفاظ کے جوڑتوڑ کا طریقہ سکھایا جائے جو وہ روز مرہ استعمال کرتا ہے پھر وہ کسی بھی سبق کہانی یا عبارت میں دو لفظ دیکھے تو فوراً پہچان جائے اور ان کو صحیح طور پر استعمال کرسکے۔اس طریقے کے لیے بہتر صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بچے کو پڑھنا سکھایا جائے تو عبارت اس کے ماحول سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارے یہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ بچے کا سبق اس کے اپنے ماحول سے بہت دور ہوتا ہے حالانکہ سبق پڑھنے والے کے ماحول سے جتنا قریب ہوگا الفاظ کا استعمال ان کی جوڑ توڑ اور ان کی صحیح آواز پڑھنے والے کے لیے اتنی ہی آسانی مہیا کرے گا۔ ہمارے یہاں چوں کہ اکثر اوقات نصابی کتابیں باہر کے ملکوں سے آتی ہیں۔ لہٰذا وہ ہمارے ماحول سے مختلف ماحول پیش کرتی ہیں۔پڑھنے میں روانی کے لیے ہدایات:پڑھنا سکھانے کے لیے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بچہ تحریر کو سمجھ کر صحیح انداز اور روانی سے پڑھے۔ روانی اور صحیح انداز سے جب ہی پڑھا جاسکتا ہے جب معنی سمجھ میں آئیں۔ سبق میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہوں ان کا مطلب پہلے بتایا جائے۔ پھر اگر سکول میں ہر بچے سے سبق کا تھوڑا تھوڑا حصہ پڑھوایا جائے اور گھر پر بھی بچے سے وہی سبق پڑھوایا جائے کیوں کہ بچہ سبق کو جتنی بار پڑھے گا روانی اتنی ہی پیدا ہوگی اور سبق بھی آئے گا۔ کلاس میں بچوںسے سبق پڑھوانے کا رواج بہت پرانا ہے لیکن آج بھی یہی روانی کے اور سمجھ میں آنے کے لیے بہت زیادہ موثر طریقہ ہے۔ بچوں سے سبق پڑھوانے سے پہلے اگر استاد اس کو پڑھ کر سنا دیں تو الفاظ کا اتار چڑھائو صحیح طریقہ استعمال اور روانی سب واضح ہوسکتے ہیں۔ الفاظ کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے سے مطلب بدل سکتا ہے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی پڑھنے دی جائیں تاکہ روانی پیدا ہو۔ذخیرہ الفاظ کی اہمیت: پڑھنا سیکھنے کے لیے الفاظ کے ذخیرے کی ضرورت کی تو اہمیت ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے معنی جاننے کی بھی برابر کی اہمیت ہے۔ کسی بھی عبارت کا سمجھ میں آنا بہت ضروری عمل ہے۔ ورنہ پورا سبق بھی پڑھنے والے کے سر سے گزر جائے گا۔ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ
صرف ہجے آواز اور حروف کی پہچان ہی کافی نہیں، بلکہ ہر جملے کے مشکل الفاظ کے معنی اور سیاق و سباق کے ساتھ معلوم ہونے چاہئیں کیوں کہ ایک لفظ کے مختلف طریقہ استعمال سے معنی یکسر بدل جاتے ہیں۔ پڑھنے والے کو جتنے زیادہ الفاظ کے معنی معلوم ہوں گے، اس کو سمجھنے اور یاد کرنے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بار بار دہرانے کی بھی ضرورت ہے۔ بچہ جو بھی سبق سکول سے پڑھ کر آئے، گھر میں بھی اسے معنی کے ساتھ پڑھانے اور بار بار دہرانے پر اسے بہت فائدہ ہوگا۔ہمار ے یہاں رٹنے کی وباء عام ہے بعض بچے پوری پوری کتابیں فرفر پڑھ کر سنا دیں گے، لیکن اگر کہیں روک کر ایک لفظ بھی پوچھ لیا جائے کہ یہ کیا ہے تو اسے پتا نہ ہوگا۔ بغیر معنی معلوم ہوئے زبانی یاد کرنا بالکل بیکار ہے۔ ابتدائی کلاسوں میں ہی یہ عادت ڈلوائی جائے کہ جو چیز پڑھی جائے، اس کا مطلب ضرور معلوم کریں، الفاظ کے معنی ہی عبارت کے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔تحریر کو سمجھنے کی صلاحیت:پڑھنا سیکھنے کے لیے پہلے عبارت کا مطلب سمجھنا اور عبارت کا ماحول سے اہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کسی تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں وہ الفاظ ہوں جو بچہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال بھی کرتا ہے۔ عبارت بہت سلیس زبان میں ہو۔ زیادہ مشکل الفاظ شامل کرنے سے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر پڑے گا۔ یہ الفاظ کے معنی میں اتناا لجھ جائے گا کہ اس کا تسلسل باقی نہ رہے گا۔ جس چیز کے بارے میں سبق پڑھایا جارہا ہو۔ اس کو اگر دکھانا بھی ممکن ہوتو سمجھنے کی صلاحیت ابھرے گی۔ دہرانے سے روانی پیدا ہوتی ہے۔ ہر نئے لفظ کے معنی ضرور سمجھائیں، تاکہ بچے کے پڑھنے کی صلاحیت اور ابھرے اور روانی سے پڑھنے کے قابل ہو۔ بچے کو پڑھانے اور زبان سکھانے کا عمل بہت زیادہ صبر چاہتا ہے۔ اساتذہ ہوں یا ماں باپ، بچے کے بار بار غلطی کرنے، نہ سمجھنے، جلدی یاد نہ کرنے سے گھبرا کر ڈانٹنے ڈپٹنے سے بچے کی ساری صلاحیتیں سلب کرنے کا باعث بنے گا۔ بچے کی توجہ قائم رکھنا بھی بہت ضروری عمل ہے۔ خوشگوار ماحول ہوگا، ستائش ہورہی ہوگی تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ سختی سے کوئی بات منوانا تقریباً ناممکن ہے۔ دہرانا پھر دہرانا پڑھانا سکھانے کا بنیادی نکتہ ہے۔ بچے جلدی تھک جاتے ہیں۔ اچھے استاد کی یا پڑھانے والے کی پہچان یہی ہے کہ اس کے اندر اس معاملے میں برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ہر ماں سب سے (باقی صفحہ نمبر 56 پر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں