ہمارے ہاں قصور کی میتھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی خوشبوکی وجہ سے دور دور تک اس کی مانگ ہے۔ میتھی کا تازہ ساگ لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
نرم تازہ میتھی کو قیمے کے ساتھ پکاتے ہیں۔ آلو اور کھڑی دال میں شامل کرنے سے ان کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ تنہا میتھی کو پیاز‘ لہسن اور ہری مرچوں کے ساتھ تیل میں پکا کر باجرے کی روٹی کے ساتھ بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ یہ بھوک بڑھانے کے علاوہ جسم میں حرارت پیدا کرنے اور نزلہ زکام خشک کرنے کیلئے بہت مفید ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ میتھی کے بیج جنہیں عرف عام میں میتھرے کہتے ہیں‘ غذائی اور دوائی مقاصد کیلئے مختلف طریقوں سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مصالحے کے طور پر انہیں اچاروں کے علاوہ مختلف سالنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً مشہور حیدرآبادی ڈش بگھارے بینگن میں یہ ڈالتے ہیں۔ جاڑوں میں میتھی کے بیجوں کی کھچڑی گھی میںڈال کر کھائی جاتی ہے۔ یہ جوڑوں کے درد کیلئے مفید بتائی جاتی ہے۔ کمر کے درد اور سردی کی شکایات میں اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ پاک و ہند کے علاوہ مصر و روم کے قدیم لوگ بھی میتھی کی خوبیوں سے آگاہ تھے اور اسے دواﺅں کے علاوہ غذاﺅں میں بھی استعمال کرتے تھے۔ عرب و مصر میں یہ حلبہ کہلاتی ہے۔ میتھی میں 28فیصد لعاب‘ 5فیصد خوشبودار تیل اور دیگر مفید اجزاءہوتے ہیں جن میں فاسفیٹ‘ لیسی تھین‘ الیبو من اور فولادقابل ذکر ہیں۔ میتھی میں فولاد خاصی مقدار میں ہوتا ہے‘ اس لیے اس کے کھاتے رہنے سے خون کی کمی کی شکایت دور ہو جاتی ہے۔ یہ قدرتی فولاد بڑی آسانی سے جزوِ بدن ہو جاتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق میتھی کے اجزا مچھلی کے جگر کے تیل (کاڈلیور آئل) سے بہت ملتے جلتے ہوتے ہیں‘ اسی لیے میتھی بھی اس تیل کی طرح جوڑوں کے درد اور ورم کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے۔ یہ اجزا بھوک بھی بڑھاتے ہیں اور اعصاب کی صحت کیلئے بھی مفید ہوتے ہیں۔
مصر میں میتھی کے بیجوں کا لعاب ملیریا بخار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پانی میں بھگوئے ہوئے بیجوں کو پیسنے سے گاڑھا لعاب حاصل ہوتا ہے۔ بخار روکنے کے علاوہ یہ لعاب پیٹ کی تکالیف اور ذیابیطس قسم دوم کیلئے بھی مفید ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ان بیجوں کا سفوف کیپسولوں میں بند کرکے ذیابیطس کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کے لعاب سے آنتوں کا ورم بھی دور ہوتا ہے۔ لیپ کرنے سے ورم اور درد میں آرام آتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ورم دور کرنے کیلئے تازہ پتوں کو بھی پیس کو پولٹس کی طرح استعمال کرتے ہیں کاڈلیور آئل کی طرح یہ اس میں موجود حیاتین الف کی وجہ سے کساح (Rickets) کیلئے بھی مفید ہوتا ہے۔ سبز ساگوں کی طرح اس میں بھی آنکھوں کو تقویت پہنچانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ذیابیطس کے مریض اگر میتھی کے بیجوں کا سفوف دو تین گرام کی مقدار میں کھائیں تو خون میں شکر کی سطح بتدریج کم ہو سکتی ہے۔
مغرب کے ملکوں میں بھی میتھی کے بیج ٹانک سمجھے جاتے ہیں جنہیں خاص طور پر کم زور جانوروں کو کھلایا جاتا ہے۔ بیجوں کے لیپ سے جلد کے داغ دھبے دور ہو جاتے ہیں۔ انہیں تنہایا دیگر دواﺅں مثلاً آملہ‘ سکاکائی‘ ناگرموتھا‘ کپور‘ کچری کے ساتھ باریک پیس کر بھگو کر بالوں میں لگانے سے بال لمبے اور سیاہ ہوتے ہیں۔ گرتے بالوں کیلئے یہ ایک عمدہ شیمپو ہوتے ہیں۔ یہ تمام اجزا ہم وزن لیے جاتے ہیں۔ طب کے مطابق اس کے اندرونی استعمال سے پیشاب اور حیض کھل کر آتے ہیں۔دودھ بڑھتا اور ریاح خارج ہوتی ہے۔ میتھی کے بیج کمر کے درد کیلئے مفید ہیں اور ان سے بڑھی ہوئی تلی‘ اپھارا اور جسمانی کمزوری دور ہوتی ہے مثلاً میتھی کے ساگ میں پکے ہوئے جھینگے اور بام مچھلی کو مقوی سمجھا جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں