زندگی اور موت ایک اٹل حقیقت اور ایسی سچائی ہے جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا مگر خاموشی کا بھی اس حقیقت اور سچائی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ انسان کی حیات بولنے اور بات کرنے میں ہے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں ہے، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں ہے مگر اس دنیا میں سانس لینے والے تمام افراد یکساں نہیں ہوتے، کچھ بولتے ہیں تو کچھ خاموشی کا سہارا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی انسان کی زندگی میں اچانک خاموشی ڈیرے ڈال دے تو اس کا دل مر جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس کا پورا وجود ابدی خاموشی اور سکوت کو قبول کرلیتا ہے۔ یہاں خاموشی سے مراد وہ خاموشی ہرگز نہیں جو کبھی مصلحت کے تحت اختیار کی جاتی ہے اور کبھی موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بلکہ یہ ایک ایسی خاموشی کا تذکرہ ہے جو انسانی زندگی کا حصہ بن جائے تو اس کے اندر احساسات کی کمی و زیادتی، جذبات کی جنگ اور مختلف جذبوں کی چیخ و پکار ہونے لگتی ہے۔ اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اسکا ہونا یا نہ ہونا کسی کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، کوئی اس کے لیے پریشان یا فکر مند نہیں ہے، کسی کو اس کی پروا تک نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے ان منفی خیالات کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ باتیں بچپن ہی سے اس کی ذات کا حصہ ہوتی ہیں مگر زندگی میں رونما ہونے والے بعض حادثات، گزرنے والے کچھ طوفان اسے ایسا بناکر رکھ دیتے ہیں کہ وہ خود کو تنہا بے بس اور اکیلا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے معاملات جن کی اسے توقع تک نہیں ہوتی بڑی آہستگی سے اسے اس دنیا سے لاتعلق کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے اپنا رخ زندگی سے موت کی طرف موڑ لیتا ہے جس کی صورت کوئی بھی ہوسکتی ہے۔موت سے مراد یہاں روح کا جسم سے علیحدہ ہو جانا نہیں، یہ ایسا کوئی معاملہ نہیں جس میں روح آخر کار جسم کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے بلکہ یہ احساسات و جذبات کی موت ہے جس میںانسان ہر لمحے، ہر ساعت جیتا اور مرتا رہتا ہے، گزرے ہوئے واقعات، زندگی میں درپیش مسائل ناکامیاں، حسرتیں اور ناتمام آرزوئیں اسے کچوکے لگاتی اور بوند بوند مارتی رہتی ہیں۔ اس نوعیت کے جذبات تلے زندگی جینے والے کو ہمہ وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اسے سمجھنے والا کوئی نہیں ہے، وہ خود بھی بیشتر باتیں سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور دوسروں کو بھی کچھ نہیں سمجھا پاتا مگر اسے ہر بات غلط محسوس ہوتی ہے۔ بعض افراد اس منفی روئیے کے ساتھ جیتے ہیں اور اسے زندگی کا ڈھنگ سمجھ کر گزارنے کی سعی کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ وہ نہیں بلکہ زندگی انہیں گزار رہی ہوتی ہے۔ ایسے افراد اپنے احساسات کو ظاہر نہیں کرتے‘ کچھ اپنی کیفیات کے نقائص کو جاننے کے بعد بھی اس جانب سےصرف نظر کرتے ہیں بلکہ انجان بنے رہتےہیں کہ کہیں کوئی ان کے دل کا حال نہ جان لے۔ خاموش طبع شخص اپنے احساسات‘ جذبات اور اپنی شخصیت کو ہر ممکن طور پر چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور مثبت خیالات کے حامل افراد سے کٹ کر زندگی گزارنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ کوئی اسے تنہائی سے باہر نکالنے کی کوشش کرے تو وہ اس کا ہاتھ جھٹک دیتا ہے اس کے ماضی کے دکھوں کی تلافی یا ازالے کی کوشش اسے قبول ہی نہیں ہوتی یہاں تک ہ وہ محبت جیسے طاقتور جذبے پر بھی یقین کھو بیٹھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض اوقات خودکشی جیسے منفی رجحانات بھی سامنے آتے ہیں۔ خاموشی کے دائرے میں قید افراد خوشیوں سے زیادہ غم کی محفلوں میں شرکت کے خواہش مند ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں اپنا درد بتائے بنا آنسو بہانے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ وہ لوگوں سے دوری کو پسند کرتے اور دس ہزار افراد کے درمیان بھی تنہا ہی ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی تنہائی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں ہوتی یہاں تک کہ اپنی عزیز ترین ہستی کو بھی وہ تنہائی کے اس لمحے میں ساتھ رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ بظاہر بہت مضبوط اورباہمت دکھائی دیتے ہیں مگر اندر سے کھوکھلے اور کمزور ہوتے ہیں جن پر ذرا سی بات کا بھی بڑا گہر اثر ہوتا ہے جبکہ وہ اکثر اوقات بدمقابل کی بات کو اس رخ سے نہیں دیکھتے جس طرح انہیں بتائی یا سمجھائی جارہی ہوتی ہے۔ ایسا شخص لوگوں کے درمیان رہ کر بھی تنہا ہوتا ہےجس کا جسم کہیں تو ذہن کہیں اور بھٹک رہا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مثبت باتوں کے بجائے منفی پہلوؤں کو زیادہ مدنظر رکھتا ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو اس وقت بڑی دقت پیش آتی ہے جب وہ اسے سمجھانے اور حقیقت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ ایسا شخص اپنے سے زیادہ دوسروں کی خوشی کا خیال رکھتا ہے اور دوسروں کو خوشی دینے کیلئے وہ کچھ بھی کرگزرتا ہے۔ اپنے آنسوؤں کو پی کر اور لوگوں سے چھپا کر وہ خود کو ڈھال کی طرح مضبوط ثابت تو کردیتا ہے مگر تنہائی میں اس سے زیادہ بے بس اور کمزور شخص کوئی اور نہیں ہوتا۔ ایسے افراد کے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے ہمہ وقت یہ باتیں ذہن میں رکھیں کہ۔۔۔انہیں ہروقت کریدنے اور ان کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کریں‘ سوالا ت کا تسلسل انہیں مزید الجھا سکتا ہے۔ان کے دل کا حال جاننے کیلئے بے پناہ پیار اور محبت کا جذبہ تو ٹھیک ہے مگر انہیں طیش دلا کر کچھ معلوم کرنے کی کوشش کسی حد تک کامیابی کے ساتھ غلط نتائج بھی سامنے لاسکتی ہے اور اچھے بھلے تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں کہ مثبت طرزعمل کے جواب میں بھی بعض اوقات انتہائی منفی رویہ سامنے آتا ہے۔ ایسے افراد کو ہمہ وقت دلجوئی اور ہمدردی کی ضرورت رہتی ہے‘ وہ اس چاہت اور اپنائیت کے متقاضی ہوتےہ یں جو زندگی کے کسی بے رحم لمحے نے ان سے چھین لی ہوتی ہے اور وہ اس کا مداوا بہت زیادہ توجہ دیکھ بھال اور لامحدود پیار سے ہی ممکن ہے جو کہ ذہن سے ماضی کو کھرچ پھینکے۔ ایسے افراد اپنے قریبی افراد‘ دوستوں اور رشتہ داروں میں خاصے خوش و خرم نظر آسکتے ہیں‘ لیکن جو ان سے محبت کا دعویٰ کرے اس کے سامنے بجھے بجھے سے لگتے ہیں جس کا باعث پچھلا کوئی خوف اور ڈر بھی ہوسکتا ہے لہٰذا ان کے رویوں کا خود سے موازنہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہے۔جب یہ محسوس ہو کہ وہ کسی موضوع پر کھل کر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں تو اس دوران دیگر باتیں بھی کی جاسکتی ہیں کیونکہ اس وقت وہ ذہنی اعتبار سے سب کچھ کہنے اور بتانے کیلئے تیار ہوتے ہیں لیکن یہ کیفیت بڑی عارضی ہوتی ہے جس کیلئے صبر اور برداشت ازحد ضروری ہے۔
زندگی کا مفہوم ایسے لوگوں کے نزدیک خواہ کچھ بھی ہو لیکن وہ محبت اور پیار کی زبان کا مطلب اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ جذبے انہیں اپنی مخصوص کیفیت
سے باہر نکالنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں وہ آپ سے ٹوٹ کر محبت کرسکتے ہیں حد سے زیادہ چاہت کا اظہار کرسکتے ہیں جس کے جواب میں انہیں بھی یہ جذبے درکارہ وتےہ یں اور شاید کہیں زیادہ!!!۔ان کے ماضی سے متعلق باتیں کرنا لاحاصل اور وقت کا ضیاع ہے کیونکہ وہ اس ضمن میں کوئی بات بھی اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں البتہ ان کے ساتھ مستقبل کے تانے بانے بنے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ آنے والی زندگی میں بہتری کے شدت سے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس حوالے سے خاصے فکرمند بھی رہتے ہیں۔ اگر آپ کا ساتھی جو کہ زندگی کی اگلی ساعتیں بھی آپ کے ساتھ گزارنے کا متمنی ہے کسی وجہ سے خاموشی یا کم گوئی میں مبتلا ہے تو اس کے ساتھ بڑی احتیاط‘ توجہ اور دیکھ بھال کا برتاؤ کریں اسے اپنے ہونے کا ہی احساس نہ دلائیں بلکہ اس پر یہ واضح کردیں کہ وہ آپ کی ذات کا ہی ایک حصہ ہے اور یہ بے پناہ پیار کا جذبہ اسے آخرکار آپ کی طرف متوجہ کردے گا اور پھر ممکن ہے کہ آپ خود اپنی پسند پر ناز کرسکیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں