محترم قارئین السلام علیکم! ’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ اکثر ویگن‘ بس اور رکشوں کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا ہے۔ واقعی یہ حقیقت ہے۔ میں اپنے ایک کزن کا واقعہ سنانے لگا ہوں‘ میرے کزن کی والدہ رشتے میں میری خالہ تھیں‘ انتہائی نیک عبادت گزار خاتون تھیں‘ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا‘ یوں تو ہر ماں باپ کو اپنی اولاد پیار ہوتی ہے لیکن وہ میری خالہ ضرورت سے زیادہ اپنے بچوں سے پیار کرتی تھیں‘ خاص کر اپنے بیٹے پر تو جان نچھاور کرنےپر تیار رہتی تھیں‘ ہمہ وقت دعائیں دیتی تھیں۔ میرے کزن عمیر نے ایک مقدمے میں سچی گواہی دی‘ ملزمان کو بہت رنج اورغصہ تھا‘ انہوں نے بدلہ لینے کی ٹھان لی‘ مخالف پارٹی کے دس بارہ لڑکوں نے میرے کزن کو سبق سکھانے کا پروگرام بنالیا۔ انہوں نے عمیر کی روٹین نوٹ کی کہ یہ کس وقت گھر سے نکلتا ہے‘ کس وقت آفس پہنچتا ہے اور کس وقت اسے چھٹی ہوتی ہےاور کون سا راستہ استعمال کرتا ہے۔ شام کو کس وقت دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتا ہے‘ کس وقت واپسی ہوتی ہے۔اکثر عمیر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد تقریباً ساڑھے نو بجے گھر آتا تھا‘ مخالفین نے اسی وقت عمیر کو قتل کرنے کا پروگرام بنالیا‘ تقریباً نو سے دس لڑکے ڈنڈے اور پسٹل وغیرہ چھپا کر راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہٹ کر اندھیرے میں بیٹھ گئے اور ایک لڑکے کو سڑک پر کھڑا کردیا کہ جیسے ہی تم عمیر کو آتے دیکھو دوڑ کر ہمیں بتا دینا جیسے ہی وہ گلی میں مڑے گا ہم سب اس پر پَل پڑیں گے اور اس کا خاتمہ کردیں گے‘ اسے ہمارے خلاف گواہی دینے کا انجام بھگتنا ہی پڑے گا۔
پھر نو بجے عمیر کو آتا دیکھ کر وہ لڑکا اپنے ساتھیوں کو اطلاع دینے چل پڑا‘ جب تک وہ لڑکے پہنچتے‘ عمیر اپنی گلی میں داخل ہوچکا تھا‘ پہلا ڈنڈے والا لڑکا عمیر کے قریب تب پہنچا جب تک عمیر اپنے گھر کے گیٹ تک پہنچ چکا تھا‘ عمیر کا ایک دوست بھی عمیر کے ساتھ تھا‘ جیسے ہی لڑکے نے للکارا عمیر کے دوست نے ڈنڈے کا وار اپنے ہاتھوں پر لے لیا‘ وہ لمبے قد کا جفاکش لڑکا تھا‘ عمیر کو سوفیصد یقین تھا کہ گیٹ اندر سے بند ہوگیا‘ عمیر گھر سے باہر ہوتا گھر میں دو جوان بچیاں تھیں‘ عمیر کی امی وہمی بھی بہت تھیں اس لیے وہ سرشام گیٹ بند کردیتی تھیں جونہی عمیر آتا بیل دیتا تب ہی وہ گیٹ کھولتی تھیں لیکن خدا کی قدرت اس دن جیسے ہی عمیر نے گیٹ کو دھکا دیا گیٹ کھلتا چلا گیا یعنی خلاف توقع گیٹ بند نہیں تھا‘ عمیر اپنے دوست ساتھ لیے جھٹ سے گھر کے اندر چلے گئے‘ جب تک وہ بدمعاش پہنچتے عمیر محفوظ ہوچکا تھا‘ عمیر کو ایک خراش تک بھی نہ آئی لیکن اگر گیٹ کھلا ہوا نہ ہوتا تو نجانے عمیر کا کیا انجام ہوتا۔ عمیر نے خداوند کریم کا شکر ادا کیا جس نے دشمنوں سے اسے محفوظ رکھا‘ لیکن اس سب واقع کے پیچھے ماں کی دعا کا اثر تھا‘ جس وقت دشمن عمیر کی جان لینے کیلئے تیار بیٹھے تھے اس وقت اس کی والدہ نماز عشاء پڑھنے کے بعد مصلے پر بیٹھی تلاوت قرآن کررہی تھیں‘ گھر میں داخل ہوکر عمیر نے ماں کومصلے پر بیٹھے ہوئے پایا‘ عمیر نے اپنی والدہ کو ساری بات بتائی کہ ماں خدا نے مجھے بال بال بچالیا‘ ماں نے عمیر کو سینے سے لگا کر اس کی پیشانی چومی اور پھر شکرانے کے نفل پڑھنے شروع کردئیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں