میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سات سال سے ملازمت کررہا ہوں۔ شادی شدہ ہوں اور اللہ کے فضل سے دو بچوں کا باپ ہوں ‘گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں والد صاحب دو سال پہلے وفات پاگئے۔ شادی سے پہلے جو زندگی گزری بہت سکون اور ٹینشن فری تھی جو کماتا تھا اس کمائی کا بڑا حصہ اپنی والدہ کو دے دیتا تھا اور پھر آٹا، دال، چینی کی فکر نہیں ہوتی تھی نہ ہی ان کے ریٹ معلوم تھے اس وقت میری آٹھ ہزار روپے تنخواہ تھی چھ ہزار روپے والدہ کو دیتا تھا آج بائیس ہزار روپے تنخواہ ہے لیکن گزارہ نہیں ہوتا‘ آج خرچہ خود کرتا ہوں کیونکہ والدہ فالج کی مریض ہوگئی اور وہ بازار سے گھر کا راش نہیں لاسکتی آج احساس ہوتا ہے کہ والدہ کے ہاتھ میں برکت تھی۔ حضرت صاحب میری زندگی کا جو سب سے بڑا روگ ہے وہ میں آپکو بتاتا ہوں۔ بچپن سے ذہین تھا جو کام دل لگا کر کیا کامیابی ملی غلط صحیح اور حلال و حرام کا فرق بھی معلوم ہوتا تھا پھر بھی بہت مرتبہ کبیرہ گناہ کیے مثلاً چوری، جوا، گالی گلوچ، جھوٹ، نماز نہ پڑھنا، روزے نہ رکھنا، غیبت کرنا اور دوسروں کا حق کھانا ہر کسی کے ساتھ بدتمیزی کرنا وغیرہ۔
حضرت صاحب میرا جو بڑا بیٹا ہے اس کی عمر ساڑھے چار سال ہے اور وہ ابھی تک نہ بول سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے پیدائش کے وقت گردن توڑ بخار ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا دماغ کمزور ہوگیا ہے اور اب یہ نارمل بچوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا لیکن میرا دل نہیں مانتا کیونکہ میرا اللہ چاہے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں یہ تو پھر انسان ہے حضرت صاحب سچ پوچھیں تو گردن توڑ بخار صرف ایک بہانہ ہے اصل وجہ میرے نزدیک کچھ اور ہے۔
حضرت صاحب جب میرا بیٹا پیدا ہونے والا تھا تو مجھے ایک لڑکے نے بہت بددعائیں دی تھیں جو آج میرے بیٹے کی حالت ہے یہ ان بدعائوں کی بدولت ہے۔ آفس میں نیا منیجر آیا اس نے میرا ریکارڈ دیکھا اور میرے کام کو سرہاتے ہوئے مجھے اسسٹنٹ سپروائزر بنا دیا اور میں اپنی اوقات بھول گیا۔ ایک نیا لڑکا آیا تھااس کا نام (ز) تھا میں اسے بہت تنگ کرتا تھا ہر وقت اس کی LEG PULLING کرتا تھا وہ بیچارہ اتنا چالاک نہیں تھا‘ نہ ہی ذہین تھا‘ میں ہر وقت اسے طعنے دیتا کہ تیرا دماغ کام نہیں کرتا تو پاگل ہے۔وہ مجھے بس اتنا کہتا صاحب کسی کی بدعائیں نہیں لیتے‘ دعائیں لیتے ہیں‘ جب تم مجھے بلاوجہ تنگ کرتے ہوتو میرے دل سے بدعائیں نکلتی ہیں۔ میں آج سوچتا ہوں کاش اُسے تنگ نہ کرتا شاید میرا چاند جیسا بیٹا دوسروں بچوں کی طرح نارمل زندگی گزار رہا ہوتا۔ جبکہ میں پہلے سوچتا تھا کہ بددعائیں صرف پیروں اور فقیروں کی لگتی ہیں۔ اسے بھی یہی کہتا تھا کہ تو کوئی ولی تو نہیں جو کہے گا اور ہو جائے گا۔ حضرت صاحب میں غلط تھا‘ ولی بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور عام انسان بھی‘ وہ کریم ہے سب کی سنتا ہے حضرت صاحب میں اپنے بچے کے لیے بہت رویا ہوں پیسہ بھی بہت خرچ کیا ہے‘ اس کے علاج کے لیے جس نے جہاں اور جتنی بھی دور کہا میں گیا اب تو ہر دعا میں اللہ سے یہی دعا مانگتا ہوں کہ یا اللہ میرے مرنے کے بعد میرے بیٹے کو کسی کا محتاج نہ بنانا جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے بیٹے کی خدمت کروںگا میرے بعد پتہ نہیں اس کا کیا حال ہوگا۔ حضرت صاحب (ز) کے کام چھوڑ جانے کے بعد میرے برے دن شروع ہوگئے آفس میں سب کا رویہ میرے ساتھ بدل گیا ‘گالی گلوچ ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا روز کا معمول بن گیا اور اسے ہم شغل کہتے تھے‘ آفس میں دوسرے لڑکے جو میرے ساتھ کام کرتے تھے مجھے ’’کتا ‘‘کہتے تھے ہر کوئی کتا کہہ کر پکارتا اور میں گالیاں دیتا ۔صبح و شام ایسے گزرتے گئے میں سوچتا رہتا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے گھر میں بھی ایسا سلوک ہونے لگا بیوی کے ساتھ لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن گئے۔ ماں بھی مجھ سے اکثر ناراض رہتی‘ ماں کو مناتا تو بیوی ناراض ہو جاتی۔ سوچ سوچ کر میں ذہنی مریض بن گیا ‘اللہ سے دعا کرتا کہ مجھے اس مصیبت سے نکال‘ میں نماز پڑھوںگا‘ اللہ تعالیٰ نکالتا اور میں بھول جاتا کہ میں نے اللہ سے کوئی وعدہ کیا ہے پھر میں اور بڑی مصیبت میں پھنس جاتا‘ قرضے سر پہ چڑھ گئے بعض اوقات خودکشی کے خیالات دل میں آتے پھر اپنے بچوں کا سوچنا اور ارادہ بدل لیتا۔ ہر دن ایک بڑا چیلنج بن کر آتا اور ایک نئی پریشانی دے کر چلا جاتا۔ میں روتا اور سوچتا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔
پھر ایک جاننے والے کے ذریعے تسبیح خانے جانے کا اتفاق ہوا وہاں آپ سے بیعت بھی ہوا درس بھی سنا دل کو بہت سکون ملا، گھر آیا تو طبیعت بہت خراب ہوگئی سر میں شدید درد ہورہا تھا متلی کی کیفیت محسوس ہورہی تھی فوراً سوگیا اگلے دن جب اٹھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے نئی زندگی شروع ہوگئی ہو۔ حضرت صاحب پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں‘ تسبیح کرتا ہوں‘ گالی گلوچ کو بھول گیا ہوں‘ کسی سے بدتمیزی نہیں کرتا ‘غصہ وضو کےبعد تین گھونٹ پانی پینے سے ختم ہوگیا ہے۔بلکہ اب غصہ آتا ہی نہیں‘ آفس میں سب عزت دیتے ہیں ماشاء اللہ داڑھی بھی رکھ لی ہے‘ حرام سے دور بھاگتا ہوں نہ کسی کو تنگ کرتا ہوں تہ تنگ ہوتا ہوں۔ تسبیح خانے کی برکت سے زندگی جنت بن گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپکو اور آپکے تمام احباب کو اجر اعظیم عطا فرمائے اور تسبیح خانہ تاقیامت قائم و دائم رہے (آمین)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں