یہ مئی 1999 تھا۔ جنوبی ایشیا میں یہ مہینہ گرمی سے بھرپور ہوتا ہے، مگر پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقعہ کوہ ہمالیہ کا سلسلہ یخ بستہ سردی کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ ایسے میں دنیا کے بلند ترین محاذ پر جنگ کی چنگاری بھڑک اُٹھتی ہے۔ یہ ہرگز کوئی معمولی ٹکراؤ نہیں تھا بلکہ دو ایٹمی طاقتیں زور آزمائی میں مصروف تھیں۔وہ ہر صورت کارگل کے محاذ جنگ پر پہنچانا چاہتا تھا۔ اس نے رضا کارانہ طور اپنی خدمات پیش کردیں جو قبول کرلی گئیں۔والد خورشید خان نے رخصت کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ’’ جیتا رہ میرے شیر! ‘‘سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس محاذ پر دشمن کی زبردست گولہ باری ہورہی تھی۔ 4 جولائی 1999 کو کیپٹن کو ٹائیگر ہل جانے کا حکم ہوا۔ یہاں پاک فوج نے تین چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ کیپٹن کا رُواں رُواں ذوق شہادت سے لبریز ہو چکا تھا۔ کیپٹن نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ کیپٹن نے علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی چوکی پر جاکر کیپٹن ہاشم سے بات شروع ہی کی تھی کہ دشمن کی 8 سکھ رجمنٹ نے بھرپور حملہ کر دیا۔ پاک فوج کے سپاہی پوزیشنیں بدل بدل کر بھرپور مقابلہ کرتے رہے، فی الحال اسلحے کی برتری حاوی ہو چکی تھی۔ میجر ہاشم نے توپ خانے کو اپنی ہی پوزیشنز پر گولہ باری کا حکم دے دیا۔ جنگ میں یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ یہاں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، ایک طرف گولے گر رہے تھے تو سامنے دشمن۔ پاکستانی فوج کے جوان ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کر رہے تھے۔ کیپٹن بھی زخمی ہوچکا تھا۔ اسے ایک سکھ فوجی آواز سنائی دے جو گالی دے کر کہ رہا تھا، ’’مرگئے سارے!‘‘کیپٹن نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ وہ سکھ فوجی ایک شہید کے پاک چہرے پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک نظر اپنے اطراف میں پڑی پاک فوج کے جوانوں کی لاشوں پر ڈالی، ایک فوجی کی مشین گن اپنے ہاتھ میں لی اور تاک کر اس فوجی کا نشانہ لیا جو لاشوں کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ کیپٹن کی نشانہ بازی ویسے ہی کمال تھی۔کیپٹن نے کچھ بھارتی سپاہیوں کو ڈھیر کیا۔ باقی سمجھے کہ پاک فوج نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور بھاگ نکلے۔ وہ اپنے کیمپ کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کا پیچھا زخمی شیر کر رہا تھا۔ بھارتی فوج کیمپ میں داخل ہوئی۔ کیپٹن بھی ان کے پیچھے کیمپ میں داخل ہو کر ان کو نشانہ بنانے لگا۔ اب بھارتی فوجیوں کو پتا چلا کہ انہیں یہاں تک مار کر لانے والا صرف ایک شخص ہے جس کی فائرنگ سے کئی بھارتی سپاہی واصل جہنم ہو چکے تھے۔ اب بھارتی فوج کیپٹن کو گھیرنے کی کوشش کررہی تھی۔ جو سامنے آتا، کیپٹن فائر کھول کر اسے نشانہ بناتا۔ یہ اعصاب شکن لمحات تھے۔اب وہ لمحہ بھی آگیا کہ جب کیپٹن کی مشین گن کا میگزین خالی ہوچکا تھا۔ اتنے میں بھارتی فوج کا کمانڈنگ افسر نکل کر باہر آیا۔ بھارتی فوج کے پچاس کے قریب سپاہیوں نے کیپٹن کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا۔ کمانڈنگ آفسر نے کیپٹن کو ہتھیار ڈالنے کی وارننگ دی۔کیپٹن کہاں ہتھیار ڈالنے آیا تھا۔ اس نے اپنے قریب کھڑے سی او کے سر پر بندوق کا بٹ مار۔ افسر نے فائر کا حکم دیا۔ دشمن فوجیوں کی بندوقوں کے دہانے کھل گئے۔ پگھلا ہوا سیسہ کیپٹن کے سینے میں اتر رہا تھا۔ اس قدر زخمی ہوجانے کے بعد بھی کیپٹن کی کوشش تھی کہ کسی طرح سی او کو ایک بار پھر نشانہ بنائے۔ وہ دین وملت کو نشانہ بنانے والوں کوایسا سبق سکھانا چاہتا تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ کچھ اور گولیاں کیپٹن کے جسم سے پار ہوئیں تو اس کی پیش قدمی رک گئی۔ شہادت کی منزل آچکی تھی۔’’بیٹا کبھی شہادت کا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سر اور سینہ نہ جھکنے دینا،‘‘ اس کے ذہن کے دریچوں میں خان گلاب کی ہدایت گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہاتھ میں تھامی مشین گن کا سہارا لیا۔ ’’یااللہ تیرا شکر! لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ،‘‘ کیپٹن کے جسد خاکی نے آخری ہچکی لی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے جان اللہ کے سپرد کر دی۔ اس کا سر مشین گن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔بھارتی فوج کے جوان اور کمانڈنگ افسر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ اچانک کچھ سپاہیوں نے آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہی تو کمانڈنگ آفیسر نے جوانوں کو سختی سے منع کیا۔ ’’کوئی اس جوان کی لاش کے قریب نہ آئے!‘‘ کمانڈنگ آفیسر آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کے عین سامنے آن کھڑا ہوا۔ وہ کیپٹن کے چہرے پر تبسم دیکھ کر سحر زدہ ہو گیا۔ ’’بہت ہی جی دار فوجی تھا۔ اس کی بہادری نے میرا دل جیت لیا۔ اس کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ سری نگر پہنچا دو،‘‘ وہ ٹرانس کے عالم میں بول رہا تھا۔ بھارتی کمانڈنگ افسر نے کپتان کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ اعلی انتظامیہ تک پہنچا دیا اور ساتھ اپنے افسروں سے اس کی بہادری کا اعتراف پاکستانی حکومت تک پہنچانے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔کیپٹن کی بہادری کا اعتراف اس کے ورثا تک پہنچا دیا گیا: ’’آپ کا یہ بہادر افسر یقیناً آپ کی فوج کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس نے سخت ترین حالات میں جس جرأت، بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ میدان جنگ میں کیا، وہ ہمارے لیے متاثر کن ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ ہماری فوج کیپٹن کو مدتوں فراموش نہیں کر پائے گی۔‘‘ 18 جولائی کی آدھی رات گزر چکی تھی۔ کراچی ملیر چھاؤنی کے ایئرپورٹ پر پاک فوج کے سینکڑوں جوان، شہری اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ فضا پر ایک عجب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ سب دہلی سے آنے والی پرواز کا انتظار کر رہے تھے۔انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ رن وے پر جہاز اترا جس میں سے دو تابوت باہر آئے۔ ایک تابوت میں کیپٹن کا جسد خاکی تھا جبکہ دوسرے فوجی کی شناخت ہونا باقی تھی۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے تابوت جہاز سے اتارے اور مارچ کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے زمین پر رکھ دیئے۔ لوگوں کی آنکھیں فخر کے آنسوؤں سے نم ہو رہی تھیں؛ اور کیوں نہ ہوتیں کہ دھرتی کے بیٹے نے بہادری اور وفا کی وہ مثال قائم کردی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔یہاں سے اس کے تابوت کو پہلے اسلام آباد اور پھر اس کے آبائی علاقے نوا کلے پہنچا دیا گیا۔ وہ نوا کلے کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا۔ نوا کلے کی زمین اپنے سپوت کے انتظار میں بانہیں پھیلائے تھی۔ یہ تھا گارگل کا شیر، کیپٹن کرنل شیر خان۔ دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر کیپٹن کرنل شیر خان کو نشانِ حیدر دیا گیا اور وہ زندہ جاوید ہوگئے۔ پاکستان زندہ باد! پاک فوج زندہ باد!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں