اگر آپ چہروں کی طرح افعال کی خوبصورتی کے بھی قائل ہیں تو میں کہوں گا کہ ناراض ہونا بھی اتنا ہی خوبصورت کام ہے جتنا کہ محبت کرنا فرق صرف اتنا ہے کہ اظہار محبت کے وقت دل کی کیفیت چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوتی ہے اور ناراضگی کے وقت یہی دل سورج کے طلوع ہونے کا منظر پیش کرتا ہے یعنی سرخ سویرا بن جاتا ہے۔ اخلاق کا درس دینے والے حضرات کو آپ نے اکثر یہ کہتےہوئے سنا ہوگا کہ ناراض ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔ یقین کریں کہ ان کا یہ ارشاد سراسر غلط اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
ناراض ہونے کی صلاحیت آپ کی جبلت میں موجود ہے۔ اگر آپ اس صلاحیت کو بروئے کار نہیں لائیں گے تو کوئی اچھا کام نہیں کریں گے۔ موقع محل کے مطابق ناراض ہونا آپ کا پیدائشی حق ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تھے تو کیا آپ ناراض ہوتے ہوئے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ کیا اس وقت آپ کا رونا خوشی کا رونا تھا۔ لہٰذا جہاں آپ کو محسوس ہو کہ ناراض ہونا چاہیے آپ کو محسوس ہو کہ ناراض ہونا ناگزیر ہے تو وہاں ضرور ناراض ہوا کریں۔ اس فطری جذبہ کا گلا بالکل نہیں گھوٹنا چاہیے بلکہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے اس سے زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ ہم ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ ناراضگی کا فلسفہ کیا ہے؟ اس قسم کے سوالات پر غور کرتے وقت عموماً چند غلط فہمیوں کے پیدا ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اکثر ناراضگی کے ساتھ غصہ اور مخالفت کے جذبات کو نہایت آسانی کے ساتھ گڈمڈ کرجاتے ہیں جبکہ ناراضگی تو غصہ اور مخالفت سے بالکل ایک الگ چیز ہے۔ غصہ میں تمام تر جذبات کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ غصہ سوائے جذبات کی آگ کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس میں عقل کا رکھ رکھاؤ اور تدبیر کا نام نہیں ملتا۔ یہ تو ایک لاوا ہے جو ابلتا چلا جاتا ہے۔ اس کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ انجام کیا ہوگا اور اب مخالفت کی سنئے۔ مخالفت میں صرف جذبات ہی نہیں ہوتے بلکہ جذبات کے ساتھ تعصب اور عقل کی حیلہ سزیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ مخالفت اپنے آپ کو کبھی کبھی اس حد تک گونگا بہرہ بنا دیتی ہے کہ پھر وہ نہ تو جذبات کا خیال کرتی ہے اور نہ ہی عقل کی کچھ سنتی ہے۔ غالباً مخالفت کی اس ہی صورت کو ہٹ دھرمی کہتے ہیں۔ بہرحال غصہ ہو یا مخالفت یہ دونوں چیزیں ناراضگی سے مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔
ایک اور مزے کی بات ناراضگی غصہ اورمخالفت ان تینوں میں غصہ کی عمر سب سے تھوڑی ہوتی ہے اور اکثر یہ غریب اپنا مقصد حاصل کیے بغیر فنا ہوجاتا ہے۔
مخالفت کی عمر غصہ کی عمر سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کے اثرات صحت منداور خوش ذائقہ نہیں ہوتے۔ البتہ ناراضگی کویہ شرف حاصل ہے کہ اس کی عمر تھوڑی ہو یا زیادہ اس کے اثرات صحت مند بھی ہوتے ہیں اور باوار بھی‘ ناراضگی کے معرض وجود میں آنے کاسب سے بڑا سبب کسی کی پسند یا ناپسند کو بتایا جاتا ہے اور یہ بات بھی سوفیصد درست ہے کہ ناراضگی کسی کی پسند اور ناپسند کے باعث ظہور مین آتی ہے۔ ویسے تو محض ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی ناراضگیاں ہمارے یہاں عام ہوتی ہیں لیکن جس طرح یہ ناراضگیاں عام اور معمولی ہوتی ہیں ایسے ہی ان کے نتائج عام اور معمولی قسم کے ہونےچاہئیں لیکن اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ یہی معمولی معمولی ناراضگیاں خطرناک نتائج کی حامل بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ناراضگی محض غصہ اور مخالفت کا نام نہیں‘ غصہ ہوجانا یا کسی کا مخالف ہوجانا آسان کام ہے لیکن صحیح معنوں میں کسی سے ناراض ہونے کیلئے بے صبرو تحمل اور حوصلہ مندی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہٰذا ناراضگی کے اس حسن و کمال کو دیکھتے ہوئے دل کرتا ہے کہ ناراضگی کو ایک فن کہہ دیا جائے لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خیال آتا ہے کہ جس طرح محبت کرنے کو ہم فن نہیں کہہ سکتے۔ اس طرح ناراضگی کو بھی ہم فن کا نام نہیں دے سکتے۔
کہتے ہیں کہ آدمی کو ترقی کرنے کیلئے موقع ومحل کے مطابق ناراض ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ جو لوگ موقع محل کے مطابق ناراض ہونا نہیں جانتے خود ترقی کی راہیں اکثر ان سے منہ موڑ دیتی ہیں۔ اس ضمن میں یہاں ایک مشورہ بھی سن لیجئے ممکن ہے کہ آپ میرے اس مشورے کو خطرناک محسوس کریں۔ لیکن حقیقت کچھ اس طرح سےہے کہ اگر آپ اپنی جگہ حق پر ہیں یعنی کسی جائز اور صحیح بات پر ناراض ہورہے ہیں تو آپ کے مقابلے میں خواہ کتنا ہی طاقتور انسان کیوں نہ ہو وہ آپ کی ناراضگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صحیح بات پر ناراض ہونے والے انسان کو آپ نے کبھی جھنجھلاتے ہوتے نہیں دیکھا ہوگا۔جس ناراضگی میں جھنجھلاہٹ نہ ہو تو بس سمجھ لیجئے وہ ناراضگی کوئی معمولی ناراضگی نہیں بلکہ بہت سی قوتوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ویسے ناراضگی اختیار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک حد قائم رکھی جائے طلب یہ کہ آپ اس حد تک ناراض ہوں جس حد تک ناراضگی کی بات کا تعلق ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب ہم کسی سےناراض ہوتے ہیں تو مکمل طور پر ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ناراض ہونے والی ایک آدھ بات ہوتی ہے لیکن ہم کبھی پوری شخصیت سے منہ پھلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ناراض ہونےکا یہ طریقہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں