Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ٹھنڈ میںٹھنڈے علاقوں کی سیر اور احتیاطی تدابیر

ماہنامہ عبقری - نومبر 2018ء

بالائی علاقوں میں رات کی آمد ہی سخت سردی کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ بادل گھر آئیں تو دن میں بھی درجہ حرارت تیزی سے گر سکتا ہے۔ ایسے شوقین افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہلکے لیکن ہوا اور پانی کو اندر آنے سے روکنے والے خیمے ضرور ساتھ لے جائیں ۔

شمالی کوہستانی علاقوں میں ستمبر، اکتوبر سے سرد ہوائوں کے داخل ہونے کا سلسلہ شروع ہوتے ہی وہاں کے باشندے اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے لگتے ہیں۔ ان مہینوں میں بالائی علاقوں میں جانے والے سیاح یہ منظر دیکھتے ہیں کہ وہاں کی بستیاں تیزی سے خالی ہونے لگتی ہیں۔ بالائی علاقوں کا رخ کرنے والوں کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سخت سرد موسم سے بچیں۔ موٹر کاروں کے ذریعے سے جانے والوں کے لیے تو یہ مسئلہ اتنا شدید نہیںہوتا لیکن بلندی پر واقع کوہ و دامن کی پیدل سیر کرنے والوں کے لیے یہ ایک سنگین بلکہ مہلک کاوش ثابت ہوسکتی ہے۔ گرم علاقوں کے رہنے والوں کے لیے جس طرح سخت گرمی اور لُو کا موسم ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے، خاص طور پر اس موسم میں رات کے وقت تیزی سے گرنے والے درجہ حرارت کی وجہ سے جسم کی حرارت میں کمی موت کا پیغام لاتی ہے بلکہ سرد راتیں میدانی شہروں میں بھی کھلے میں شب بسری کرنے والوں کو ہلاک کردیتی ہیں۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ سیاحت پاکستان کی دعوت دینے والے ادارے بھی گرمیوں کے باوجود بالائی علاقوں میں گرم کپڑوں کے اہتمام کی تاکید کرتے ہیں۔ میدانی علاقوں کے مقابلے میں بالخصوص رات کے اوقات میں سردی بہت بڑھ جاتی ہے، اس لیے وہاں دن تو ہلکے کپڑوں میں گزارا جاسکتا ہے، لیکن رات کے لیے گرم بستر، کپڑوں، آگ اور گرم مشروبات کا اہتمام بہت ضروری ہوتا ہے۔
ٹھنڈسے واقع ہونے والی موت طبی اصطلاح میں حرارت بدن میں کمی (HYPOTHERMIA)کہلاتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب جسم کے اندرونی حصے کا درجہ حرارت نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کے آگھیرنے کی صورت میں متاثرہ شخص شدید قسم کی کپکپاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے بات کرنا دشوار ہو جاتا ہے، یادداشت جواب دے جاتی ہے اور جسم کے عضلات کا باہمی تال میل یا ربط و ضبط رخصت ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کے جاری رہنے سے بے ہوشی اور پھر موت واقع ہو جاتی ہے۔
جسم کے اندرونی درجہ حرارت میں کمی کے کئی ملے جلے اسباب ہوتے ہیں مثلاً نمی، سردی، سرد ہوا، اور کمزور جسمانی حالت۔ سرد موسم میں کوہستانی علاقوں کی پیدل سیر کے شوقین افراد یا وہاں برف خرامی (SKIING) کے رسیا حضرات کو خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔جسم کے درجہ حرارت میں کمی کی کیفیت سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت بھرپور صحت اور گرم کپڑوں کی ہوتی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اونی کپڑے پہننے کے علاوہ ایسا کوٹ وغیرہ پہنا جائے جو بیرونی سردی کو جسم تک پہنچنے سے روکے، یعنی بارش اور سخت سرد ہوا سے جسم گیلا ہونے اور سردی سے محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ کھانے کی ضرورت محسوس نہ ہونے کے باوجود مناسب غذائیں استعمال کرتے رہنا چاہیے کیونکہ غذا حرارتِ جسم کا ایک بہت اہم ذریعہ ہوتی ہے۔
بالائی علاقوں میں رات کی آمد ہی سخت سردی کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ بادل گھر آئیں تو دن میں بھی درجہ حرارت تیزی سے گر سکتا ہے۔ ایسے شوقین افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہلکے لیکن ہوا اور پانی کو اندر آنے سے روکنے والے خیمے ضرور ساتھ لے جائیں کیونکہ کہ اندھیرے، دھند اور بارش کی وجہ سے کیمپ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسی مہم جو پارٹیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون اور ہوش مندی کے ساتھ فیصلہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح تھکن اور اس کے نتیجے میں کمزوری سے بچ کر خود کو سردی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جسم حرکت میں رہے، کیوں کہ بے حرکتی سے جسم کا درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے۔ جسم کے عضلات کو اینٹھنے اور اکڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں متحرک بھی رکھنا چاہیے۔ کیمپ کے اندر بھی لیٹے یا بیٹھے ہاتھ پائوں کو حرکت دیتے رہنا چاہیے۔اگر کوئی ساتھی چلتے ہوئی لڑھک رہا ہو یا کانپ رہا ہو اور بات کرنا اس کے لیے مشکل ہورہا ہوتو اسے فوری طور پر گرم گرم چائے یا کافی خوب شکر گھول کر پلانی چاہیے۔ ہوسکے تو گرم پانی کی بوتل سے اسے حرارت پہنچانے کا اہتمام کریں۔ کپڑے گیلے ہوگئے ہوں تو خشک کپڑے پہنائیں اور آگ جلانے کا اہتمام کریں۔ گیس کے سفری چولہے سے بھی یہ کام احتیاط کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ ساتھیوں کو اسے اپنے گھیرے میں لے کر اس کے گرد لیٹ جانا چاہیے تاکہ ان کے جسم کی گرمی سے اس کا جسم گرم رہے۔ ایسے میں بے ہوشی طاری ہورہی ہوتو گرم مشروب کے علاوہ مرغی وغیرہ کے کیوبس کا گرم گرم شوربا پلانے کے علاوہ اسے میٹھی گولیاں، چاکلیٹ اور شہد وغیرہ خوب کھلائیں۔ کیونکہ میٹھی اشیاء کے کھانے سے جسم میں فوری طور پر توانائی پیدا ہوتی ہے۔ الکحلی مشروبات کا استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے جسم کی اوپری سطح کے ٹھنڈے خون کا رخ اندرون جسم کی طرف ہو جاتا ہے جس سے جسم کا درجہ حرارت مزید گر جاتا ہے۔ ایسے مہم جوئوں کو اپنے ساتھ اچھی قسم کا گڑ ضرور ساتھ رکھنا چاہیے۔ گڑ سے جسم میں زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرخ خشک ادرک(سونٹھ)، دارچینی، لونگ اور اجوائن کا سفوف چائے وغیرہ میں شامل کردینے سے جسم میں حرارت بڑھ جاتی ہے۔ ان چند سادہ اقدامات کے بروقت اختیار کرنے سے سردی کی لپیٹ میںآنے والے کی جان بچائی جاسکتی ہے۔


موسم سرما میں ناک کے ذریعہ سے جراثیم کا حملہ
ہر سال موسم سرما میں جراثیم انسان کی ناک کا گھیرائو کرلیتے ہیں مگر اب نئی تحقیقات کے ذریعہ سے بچائو کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اب انسان کی ناک اور متعلقات میں ایسی تدبیریں کی جارہی ہیں کہ انسان کی صحت محفوظ رہ سکے اور جراثیم کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں مختلف دوائیں، ٹیکے اور ڈراپس استعمال کیے جارہے ہیں۔ تنفس کی نالیوں کی بھی صفائی ہورہی ہے۔ کیونکہ بیشتر سرمائی امراض کا تعلق انہی نالیوں سے ہوتا ہے۔
جراثیم کا مقابلہ کرنے میں تنفس کی نالیوں کی اہمیت محتاج بیان نہیں، بلکہ اصلی میدان کا رزار یہی نالیاں ہوتی ہیں۔ انسان کے اندرونی اعضا تک رسائی کا ایک خاص راستہ ناک ہی ہے۔ ہوا بھی اسی راستے آمدورفت کرتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک بالغ آدمی کی ناک سے روزانہ ۲۵ گیلن ہوا گزرتی ہے۔ ورزش کرنے والے کی ناک سے گزرنے والی ہوائوں کی مقدار اس سے بھی کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان ہوائوں کے جراثیم کا بھی گزر ہوسکتا ہے ان میں وائرس، بیکٹیریا وغیرہ سبھی کچھ ہوسکتے ہیں۔ ہوائی ذرات بھی ہوتے ہیں۔تنفس کی نالیاںپھیلتی اور سکڑتی ہیں۔ ان کے ذریعہ سے جہاں بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں وہیں ان کے ذریعہ سے بیماریوں سے دفاع کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ مثلاً مضر ہوائی اثرات کو سب سے پہلے بلغم ہی روک لیتا ہے۔ کچھ روئیںاور جھلیاں بھی ہوتی ہیں جو صحت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو اندر جانے سے روک دیتی ہیں۔ کچھ ارغوانی اور بنفشی رنگ کے بلغم بھی ہوتے ہیں جو حملہ آور ذرات کو مار بھگاتے ہیں لیکن کبھی کبھی صحت کا تحفظ کرنے والوں کو شکست بھی ہو جاتی ہے۔ تب ہی انسان پر سردی، نزلہ، زکام، انفلوئنزا وغیرہ کا حملہ ہوتا ہے۔
وائرس اور دوسرے بیمار ڈالنے والے عناصر سے بچائو کے لیے جو ٹیکے دیئے جاتے ہیں ان کا مقصد بھی وائرس کا استیصال کرنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر نتھنے کے فلو کا ٹیکوں کے ذریعہ سے کافی بچائو ہو جاتا ہے۔
نتھنے کے فلو سے بچائو کا ٹیکا وائرس کو ناکارہ کردیتا ہے اور آدمی اس کی زد سے پانچ سال کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اسے مشی گن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جان ماب نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے ایک پرانی ترکیب سے کام لے کر یہ ٹیکا ایجاد کیا ہے اس کے لیے انہوں نے سالماتی حیاتیات کے جدید ترین آلات سے کام لیا۔ اس کے بعد میری لینڈ کے انسٹیٹیوٹ اوف الرجی و متعدی امراض نے اس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس کی تیاری کے لیے مالی اعانت کی۔ اب ناش ویلے میں اس کی مزید آزمائش اور جانچ پڑتال ہورہی ہے۔ اس کے لیے ایک پنج سالہ بڑے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔ اگر اس کے نتائج سائنس دانوں کی توقع کے مطابق رہے تو موسمی فلو سے متعلق پالیسی میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے۔ ویسے ابتداءی تجربات میں کامیابی کے کچھ آثار پائے گئے ہیں۔ راجسٹر یونیورسٹی نیویارک، ورجینیا یونیورسٹی میں بھی ایک بڑا تجربہ کیا جارہا ہے۔ یہ تجربات کام یاب رہے تو فلو کے متعدی امراض سے متعلق علاج میں بڑا تغیر ہوسکتا ہے۔
بیلر کالج اوف میڈسن کے ڈاکٹر رابرٹ بی کوچ اور ان کے رفقاے کار نے بھی نتھنے کے فلو کے ٹیکے سے متعلق تجربات اور آزمائش کی ہے۔ ایسے تجربات زیادہ تر طلبہ پر کیے گئے ہیں مگر اب ’’رسک گردپس‘‘ پر بھی کیے جارہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایردسول کو بھی آزمایا جارہا ہے۔ ٹیکے کا وسیع پیمانے پر اہتمام زیر بحث متعدی امراض کے دفعیہ کے لیے کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔
ناک میں ٹپکائی جانے والی دوا(ڈراپس) سستی ہوتی ہے۔ تاہم اس سے بڑے فائدے ہوئے ہیں۔ ایرد سول اسپرے جسے آج کل آزمایا جارہا ہے۔ بیلر کی تحقیقاتی ٹیم کے ڈاکٹر ورنن نائٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ایرد سول اسپرے کے ذریعہ سے دوائیں ڈالنے کا تجربہ کررہے ہیں۔ وہ سالہا سال سے ایسے تجربات کی قیادت کرتے چلے آرہے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ زکام اور فلو سمیت متعدد امراض کے جراثیم جو ہوائی ذرات سے جسم انسانی میں منتقل ہو جاتے ہیں اسپرے کے ذریعہ ان کا بھی استیصال ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ ذرات کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں۔ بیلر گروپ نے بڑی تفصیل سے اس کا مطالعہ کیا ہے۔
ایروسول کے ذریعہ سے دوائیں اور ٹیکے دینے کے لیے ڈاکٹر نائٹ کے گروپ نے ایک مشین بھی تیار کی ہے جس کی جسامت چھوےٹ ٹائپ رائٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ اس مشین سے ناک کے راستے جسم کی نازک اور پیچیدہ نالیوں تک میں دوائیں داخل کی جاسکتی ہیں۔ اس راستے سے خون کے سفید سالمے کے برابر دوائوں کے ذرات اندر داخل کیے جاتے ہیں جو امراض کی روک تھام کے لیے نہایت ہی موثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نائٹ کہتے ہیں ذرات ناک کے راستے پھیپڑوں تک پہنچ جاتے ہیں اور کارگر ہوتے ہیں۔
سمجھا جاتا ہے کہ فلو، سردی، زکام غیرہ کے وائرس ہوا ہی میں موجود ہوتے ہیں اور سانس کے ساتھ جسم کے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔ بیلر گروپ نے مطالعہ کیا ہے کہ یہ ذرات جس میں کس طرح داخل ہوتے اور پھیلتے ہیں۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کم از کم بیس مطالعات کیے گئے ہیں۔ اب یہ گروپ یہ معلوم کررہا ہے کہ ایرو سول اسپرے کے ذریعہ سے دوائیں ڈالنے سے ان ذرات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر نائٹ نے جو مشین ٹائپ رائٹرکے برابر تیار کی ہے، اس کے ذریعہ سے جسم کے اندر تمام حصوں میں جھاگ اور دوائیں داخل کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر نائٹ کے بقول اس کے سالمات نظام تنفس کے تمام حصوں میں پھیل جاتے ہیں، اس طرح جسم کے اندر نہایت ہی کامیابی کے ساتھ اینٹی وائرس کی دوائیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔
بیلر گروپ نے اس سال انفلوئنزا اور سردی زکام کے لیے ایک اور بھی دوا تیار کی ہے جسے رین دیرن کا نام دیا گیا ہے۔ اسے بھی وائرس کے خلاف آزمایا جارہا ہے اور اسے بھی ایردسول کے ذریعہ سے جسم کے اندر پہنچایا جاتا ہے۔ سردی زکام کی بعض بیماریاں عام طور پر کم سن بچوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان میں ایک مرض اس قدر شدید ہوتا ہے کہ بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
یہ سردی ہی ہے جو ناک اور حلق کے ذریعہ سے متعدی جان لیوا مرض پھیلاتی ہے۔ سردی کا حملہ ہونے پر بالعموم نتھنے بند ہو جاتے ہیں اور چھینکیں آنے لگتی ہیں۔ کبھی لگاتار چھینکیں آنے کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 047 reviews.