ہمارے ارد گرد لاتعداد واقعات بکھرے پڑے ہیں یا تو ہم ان پر توجہ نہیں دیتے یا پھر جلدی بھول جاتے ہیں اور دنیا کے مشاغل میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ واقعات دوسروں کیلئے ہیں اور خود کوئی سبق حاصل نہیں کرتے حالانکہ اگر انسان سیکھنا چاہے تو قدم قدم پر اسے رہنمائی ملتی ہے۔ ہمارے علاقے کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بہت بڑا زمیندار تھا جس کا نام خادم حسین تھا اور وڈیروں اور جاگیردارانہ سوچ رکھتا تھا۔ اس کے سامنے کسی دوسرے کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔اللہ نے کافی اراضی عطا کر رکھی تھی وہ ہر وقت اسی گھمنڈ میں رہتا تھا کہ میرے مقابلے کا آدمی اس علاقے میں نہیں ہے۔ نوجوان تھا اسی لئے اس کے والد نے نوجوانی میں اپنے عزیزوں میں اس کی شادی کر دی۔ یہ کھلنڈرا تھا پھر اس کے دوست کھانے پینے والے تھے کیونکہ جب پیسہ آتا ہے تو اس قسم کے دوست بھی مل جاتے ہیں ۔ دیر سے گھر آنا اس کا معمول بن گیا۔ اس کا باپ اسے سمجھاتا تھا کہ اس کی شادی ہوئی ہے ‘اس کی بیوی کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ والد کے سامنے ہاں ہوں کر دیتا تھا مگر بیوی کے ساتھ اس کا رویہ درست نہ رہا جس طرح دیہاتی علاقوں میں ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو صرف قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے اور دو چار جماعتیں پڑھ لیں اور بس۔ خادم حسین کی بیوی نیک سیرت اور خوبصورت تھی مگر بالکل سیدھی سادھی تھی۔ چپ چاپ رہتی تھی اور ہر وقت خاوند کی خدمت کیلئے تیار رہتی تھی اور قرآن پاک پڑھتی رہتی تھی ۔خادم حسین جب بھی گھر آتا ‘ بیوی کو گالی گلوچ کرتااور بلاوجہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مارتا پیٹتا تھا لیکن اس کی بیوی خاموش رہتی تھی ۔اسی دوران خادم حسین کا والد فوت ہو گیا ۔والد کاتھوڑا بہت جو ڈر تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ حلقہ احباب بھی وسیع ہو گیا، شراب و کباب کی محفلیں بھی سجنے لگیں اور ہر وقت نشے میں دھت رہنے لگا اور بازاری عورتوں کی آمد ورفت بھی بڑھ گئی مگر اس کی بیوی خاموش رہی۔ بزرگوں نے خادم حسین کو سمجھانے کی کوشش کی مگر خادم حسین نے الٹا بے عزت کیا اور منع کیا کہ آئندہ اس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے اور اس کا اپنی بیوی کے ساتھ رویہ مزید سخت ہو گیا۔ ذہنی وجسمانی اذیت دیکر اس کو تسکین ہوتی تھی مگر بیوی نے اف تک نہ کی اور نہ ہی اپنے والدین کو ہی اس بابت کچھ بتلایا بلکہ خادم حسین کو سمجھاتی تھی کہ برے کام چھوڑ دے والدین کی چھوڑی ہوئی اراضی کو ضائع نہ کر مگر خادم حسین جوانی اور دولت کے نشے میں تھا۔ بری عورتیں آتی جاتی تھیں ایک لڑکی زبردستی خادم حسین سے چمٹ گئی اور شادی پر اصرار کیا اور اپنی جھوٹی محبت کے دعوے کئے ۔ اس لڑکی نے خادم حسین کو اپنے جال میں پھنسا لیا ۔لڑکی خوبصورت تھی، شوخ وچنچل تھی۔ اس کے پاس ادائیں تھی اور خادم حسین کے پاس دولت تھی۔ دونوں بہت آگے نکل گئے۔ مجبوراً خادم حسین کو دوسری شادی کرنی پڑی اور وہ لڑکی دوسری بیوی بن کر خادم حسین کی حویلی میں رہنے لگی مگر پہلی بیوی چپ رہی۔ خادم حسین دوسری بیوی کے کہنے پر پہلی بیوی کو مارتا تھا حتیٰ کہ دوسری بیوی نے مطالبہ کیا کہ پہلی بیوی کو گھر سے نکال دو ۔ خادم حسین کی آنکھوں پر دولت کے شیشے آئے ہوئے تھے اس نے پہلی بیوی کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا لیکن اس اللہ کی بندی نے پھر بھی کوئی شکایت نہیں کی۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے خادم حسین کے گردے ناکارہ ہونا شروع ہو گئے۔ یادداشت کمزور ہونے لگی اور دولت بھی ختم ہونے لگی۔ دوسری بیوی نے مختلف حیلے بہانوں سے کافی اراضی اپنے نام منتقل کرا لی تھی اور دوسری بیوی نے اب طنزیہ باتیں شروع کر دی تھیں۔ ایک دن خادم حسین گھر سے ڈیرہ کی طرف جارہا تھا اور انتہائی کمزوری محسوس کر رہا تھا اور مشکل سے چل رہا تھا کہ اچانک اس کا اپنا بیل بھاگتا ہوا آیا اور اس کے پیچھے اس کا نوکر تھا اور شور مچاتا آرہا تھا کہ ہٹ جاﺅ بیل بپھرا ہوا ہے مگر خادم حسین کمزوری کی وجہ سے بھاگ نہ سکا اور بیل نے پیچھے سے آکر زور سے ٹکر ماری اور خادم حسین منہ کے بل دور جاگرا اور بیل نے کمر پر اپنا گھٹنا زور سے رکھا اور پاﺅں مارتا رہا۔ یہ اتنا اچانک ہوا کہ نوکر کے پہنچنے سے پہلے ہی بیل نے ”اپنی کارروائی“ مکمل کرلی اور جب خادم حسین نے اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھ نہ سکا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی پر سخت چوٹیں آئی تھیں۔ فوراً ہسپتال پہنچایا گیا‘ کافی ٹیسٹ ہوئے ‘رپورٹ آئی کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ٹوٹ گئے ہیں اور گرنے کی وجہ سے گردن کے مہروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اب خادم حسین کی حالت یہ تھی کہ صرف آنکھ جھپک سکتا تھا ۔نہ کھا سکتا تھا‘نہ اٹھ سکتا تھا‘ نہ ہل سکتا تھا اور نہ ہی بول سکتا تھا۔ دوسری بیوی چالاک تھی۔ اس نے دیکھا کہ اب خادم حسین ”فارغ“ ہو گیا ہے تو سامان سمیٹا اور خاموشی سے حویلی چھوڑ کر چلی گئی۔ چند ہی دنوں میں خادم حسین کی طبیعت مزید خراب ہو گئی۔ ہر وقت آنسو بہتے رہتے تھے اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں پھنس گیا مگر سانس اٹک گئی۔ مرنا چاہتا تھا‘مر نہیں سکتا تھا۔پیشاب پاخانے کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ عزیز و اقارب کی خواہش تھی کہ جلدی موت آجائے اور اس اذیت سے نجات مل جائے مگر سانس تھی کہ چل رہی تھی اور کبھی کبھار آنکھ کھول کر دیکھ لیتا تھا۔کسی نے کہا کہ پہلی بیوی کو بلواﺅ۔ خادم حسین نے پہلی بیوی سے زیادتی کی تھی، جب تک وہ معاف نہیں کرے گی اس کی روح نہیں نکلے گی۔ پہلی بیوی کے پاس پیغام بھجوایا گیا کیونکہ اس کا گھر دور دراز گاﺅں میں تھا۔ وہ خادم حسین کے گھر پہنچی، خادم حسین کا سارا جسم مفلوج ہو چکا تھا، بول نہیں سکتا تھا اور جسم حرکت نہیں کر سکتا تھا بڑی مشکل سے دونوں ہاتھوں کو ملایا جیسے معافی مانگی جاتی ہے۔ اس حالت کو دیکھتے ہی پہلی بیوی رونے لگی اور سب نے کہا کہ اسے معاف کر دو ‘پہلی بیوی نے روتے ہوئے کہا کہ خادم حسین ”میں نے تمہیں معاف کیا“ اور اسی وقت خادم حسین کی روح پرواز کر گئی جو پہلی بیوی کی ناراضگی کی وجہ سے اٹکی ہوئی تھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں