نافرمان بیٹا
آج سے کئی ہزار سال پہلے کی بات ہے، عراق میں اللہ کے نیک بندے رہتے تھے جن کے نام تھے ود، سواع، یغوث،یعوق اور نسر۔ وہ اللہ کی عبادت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے تھے۔ لوگ بھی ان سے محبت کرتے تھے جب وہ پانچوں فوت ہو گئے تو ہر کسی کو ان کی موت کا بڑا صدمہ ہوا۔ عراق والوں نے دلوں میں ان کی یاد باقی رکھنے کے لئے ان کی تصویریں بنا لیں۔ وہ ان تصویروں سے محبت کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے ان تصویروں کے سامنے جھکنا شروع کر دیا اور ان سے اولاد اور رزق مانگنے لگے۔ اللہ کے سوا کسی سے رزق اور اولاد مانگنا شرک ہے اور شرک ایسا گناہ ہے جو انسان کو دوزخ میں لے جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی طرف حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ ہر چیز اسی سے مانگو ‘اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ لیکن قوم نے آپ کی بات نہ مانی۔ قوم کے وڈیرے اور سردار آپ سے نفرت کرتے تھے۔ آپ جب انہیں اچھی اچھی باتیں سمجھاتے تو وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے۔ آپ علیہ السلام سامنے آتے تو وہ اپنی آنکھوں اور چہرے پر کپڑا ڈال لیتے، وہ جب دیکھتے کہ چند غریب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے ہیں اور وہ مسلمان ہو چکے ہیں تو کہتے کہ ہم ان غریبوں کے ساتھ ایک ہی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ آپ ان متکبر سرداروں کو سمجھاتے کہ اللہ کے ہاں امیر اور غریب کا کوئی فرق نہیں جو بھی ایمان لے آئے اور اچھے کام کرے اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اگر میں نے ان غریبوں کو اپنی مجلس سے اٹھا دیا تو اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور میں اللہ کو کسی صورت بھی ناراض نہیں کر سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک انہیں تبلیغ کرتے رہے اور اچھی اچھی باتیں سمجھاتے رہے لیکن انہوں نے آپ کی بات نہ مانی اور کفر وشرک پر اڑے رہے۔ ظالم آپ کو گالیاں دیتے اور مارتے پیٹتے تھے۔ آپ نے تنگ آکر اللہ سے بددعا کی کہ اے اللہ! تو ان سب کو ہلاک کر دے، آپ کی دعا قبول ہوئی اور نافرمان قوم پر سیلاب کی صورت میں اللہ کا عذاب آگیالیکن سیلاب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا تاکہ آپ اور آپ کے ماننے والے اس سیلاب میں ڈوبنے سے بچ جائیں۔ جب آپ کشتی بنانے لگے تو کافروں نے آپ کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ کوئی کہتا ”واہ بھئی واہ! نبوت کا کام نہیں چلا تو اب اس نے کشتیاں بنانا شروع کر دی ہیں“ دوسرا کہتا ”ارے یہ تو بتاﺅ یہ کشتی بنا کر چلائے گا کہاں؟ تیسرا کہتا ”ارے بھائی جس جوہڑ سے جانور پانی پیتے ہیں یہ وہاں کشتی چلائے گا“ پھر وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
حضرت نوح علیہ السلام ان کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے کام میں لگے رہے ۔جب کشتی تیار ہو گئی تو زمین کی تہہ میں سے پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے تمام ایمان والوں کو کشتی میں سوار ہونے کا کہا اور تمام جانداروں میں سے بھی ایک ایک جوڑا کشتی میں بٹھا لیا۔ جب سب بیٹھ گئے تو آسمان سے پانی برسنا شروع ہو گیا اور پانی کے چشمے بھی ابل پڑے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا ۔ اونچے اونچے مکان اور درخت پانی میں ڈوب گئے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ”کنعان“ تھا وہ برے دوستوں کی مجلس میں بیٹھتا اور ان کیساتھ آوارہ گردی کرتا تھا۔ برے دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے کنعان بھی برے کام کرنے لگا جو بھی بچہ برے دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہے وہ برا بن جاتا ہے۔ برے دوستوں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے۔ کنعان اللہ کے نبی کا بیٹا تھا مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو اس نے اپنے کافر دوستوں کا ساتھ دیا۔ جب کافر پانی میں ڈوبنے لگے تو حضرت نوح علیہ السلام نے کنعان کو سمجھایا کہ بیٹا کافروں کا ساتھ چھوڑ دو اور میرے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاﺅ لیکن کنعان نے آپ علیہ السلام کی بات نہ مانی۔ اس نے کہا ”میں کسی بہت اونچے پہاڑ پر چڑھ جاﺅں گا وہ مجھے غرق ہونے سے بچا لے گا“ نوح علیہ السلام نے فرمایا آج کوئی بھی خدا کے حکم سے نہیں بچ سکتا صرف وہی بچے گا جس پر اللہ رحم کرے“ پھر ان دونوں کے درمیان پانی کی موج حائل ہو گئی اور وہ غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا۔
پیارے بچو! یہ واقعہ قرآن کریم کے پارہ نمبر 12 اور سورة نوح میں ذکر ہوا ہے۔
ایک فرزند ایسا
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا، آپ غم زدہ کیوں نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا مجھے اس وقت اپنی والدہ محترمہ کی نصیحت یاد آگئی۔ بس والدہ کی یاد نے غم زدہ کر دیا انہوں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا علم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ اور امام احمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ دونوں حقیقی بھائی تھے۔ والد صاحب بچپن میں انتقال کر گئے تھے ۔ماں سوت کات کر گزر بسر کرتی تھی ۔وہ بے چاری اپنے بیٹوں کو کیا تعلیم دلواتی۔ ادھر شوہر نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میرے پیارے بیٹوں کو ضرور تعلیم دلوانا۔ وہ پریشان رہتی تھی کہ تعلیم کس طرح دلوائے۔ ان کے شوہر کے ایک دوست تھے۔ انہیں اپنے دوست کی وصیت کا معلوم تھا لیکن وہ بھی غریب آدمی تھے لیکن جیسے تیسے کر کے ماں نے ان کی تعلیم کا انتظام کر ہی دیا۔ ان دونوں کو کوفے کے عالم احمد رحمتہ اللہ علیہ اورجرجان کے مشہور عالم ابونصر اسماعیلی رحمتہ اللہ علیہ سے تعلیم دلوائی۔ ابو نصر اسماعیلی رحمتہ اللہ علیہ رحمتہ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کر کے امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ڈاکوﺅں نے گھیر لیا۔ مال اسباب بھی لوٹ لیا تعلیم حاصل کرنے کے دوران جو کچھ لکھتے رہے تھے تو ڈاکو وہ بھی لے گئے ‘خالی ہاتھ گھر پہنچے۔ والدہ محترمہ کو اپنا دکھ سنایا تعلیم والی کتاب کے ہاتھ سے چلے جانے کے بارے میں انہیں بتایا۔ اس پر ماں نے کہا ”بیٹا! وہ تعلیم کیسی تھی جو ڈاکوﺅں نے لوٹ لی۔ میں نے تمہیں ایسی تعلیم کے لئے بھیجا تھا؟ امام صاحب کے دل پر چوٹ لگی، ڈاکوﺅں کی تلاش میں نکلے ۔آخر ڈاکوﺅں تک پہنچ گئے۔ ان کی منت سماجت کی کہ ان کی کتاب انہیں دے دیں۔ ڈاکوﺅں کا سردار ان کی بات سن کر بولا تمہاری والدہ نے درست کہا ہے ۔تم نے خاک سیکھا ہے ۔ یہ لو اپنی کتاب تمہاری ماں کے کہنے پر دے دیتا ہوں۔ماں کی بات پہلے ہی دل میں اتر چکی تھی اب ڈاکوﺅں کے سردار کی بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ تعلیم جو ہاتھ سے لکھی تھی اس کو حفظ یعنی دماغ میں محفوظ کیا اس طرح سوت کاتنے والی ماں کا بیٹا وقت کا امام بنا۔ اکابر علماءکی فہرست میں شامل ہوا اور ماں نے اس امت کیلئے فقیہہ بیٹا چھوڑ کر آخرت کی راہ لی۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 909
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں