ایک شخص نے اپنے بیٹے کی شادی دہلی کے ایک شریف خاندان کی لڑکی کے ساتھ طے کر دی، جب لڑکی کے باپ نے اپنی خواہش کے مطابق شادی کا سامان جمع کر لیا تو طے شدہ دن بارات بلائی۔ادھر سے لڑکے کا باپ بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنے رشتہ داروں کو لے کر وہاں پہنچا۔ میزبان نے مہمانوں کی دل کھول کر خدمت کی اور حسب دستور نکاح کے بعد جہیز دیکر بیٹی کو رخصت کیا۔ جب بارات نے ایک منزل یعنی سولہ میل کا سفر طے کیا تو کسی مقام پر ناشتہ کرنے کے لئے قیام کیا۔ مرد حضرات رفع حاجت کے لئے دور چلے گئے اور مستورات کے لئے ایک قنات کھڑی کر دی گئی تاکہ قضائے حاجت کر سکیں۔سب عورتوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ پہلے دلہن کا تمام ضروریات سے فارغ ہو لینا بہت ضروری ہے چنانچہ انہوں نے دلہن کوقنات کے پیچھے لے جا کر بٹھا دیا۔ کافی دیر گزرنے کے بعددلہن واپس نہ آئی تو عورتوں نے قنات کے اندر جھانک کر دیکھا کہ کیا وجہ ہے.... مگر وہاں دلہن کا نام ونشان نہ تھا، انہوں نے حیران وپریشان ہو کر دوسری عورتوں اور مردوں کو بتایا تو وہ خوشیوں بھرا قافلہ غم کی تصویر بن گیا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے بالآخر سواروں نے چاروں طرف گھوڑے دوڑا دیئے۔ انہوں نے ہر راہگیر سے پوچھا مگر کسی کو پتا ہوتا تو سراغ ملتا۔ کسی نے دس کوس کا سفر کیا اور کسی نے بیس کوس کا، بالآخر تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ اسی پریشانی میں انہیں چار دن گزر گئے اور کسی نے کچھ بھی نہ کھایا پیا، انہیں یہ بھی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ بغیر دلہن کے واپس وطن چلے جائیں اور نہ ہی وہ غیرت کی وجہ سے واپس دہلی جا سکتے تھے۔ اسی اثنا میں ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا۔ ۔وہ آگ کی تلاش میں ان مصیبت زدوں کے پاس پہنچا، اس نے حال دریافت کیا تو باراتیوں نے اپنی پریشانی رو رو کر بیان کی۔ یہ سن کر مسافر نے کہا ، آپ کی پریشانی تو واقعی لاعلاج ہے لیکن تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سب نے کہا اگر آپ کے ذہن میں کوئی تدبیر آرہی ہے تو ضرور ارشاد فرمایئے، ہم اس تدبیر پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریںگے۔ اس نے کہا، میں دہلی جا رہا ہوں، آپ میرے ساتھ چند تیز رفتار سواروں کو بھیج دیں جن کی سیرت ان کے باطن سے مناسبت رکھتی ہو۔ میں ان کو دہلی میں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے پاس لے جاﺅں گا اور تمام صورتحال عرض کر کے اس مصیبت سے خلاصی کی درخواست کرونگا کیوں کہ میرے نزدیک ان کے علاوہ ایسی پریشانی کا حل بتانے والا کوئی دوسرا طبیب نہیں ہے۔
سب نے یہ بات تسلیم کی اور ہاری ہوئی ہمت قوت میں بدل گئی چنانچہ اس بارات میں موجود چند باعمل آدمی تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر شاہ عبد العزیزرحمتہ اللہ کے آستانے پر پہنچ گئے اور حضرت رحمتہ اللہ کے سامنے ساری سرگزشت من وعن بیان کر دی۔ شاہ عبد العزیز رحمتہ اللہ نے واقعہ کی تفصیل سن کر ارشاد فرمایا، جس روز یہ واقعہ ہوا تھا، فقیر کو اس کی خبر ہو گئی تھی اور فقیر تمہارا منتظر بھی تھا، خیر اطمینان رکھو اور خانقاہ میں ہی بیٹھو۔
جب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوئے اور سفر کی تھکاوٹ دور ہوئی تو پھر حاضر خدمت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا، تم اس وقت دو روٹیاں آڑدکے آٹے کی تیل میں چپڑ کر چاندنی چوک میں لے جاﺅ۔ وہاں تمہیں ایک خارشی کتا ملے گا تم ایک روٹی اس کے سامنے رکھ دینا، اگرچہ وہ تمہارے اوپر کیسا ہی حملہ کرے اور ڈرائے لیکن خوف نہ کرنا اور اس جگہ سے نہ ہلنا جب وہ کتا روٹی کھا لے تو تم دوسری روٹی بھی اس کے سامنے رکھ دینا اور گھوڑے تیار رکھنا، جب وہ کتا روٹی کھا کر کسی طرف جانے کا ارادہ کرے تو تم گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں تک وہ جائے اس کے ساتھ جانا، پیچھے نہ رہ جانا ورنہ آسان کام مشکل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ نے ایک رقعہ بھی دیا اور فرمایا کہ موقع پا کر یہ رقعہ اس کتے کے گلے میں باندھ دینا۔وہ آدمی سمجھدار تھے ہر ایک بات خوب ذہن نشین کر کے چاندنی چوک میں پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ کے فرمان کے مطابق ایک خارشی کتا دیکھا۔کتا انہیں دیکھ کر غضبناک ہو گیا۔ ان پر خوب بھونکا، حملہ آور بھی ہوا لیکن وہ ڈٹے رہے اور اپنا کام کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے وہ دونوں روٹیاں کتے کو کھلا دیں اور رقعہ بھی اس کے گلے میں باندھ دیا، پھرگھوڑوں پر سوار ہو کر تقریباً بیس کوس تک اس کتے کا پیچھا کیا، یہ سفر طے کر کے کتے نے ایک مقام پر ٹھہر کر پنجوں سے زمین کھودنا شروع کر دی، تھوڑی ہی گہرائی میں ایک وسیع دروازہ نظر آیا، وہ کتا اس دروازے کے اندر چلا گیا اور وہ آدمی باہر کھڑے رہے، تھوڑی دیر کے بعد ایک بوڑھا آدمی انسانوں کی وضع قطع میں دلہن کو لیکر باہر آیا اور ان آدمیوں کے حوالے کر کے کہنے لگا۔ جناب مولانا سے ہمارا سلام کہہ کر گزارش کرنا کہ ہمارے لوگوں میں سے ایک کمینے شخص نے ایسی حرکت کی ہے اور اسے اس حرکت کی بہت سخت سزا دی گئی ہے، چونکہ یہ خطا ہم سے سرزد نہیں ہوئی ہے اور گنہگار اپنی سزا پا چکا ہے لہٰذا ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ خطا معاف فرمائی جائے گی۔ یہ کہنے کے بعد وہ بوڑھا آدمی اس دروازے کے اندر چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد وہی کتا پھر باہر آیا اور جس طرح زمین کو شگاف دیا تھا، اسے بند کر کے دہلی کی طرف روانہ ہو گیا، وہ آدمی بھی دلہن کو لے کر اس کتے کے پیچھے پیچھے گھوڑے دوڑاتے رہے یہاں تک کہ وہ لوگ دہلی پہنچ گئے اور حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا اور پھر ان سے رخصت ہو کر بارات سے جا ملے۔ انہوں نے باراتیوں کو شروع سے آخر تک کی داستان کہہ سنائی اور وہ سن سن کر حیران ہوتے رہے، بعد میں وہ لوگ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہو گئے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 915
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں