معاشرے میں اتنی خرابیاں اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ اس جوان نسل کی مائیں وہ تھیں جن کے والدین نے پابندی کی زندگی گزاری اور شادی ہوتے ہی وہ بے لگام ہوگئیں بلا آستین کے کپڑے، گانا بجانا، ہر مہذب کام کو ’’دقیانوسی‘‘ سمجھنے والی ’’Love marriages‘‘ کی شوقین اور اسلامی فرائض سے لاپرواہ ہوگئیں۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! ہر مہینے ہم شوق سے عبقری پڑھتے ہیں ‘آپ کے کالم ’’حال دل‘‘ میں دُکھی والدین کا حال پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے بھی آئے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ (1)باہر جاکر foreign exchange کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن خدارا اپنے بچوں پر بے تحاشا خرچ نہ کیجئے۔ ان کو محنت کرنا سکھائیے۔ بہترین تعلیم دیجئے لیکن ساتھ ہی ترغیب دیجئے کہ بہترین کامیابی کیلئے محنت کریں۔ دینے کی جلدی نہ کریں ان کے لئے پیسے جمع کرسکتے ہیں۔ (2)سب سے پہلے اپنے بڑھاپے کا، رہائش کا اور ممکنہ میڈیکل اخراجات کا انتظام کیجئے بچوں پر کبھی ظاہر نہ ہونے دیں کہ آپکے پاس بہت مال و دولت ہے۔ (3)آپ کتنے بھی مالدار ہوں حق مہر لڑکوں اور لڑکیوں کا شرعی ہی رکھیں۔ بعد میں آپکی مرضی ہے چاہے ایک گھر بھی ان کے نام کروادیں۔ خاص طور پر اگر بیٹا یا بیٹی کا باہرسیٹل ہونے کا امکان ہوتو بغیر انہیں زیادہ تفصیلات بتائے ان کے نام پر ایک رقم بینک میں جمع کردیں۔ نہیں تو لوگ لالچی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ (4)اولاد کو اسلامی قدروں کی ترغیب دیں اور modernity سے منع کریں۔ بے ضرر کاموں سے نہ روکیں۔ مثلاً اگر پڑھائی اچھی طرح کررہے ہیں، نماز کی پابندی ہے تو ویڈیو گیمز کھیلنے میں کوئی حرج نہیں۔ بڑوں کا ادب اور رحم کرنا ضرور سکھائیں خدمت کا جذبہ پیدا کریں۔
ہماری ملنے والی ہیں جو بیوہ ہیں اور دو گھر بیچ کر انہوں نےاپنے بچوں کو لندن میں پڑھایا اور کروڑوں جہیز اور شادیوں پر خرچ کیا اب خود اکیلی ایک معمولی سے فلیٹ میں رہتی ہیں کچھ عرصہ ایک بیٹا اور بہو بھی ساتھ رہے تھے لیکن بہو بیحد بے ادب، فضول خرچ اور باہر کے ملکوں کی سیر کی شوقین تھی۔ جب ماں بیٹے سے شکایت کرتی تو وہ گستاخی پر اُتر آتا اور ماں پر ہاتھ بھی اٹھا لیتا تھا۔ ماں نے تنگ آکر الگ ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ اب بیمار ہیں اور بیٹوں اور بیٹیوں نے کبھی فون کرکے حال نہیں پوچھا۔ ایک ملازمہ آتی ہے۔ تھوڑی سی صفائی کرکے کچھ دال دلیہ بنا کر چلی جاتی ہے اور کافی سامان بھی چرا لیتی ہے۔ جب ممکن ہوتا ہے کچھ پڑوسی خواتین ان کی مدد کرتی ہیں لیکن ہر روز ممکن نہیں ہوتا۔جو کروڑوں کا جہیز بیٹیوں کو دیا تھا۔ وہ سسرالی عزیزوں نے بٹور لیا کیونکہ لڑکیاں باہر چلی گئیں اپنے شوہروں کیساتھ۔ جو بیٹوں کی بیویاں تھیں وہ خالی ہاتھ آئیں اور اپنا سارا جہیز اپنے شوہروں سے بنوالیا اور ڈھیروں کپڑے زیور، کراکری اور فرنیچر سے گھر بھر لئے اور شوہر ایسے عاشق ہیں کہ خوشی سے بیویوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں خاص طور سے امریکہ میں کمپائونڈ بنے ہوئے ہیں جن میں عمر رسیدہ لوگوں کیلئے چھوٹے vilbs بنے ہوئے ہیں اور کمپائونڈ میں ہی سوپر مارکیٹ، ڈاکٹرز کے کلینک، سینما ہال مختلف کورسز سکھانے کا انتظام ہے اور صحت کی ضروریات کے مطابق Cafe ہے جہاں تازہ جوس، کھانا، سب بہت رعایتی قیمتوں پر ملتا ہے۔ اسی کمپائونڈ میں نرسز، بس سروس بھی ہے اور ڈھیروں اور آسائشیں ہیں یہاں پاکستان میں ایسی سہولتوں کی اشد ضرور ت ہے۔ گزشتہ شمارے میں ایک اور ایسے بھائی کا حال لکھا ہےجس کا بھی ایسا ہی حشر ہوا ہے۔ ڈھیروں دولت بچوں پر لگائی لیکن انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ انہیں شکایت ہے کہ شاید اسی وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم نہیں دی تھی لیکن جس بیوہ خاتون کا اوپر ذکر کیا ہے وہ خود بھی بہت باتقویٰ خاتون ہیں۔ انہوں نے بچوں کو حج عمرے کروائے، پنجگانہ نماز کی ترغیب دی لیکن چونکہ انکے بیٹوں کی بیویاں ’’الٹرا ماڈرن‘‘ تھیں اور سوائے فضول خرچ اور کھانے کے اور سیر کرنے کے کوئی اور دلچسپی نہیں تھی۔ ان کو خوش کرنے کیلئے انکے بیٹے بھی گستاخ اور سنگدل ہوگئے۔ ہر وقت جب بیویاں کان بھرتی رہتی ہیں تو (باقی صفحہ نمبر33 پر )
(بقیہ:ماڈر ن ماؤں کی اولادبڑی ہوئی تو معاشرہ تباہ ہوگیا!)
شوہروں پر بھی اثر پڑجاتا ہے اور وہ برائیوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔معاشرے میں اتنی خرابیاں اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ اس جوان نسل کی مائیں وہ تھیں جن کے والدین نے پابندی کی زندگی گزاری اور شادی ہوتے ہی وہ بے لگام ہوگئیں بلا آستین کے کپڑے، گانا بجانا، ہر مہذب کام کو ’’دقیانوسی‘‘ سمجھنے والی ’’Love marriages‘‘ کی شوقین اور اسلامی فرائض سے لاپرواہ ہوگئیں۔ انہی کی اولاد نے معاشرے میں برائیاں پیدا کردیں اور فحاشی اور جرائم کی بہتات ہوگئی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ والدین، یعنی جوان جوڑے آج کل کے اسلامی قدروں اور طرزِ زندگی کیساتھ اعلیٰ تعلیم پر زور دیں تو شاید صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں