میرا آبائی گاﺅں موضع حویلی لال تحصیل و ضلع جھنگ ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا گاﺅں” نواںکھوہ“ ہے جہاں میں پیدا ہوا۔ یہاں سات آٹھ گھروں پر مشتمل مختصر آبادی ہے۔ اپنی بیٹھک میں جو پہلے کچی تھی جہاں آنے جانے والے ملاقاتیوں کو ٹھہراتے تھے۔ جب کبھی میں ریڈیو سے فضولیات (گانے‘ ڈرامے وغیرہ) بیٹھک میں سنتا تو رات کو میرے سینے پر بہت بوجھ محسوس ہوتا۔ جب میں لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھتا تو یہ بوجھ فوراً ہی اتر جاتا ۔ مشہور تھا کہ ہماری بیٹھک میں مسلمان جنات رہتے تھے۔ ایک دفعہ سرگودھا سے ہمارے ملنے والے حافظ غلام مصطفےٰ تشریف لائے۔ ہم نے انہیں کہا کہ بیٹھک کی بجائے کسی اور مکان میں آپ کے سونے کا بندوبست کرتے ہیں کیونکہ یہاں جنات رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو کرنا ہے وہ کر لیں اب میں ضرور رات اس بیٹھک میں گزاروں گا۔ میں نے ہر چند ان کی منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔ بعد از نماز عشاءان کو بیٹھک میں شب بخیر کہا اور گھر آ گئے۔ صبح سویر ے حافظ صاحب سے ان کی خیریت پوچھی۔ وہ بہت گھبرائے ہوئے بولے کہ میری توبہ آئندہ کبھی اس بیٹھک میں نہیں سوﺅں گا۔ان سے وجہ دریافت کی گئی تو کہنے لگے مجھے حافظ قرآن ہونے پر ناز تھا۔ رات کو انہوں نے مجھے اور تو کچھ نہیں کہا‘ میری چار پائی اوپر چھت تک لے جاتے اور پھر نیچے لاتے‘ ساری رات میرے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا میںنے انہیں کہا کہ آپ کو پہلے ہی یہاں نہ سونے کی ہدایت کی تھی۔ کہنے لگے میری توبہ‘ میرے بزرگوں کی توبہ‘ آئندہ جب کبھی آﺅں گا ‘ اس بیٹھک میں نہیں سوﺅں گا۔ ہمارے ہاں جب کبھی بزرگان دین تشریف لاتے تو کہتے کہ اس آبادی میں انسانوں کے مقابلے میں مسلمان جنات زیادہ آباد ہیں ۔ تمہاری بیٹھک میں جب کوئی گانا سنے یا فحش باتیں کرے ‘ ان کی عبادت میں خلل آتا ہے تو وہ تنبیہہ کرتے ہیں‘ حافظ صاحب چونکہ حقہ نوش تھے، حقے کی بدبو سے انہیں بہت تکلیف ہوئی تو وہ ساری رات چارپائی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کرتے رہے۔
میری بیٹھک سے ملحقہ گھر وریام ترکھان کا تھا۔ اس کی چھوٹی بیٹی کے بارے میں سناکہ اس کے ساتھ جنات ہیں۔جونہی مجھے علم ہوا‘ میں نے مستری وریام ترکھان کی زوجہ زینب بی بی سے کہا کہ اب جس وقت جنات آئیں ‘ آپ نے مجھے آگاہ کرنا ہے۔ کوئی دو تین گھنٹے بعد مجھے ہمسائیوں کے گھر سے آواز آئی کہ آپ آ جائیں‘ بچی پر جنات کا حملہ ہو چکا ہے۔ ابھی ان کے گھر داخل ہو ہی رہا تھا کہ جنات نے آواز دی۔ بھائی غلام قادر! آپ اندر تشریف لائیں۔ آپ ہم سے ڈرتے کیوں ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ میں ڈرتا تو نہیں‘ جھجک محسوس کرتا ہوں۔ جنات سے بندہ مخاطب ہوا کہ یہ چھوٹی سی بچی ہے اور میری ہمسایہ ہے۔ آپ اسے کیوں تنگ کرر ہے ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا حاجی صاحب ! آپ کے باغ سے اس نے گلاب کے پھول ‘ آپ سے چوری دوپہر کے وقت توڑے ہیں‘ ہم سے رہا نہیں گیا‘ ہم نے اس کو پکڑ لیا۔ میں نے جواباً کہا کہ میں اس چوری پر اس بچی کو معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی معافی دے دیں۔ انہوں نے کہا ہم تو چھوڑ دیں گے مگر آپ کے گھر کے قریب شیشم کے درخت پر جو جن رہتے ہیں جن کی اصل رہائش شور کوٹ شہر کے لاری اڈہ والی مسجدمیں ہے وہ اسے تنگ کریں تو ہمارا قصور نہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ آپ معاف کر دیں بڑی مہربانی ہو گی۔ انہوں نے جانے کا وعدہ کیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلے گئے اور بچی نارمل ہو گئی۔
میں اپنی والدہ مرحومہ سے سنتا تھا کہ کبھی کبھی جب آندھی آتی تھی‘ ہمارے گھر میں کپڑے خشک کرنے کےلئے جو تار لگائی گئی ہے‘ پر دیئے جلتے تھے اور سخت آندھی کے باوجود وہ بجھتے نہ تھے۔ والدہ مرحومہ بیان کرتی تھیں کہ ایک دن میں اور میری ایک سہیلی زمین پر بیٹھ کر کھیل رہی تھیں کہ اچانک ہمیں جنات نے اٹھا لیا اور ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ والدہ مرحومہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتی تھیں کہ میں اور میرا چچا زاد بھائی جس کی عمر چھ سات سال تھی‘ جنڈ کے درخت کے نیچے کھیل رہے تھے کہ اچانک بندر نما کوئی جانور آیا اور میرے چچا زاد بھائی کی پیٹھ پر تھپڑ لگا کر غائب ہو گیا۔ یہ واقعہ میرے ماموں کے گاﺅں کوڑے والا کا ہے۔ جونہی اس جانور نے تھپڑ لگایا ‘ چچا زاد کی طبیعت خراب ہو گئی اور چند منٹوں میں اس کی موت واقع ہو گئی ‘ جب اسے غسل دیا گیا تو اس کی پیٹھ پر انگلیوں کے نشانات واضح طور پر موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلمان جن کی نہیں‘ کسی اور نے یہ حرکت کی ہے۔ مسلمان جنات کسی کا نقصان نہیں کرتے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 958
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں