میں مڑی تو شدید غصہ میں تھی کہ ان کہوں کہ آپ کو مسجد کے آداب معلوم ہونے چاہئیں اور میرے منہ سے صرف ’’آپ کو‘‘ نکلا اور ان کی آنکھوں کی طرف میری نظر گئی‘ بالکل سبز رنگ کی آنکھیں‘ ان آنکھوں میں کچھ تھا‘ میرا سارا غصہ ختم ہوگیا
موتی مسجد میں عرق گلاب کا چھڑکاؤ
تسبیح خانہ لاہو رمیں اسم اعظم کا دم کروا کر میں اور میری دوست موتی مسجد گئے۔ راولپنڈی سے لاہور آنے سے پہلے ایک دن میں بیٹھی پڑھ رہی تھی‘ ذکر اللہ کررہی تھی کہ اچانک میرے دل میں آیا کہ میں جب بھی موتی مسجد (شاہی قلعہ لاہور) جاؤں تو گلاب کی اگربتی اور عرق گلاب میں عطرگلاب ڈال کر پوری مسجد میں چھڑکاؤ کروں۔
میں نے مسجد میں جاکر ایسا ہی کیا‘ پوری مسجد کو اچھی طرح معطر کردیا‘ پھر نفل پڑھنے کیلئے خواتین کی سائیڈ پر آگئی اس دروازے کے پاس میں نے جائے نماز بچھائی (راستہ چھوڑ کر) اور میں نوافل کی ادائیگی میں مشغول ہوگئی۔ کچھ خواتین مسجد کی صفائی میں مصروف تھیں‘ اس کمرے میں بھی جھاڑو لگارہی تھیں۔ میں اگر بتی جلانے لگی تو کچھ خواتین دیکھ کر حیران ہونے لگیں‘ وہاں مسجد کے خادم میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ مسجد میں اگربتی لگارہی ہیں میں نے کہا جی مسجد میں خوشبو لگانا جائز ہے‘ وہ بولے کہ مسجد کو عطر لگاتے ہیں میں انتہائی ادب سے عرض کیا کہ وہ بھی کروں گی‘ آپ بے فکر رہیں‘ یہ سن کر وہ خوش ہوگئے اور چلے گئے۔
میں پھر نوافل میں مشغول ہوگئی‘ ایک لڑکی جو جھاڑو لگا رہی تھی مجھے کہنے لگی جلدی پڑھیں‘ میں نے جھاڑو لگانا ہے‘ میں نے اسے کہا کہ جھاڑو میں خود لگاؤں گی‘ میں نے جائے نماز اچھی طرح بچھائی‘ پھر جھاڑو لگانا شروع ہوگئی اور ساتھ ساتھ دعا کررہی تھی ’’یااللہ جیسے میں آپ کے گھر کی صفائی کررہی ہوں میرا دل‘ میرا جسم‘ میرا نامہ اعمال ایسے ہی صاف کردے(نامہ اعمال گناہوں سے صاف کردے)‘ اچانک دو فیروزی رنگ کہ تسبیح کے دانے میرے سامنے گرے‘ حالانکہ پہلے وہاں پر کچھ نہیں تھا‘ میری دوست مجھے دیکھ رہی تھی‘ میں نے دل میں سوچا کہ یہ میرے لیے ہیں‘ پھر دوسرے ہی لمحہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی امانت ہے‘ میں کیسے اٹھاسکتی ہوں؟ پھر دل میں آیا کہ پیالے میں تسبیح رکھی ہے‘ اگر اس میں یہ دانے کی تسبیح نہ ہوئی تو میں رکھ لوں گی اگر ہوئی تو پیالے میں ڈال دوں گی۔ میں نے دوست سے بھی پوچھا وہ بولی پہلے کوئی دانے نہیں تھے‘ خیر میں نے پیالے میں دیکھا تو اس رنگ کی تسبیح تھی مگر میں نے تسبیح اٹھا کر نہ دیکھی کہ اس کے دانے پورے ہیں یا نہیں‘ میں نے وہ دانے اس پیالے میں ڈال دئیے‘ ہاتھ دھو کر پھر میں نے چادر تبدیل کی‘ عطر کے چھڑکاؤ کی وجہ سے کافی گیلی ہوچکی تھی‘ میں اپنی سبز چادر لے کر پڑھنے لگ گئی‘ ابھی نفل شروع ہی کیے تھے کہ ایک عورت اندر آئی‘ باقی ساری جگہ خالی تھی‘ اس دروازے کے آگے جو جگہ خالی تھی وہاں جائے نماز بچھا کر بالکل میرے پیچھے آکربیٹھی‘ جگہ اتنی تھی کہ وہ صرف بیٹھ سکتی تھی‘ جائے نماز بھی ٹھیک طرح سے نہ بچھ سکی۔ خیر مجھے اس کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا‘ میں نفل پڑھ رہی تھی‘ میں نے سلام پھیرا اور میں دل میں کہہ رہی تھی کہ ان کو میں کہتی ہوں ہ پوری مسجد خالی پڑی‘ میرے پیچھے کیوں بیٹھ گئی؟ میری دوست کرسی پر نوافل ادا کررہی تھی جیسے ہی میں نے منہ موڑا کہ میں ان کو کہوں‘ میری دوست نے بتایا کہ میں اپنے دل میں کہہ رہی تھی ’’لو جی پنگا پالیتا عورت نے‘ اب اس کی خیر نہیں‘‘
سبزرنگ کی آنکھیں! ان آنکھوں میں کچھ تھا
مگر دوسرے ہی لمحے میرا سارے کا سارا غصہ دھرے کا دھرا رہ گیا‘ میں مڑی تو شدید غصہ میں تھی کہ ان کہوں کہ آپ کو مسجد کے آداب معلوم ہونے چاہئیں اور میرے منہ سے صرف ’’آپ کو‘‘ نکلا اور ان کی آنکھوں کی طرف میری نظر گئی‘ بالکل سبز رنگ کی آنکھیں‘ ان آنکھوں میں کچھ تھا‘ میرا سارا غصہ ختم ہوگیا‘ انہوں نے آگے سے کہا میں دعا کرنے آئی ہوں‘ وہ چہرہ اور وہ آنکھیں میں بھول نہیں سکتی‘ وہ دن اورآج کا دن میرے اندر کافی تبدیلی آچکی ہے‘ میرے دوست احباب نے بھی نوٹس کیا ہے۔ (نوٹ: میں بہت زیادہ غصہ کرتی تھی‘ بہت برداشت کرتی تھی‘ کسی کی بات جلد میری سمجھ میں نہیں آتی تھی‘ ایسا میں اپنے منہ سے نہیں میرے گھر والے‘ دوست احباب کہتے ہیں) واپس اپنی بات پر آتی ہوں‘ میرا باقی کا جملہ اور غصہ دھرا رہ گیا‘ اسی لمحے میں نے منہ واپس کیا اور نوافل ادا کرنے لگ گئی‘ کافی دیر میں نوافل ادا کرتی رہی‘ دوران نفل میرے دل میں آئے کہ جو چادر عطر میں بھیگی ہوئی تھی اس عورت کو دے دوں‘ پھر ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ میں یہاں لینے آئی ہوں کہ کسی کو کچھ دینے۔ (بعد میں احساس ہوا کہ مجھے وہ چادر اس عورت کو دے دینی چاہیے تھی‘ میں ایسی بونگیاں اکثر مار جاتی ہوں)دوران نفل وہ عورت ایسے ہی میرے پیچھے بیٹھی رہی‘ جیسے ہی میں نے اپنے دوست کو کہا کہ اب میں دعا کرنے لگی ہوں مجھے بلانا مت‘ ساتھ ہی اس عورت نے میری دوست کو کہا کہ پیالے میں سے تسبیح پکڑا دو‘ میں کافی دیر دعا کرتی رہی اور وہ میرے پیچھے بیٹھ کر تسبیح اور دعا کرتی رہی‘ جیسے ہی میں نے دعا ختم کی میں ابھی اپنا منہ سر سیدھا کرہی رہی تھی کہ وہ اچانک اٹھ کر بنا بات کیے ایک دم غائب ہوگئی۔
خبردار!ان دو خواتین کو کچھ نہ کہنا
خیر میں اور میری دوست موتی مسجد سے نیچےہم سیڑھیاں اتر رہے تھے اور میں اپنی دوست کو بتارہی تھی کہ شیخ الوظائف ادھر آتے ہیں‘ درس اور دعا بھی اکثر فرماتے ہیں۔ اچانک ایک عورت بچہ اٹھائے ہوئے میری دوست کو نظر آئی‘ منہ میں ہی کچھ بڑبڑائے جارہی تھی‘ میری دوست مجھے کہتی کہ یہ کیا کہہ رہی ہے‘ سمجھ نہیں آرہا میں نے مڑ کر دیکھا اسے دیکھ کر کچھ اچھی فیلنگز نہیں آرہی تھیں حالانکہ اس نے اپنا منہ ڈوپٹے سے کور کیا ہوا تھا۔ داخلی دروازے کے سامنے ایک بہت پھیلا ہوا درخت ہے۔ اچانک اس طرف سے ایک عورت کی آواز آئی۔ کیوں ان کو تنگ کررہی ہو؟ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہی آنٹی تھی جو میرے پیچھے دعا کیلئے آکر بیٹھی تھیں۔ انہوں نے پھر غصے سے اس خاتون کو ڈانٹا باہر نکلنے سے پہلے ہم نےپوری مسجد میں چکر لگایا‘ وہ عورت اور بچہ مسجد میں سے نہیں نکلے تھے‘ واللہ عالم !وہ عورت کدھر سے آئی؟ خیر اس سبز آنکھوں والی پراسرار آنٹی نے اسے پھر غصہ سے ڈانٹا اور کہا چل نکل ادھر سے‘ اور خبردار ان دونوں کو کچھ کہا‘ وہ عورت بچہ اٹھائے بڑبڑاتے ہوئے ہم دونوں کے درمیان سے نکل گئی اور سیڑھیوں سے اتر کر نیچے کی طرف چلی گئی۔ اس آنٹی نے ہم کو اپنی طرف بلایا اور کہا میری جوتی کوئی پہن گیا ہے‘ میں نے ان کو کہا کہ آپ کے پاس جوتی نہیں‘ کہنے لگیں: پہنی تو ہوئی ہے نامعلوم کس کی ہے؟ میں نے ان کو کہادکھائیے وہ جوتی ان کے پاؤں میں پوری تھی جیسے ان کی ہی ہو۔ میں نے ان کو کہا آپ پریشان نہ ہوں جوتی آپ کو بالکل فٹ ہے آپ یہ ہی پہن لیں۔ یہ کہہ کر ہم اپنی گاڑی کی طرف جانے کیلئے چل پڑے اور ہمارا راولپنڈی کا سفر شروع ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں