یہ ہمارے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کبھی آپ کے جسم سے کم نہ ہو تو اس کے لیے ٹماٹر، پالک، دودھ، بندگوبھی، انڈے، کیلے، کھجور، ناریل اور گیہوں کھاتے رہے۔
صحت کی جب بھی بات ہوتی ہے ورزش کو اس میں بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ شروع میں بعض لوگ سخت ورزش کو جسم کے لیے محفوظ اور زیادہ بہتر خیال کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات سامنے آئی کہ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ بہت سخت ورزش کریں۔ مستقل مزاجی سے اور روزانہ ورزش کرنا کبھی کبھی سخت قسم کی ورزش سے کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے لاتا ہے۔ آپ اپنے جسم کے اعتبار سے ورزش کو معمول بنائیے۔ اگر آپ فربہ ہیں تو اسی اعتبار سے آپ کو ایسی ورزش کا انتخاب کرنا ہے جو جسم میں موجود چربی کی سطح کو کم کرے اور مزید چربی پیدا ہونے سے روکے۔ اسی طرح اگر آپ پتلے دبلے آدمی ہیں تو آپ کو ایسی ورزش کا انتخاب کرنا ہے جو زیادہ سخت نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے واک بہترین ہے۔
کوانزائم جزو! قوت مدافعت بڑھائے!
طبی ماہرین نے تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ سویابین، انڈوں، گندم اور چاول میں وٹامن سی سے ملتا جلتا ایک جز کوانزائم کیو10 ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جسم میں مختلف امراض کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلڈپریشر میں کمی، امراض قلب سے بچائو میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
صبح کا ناشتہ
امریکا اور برطانیہ میں صبح کے ناشتے کے حوالے سے کئی تحقیقات کی گئی ہیں۔ مختلف اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اس پر کافی بحث کی گئی ہے۔ تحقیق کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صبح کا ناشتہ کرنے والوں کی دن بھر کی کارکردگی ناشتہ نہ کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے بلکہ بعض ماہرین نے تو یہاں تک کہاہے کہ ناشتہ کرو، بادشاہوں والا، مطلب ناشتہ آپ بہت ہلکا پھلکا کرنے کی بجائے اگر آپ پیٹ بھرکر بھی کرلیتے ہیں تو اس کے نتائج خراب نہیں نکلتے۔ بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھرپور ناشتا کرنے والے افراد کی ذہنی قابلیت اور جسمانی چستی ان لوگوں سے کہیں بہتر ہوتی ہے جو صبح کا ناشتہ یا تو کرتے ہی نہیں یا پھر ایک آدھ ڈبل روٹی کا پیس کھاتے ہیں۔ اس لیے صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ناشتہ پر ضرور توجہ دیں۔
دبائو صحت کا دشمن
جب انسان کسی معاملے میں دبائو کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اثرات پورے جسمانی نظام پر مرتب ہورہے ہوتے ہیں۔ اگر دبائو زیادہ سخت نوعیت کا ہو اور یہ ہفتوں یا مہینوں پر مشتمل ہوتو یہ صحت کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ ایسے میں جسم سے ایسے ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جو وزن میں اضافے یا کمی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ آپ دبائو سے دور رہیں جہاں تک ممکن ہو اپنی زندگی میں تفریحی مواقعوں کو بھی جگہ دیں اور بہت زیادہ کام کے بعد جسم کو آرام ضرور پہنچائیں۔
کیلشیم اور حمل
دوران حمل خواتین میں کیلشیم کی کمی ایک بڑی شکایت کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ کیونکہ اس دوران بچہ بھی ماں کے جسم سے غذا حاصل کررہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی گائناکالوجسٹ ایسے میں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ ماں کے جسم میں کیلشیم کی کمی نہ ہونے پائے۔ اس لیے ادویات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے تاہم ادویات سے کیلشیم حاصل کرنے کے بجائے اگر اسے براہ راست غذا سے لیا جائے تو اس کے کہیں بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ وہ زچہ و بچہ دونوں کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ماہرین دوران حمل دودھ، دہی، پنیر اور گہرے ہرے رنگ کی تازہ سبزیوں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔
دہی کا پانی
خواتین میں چھاتی کے سرطان کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں اس مرض میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ چھاتی کے سرطان پر کی جانے والی تحقیقات میں ماہرین نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ اس خطرناک مرض میں وہے (whey) بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ وہے دراصل دودھ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو دہی جمانے پر پانی کی صورت میں علیحدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویا ساس بھی چھاتی کے سرطان میں وہی کردار ادا کرتی ہے جوو ہے(whey) کا ہوتا ہے۔
کلورین اہم ہے
کلورین کی اگر کمی ہو جائے تو جسم میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کبھی آپ کے جسم سے کم نہ ہو تو اس کے لیے ٹماٹر، پالک، دودھ، بندگوبھی، انڈے، کیلے، کھجور، ناریل اور گیہوں کھاتے رہے۔
بچے اور وٹامن K
بچوں کو جہاں دیگر وٹامنز کی بہت ضرورت ہوتی ہے وہیں ان کے لیے وٹامن Kبہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ وٹامن کے‘ کیلشیم کی طرح ہڈیوں کی نمو میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ بچے کی چونکہ بہت تیزی سے گروتھ ہورہی ہوتی ہے اس لیے اسے وٹامن K کی بہت ضرورت رہتی ہے۔ یہ وٹامن زیادہ تر پتوں والی سبزیوں، پنیر اور انڈے کی زردی اور کلیجی وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔
گندھک بھی ضروری ہے
جسم کو جہاں دیگر معدنی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے اس میں گندھک بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی کمی بھی جسم کو کئی مسائل سے دو چار کرسکتی ہے۔ خاص طور پر گندھک کی کمی سے معدے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسے شلغم، پالک، گوبھی، مولی، پیاز، انڈے، مونگ پھلی، چنے، سنگترے اور مالٹے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
گردن میں اکڑن
گردن میں اکڑن کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں عام طور پر غلط طریقے سے سونا ہے، اگر کسی کو اس کی شکایت ہوجائے اور جلد آرام نہ آرہا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ تاہم گردن کی اکڑن کی صورت میں یہ مشق کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔ پہلے دایاں کان آہستہ آہستہ دائیں کندھے کی طرف جھکائیں (لیکن دونوں کو ملانے کے لیے زیادہ زور نہ لگائیں) یہاں تک کہ بائیں کندھے اور گردن پر ہلکا سا کھچاؤ محسوس ہو۔ اس دوران ہلکے ہلکے کئی بار سانس لیں۔ سانس لیتے ہوئے اپنا سر واپس کھینچ لیں۔ یہی عمل دوسری جانب دہرائیں۔(باقی صفحہ نمبر57 پر )
(بقیہ:صحت قائم رکھنے کے چند اہم نکتے)
فولاد کی کمی:فولاد کی کمی کا اکثر خواتین کو سامنا رہتا ہے۔ خاص طور پر مخصوص ایام میں ان کے جسم سے خون کی خاصی مقدار خارج ہو جاتی ہے اور اگر جسم میں فولاد کی بھی کمی ہوتو خون اور زیادہ ضائع ہو جاتا ہے۔ کئی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ جو خواتین اپنی غذا میں فولاد (آئرن) کا استعمال زیادہ کرتی ہیں ان کے ایام کم تکلیف دہ ہوتے ہیں اور خون کا بہائو بھی کم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دوران حمل بھی اکثر خواتین فولاد کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں جو نہ صرف خود ان کی صحت کے لیے بلکہ بچے کے لیے بھی صحیح نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق فولاد کے لیے سرخ گوشت(بڑا گوشت) انڈے کی زردی، سبز پتوں والی غذائیں جیسے پالک اور ساگ وغیرہ کھانے سے جسم کو فولاد کی خاصی مقدار مل جاتی ہے۔ اسی طرح جن مردوں میں فولاد کی کمی ہوتی ہے انہیں بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر رنگت کا پیلا ہونا وغیرہ۔
دودھ دہی کا استعمال:دودھ، دہی، پنیر وغیرہ خواتین میں کیلشیم کی بھرپور اور آسان فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ انہیں کھانے سے جسم میں کیلشیم کی سطح مناسب رہتی ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط اور توانا رہتی ہیں۔ خاص طور پر سن یاس کے دور میں جب ہڈیوں کی خستگی کا خطرہ ہوتا ہے۔ دودھ اور دہی استعمال کرنے والی خواتین اس سے کسی حد تک خود کو بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ دوران حمل دودھ اور دہی کااستعمال بڑھا دینا چاہیے۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ اکثر ایسی خواتین کے بچے صحت مند اور چاق و چوبند پیدا ہوتے ہیں جو خواتین دوران حمل اپنی غذا میں دودھ اور دہی کو شامل رکھتی ہیں۔ ان کے بچے دیگر مائوں کے بچوں کے مقابلے میں کم بیمار ہوتے ہیں۔پانی کا استعمال: ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ کم از کم پانچ گلاس پانی پینا ضروری ہے ۔کم از کم پانچ گلاس پانی پینے سے قولون، مثانے اور چھاتی کے سرطان کے امکانات میں کمی آتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیز بھی دیکھی گئی ہے کہ آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے اس کے پیاس لگنے کے احساس میں بھی کمی آتی ہے۔ ان حالات میں بڑی عمر کے لوگ پانی کم سے کم پینا شروع کردیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چالیس سال کے بعد پانچ گلاس کی بجائے کم از کم دس گلاس پانی ضرور پئیں۔
یخ بستہ پانی کا استعمال:بیشتر لوگ کھانے کے دوران بھی انتہائی ٹھنڈا پانی استعمال کرتے ہیں یا پھر بعض کھانے کے بعد پانی پیتے ہیں۔ ماہرین صحت کا مشورہ ہے کہ کھانے کے دوران بہت زیادہ ٹھنڈا پانی مضر صحت ہے۔ دراصل انسان جب کھانا کھارہا ہوتا ہے تو معدہ اسے ہضم کرنا شروع کردیتا ہے۔ کسی بھی چیز کو حل کرنے کے لیے حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذا کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں حرکت ہوتی ہے۔ کھانے کے اختتام پر معدے کا کام زوروں پر ہوتا ہے لیکن ٹھنڈا پانی پینے سے وہ سرد پڑجاتا ہے۔ یوں غذا کو ہضم کرنے کے لیے معدے کو دوبارہ سے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بعض حکیموں کے نزدیک کھانے کے بعد پانی کااستعمال کھولتی ہنڈیا میں پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔ شروع میں پانی پینے سے خالی معدے کی حرارت اعتدال پر آجاتی ہے۔ درمیان پانی کا استعمال رطوبات ہاضمہ کا تدارک کرتا ہے۔ جبکہ آخر میں پانی پینا کسی صورت مفید نہیں ہے۔
کھانے کے آخر میں پانی کے استعمال سے گریز سے معدے کی قوت اور فعالیت بحال رہتی ہے۔
کھانے کے مقررہ اوقات
کھانا کھانے کے اوقات مقرر کئے جانے چاہئیں اس کا بھی ہماری صحت سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پہلے کھانے اور دوسرے کھانے کے درمیان کافی وقفہ ہونا لازمی ہے۔ بعض کے خیال میں کم از کم پانچ گھنٹے ہونے چاہئیں۔ اس طرح بعض کا خیال ہے کہ چار گھنٹے۔ زیادہ تر ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ دن میں تین مرتبہ پانچ پانچ گھنٹےکے وقفے سے کھایا جائے۔ کوشش کریں کہ کھانا آہستہ اور سکون سے کھائیں۔
خالی پیٹ چائے یا کافی سے گریز
اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کچھ اور ملے نہ ملے چائے اور کافی جب اور جہاں ملے استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ماہرین صحت کے نزدیک اس وقت جب کہ آپ کا معدہ بالکل خالی ہو۔ چائے یا کافی کا استعمال درست نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ چائے یا کافی سے پہلے کچھ ٹھوس غذا کھالیں۔ خواہ وہ ڈبل روٹی کے دو پیس ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے بعد چائے یا کافی استعمال کریں۔
جلد اور سورج
انسانی جلد کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سورج کی تیز شعاعیں ہیں۔ خاص طور پر گرمی کے موسم میں جلد کو کھلانہ رکھیے۔ باہر نکلنے سے پہلے بہتر ہے کہ آپ چہرے اور ہاتھوں وغیرہ پر سن بلاک کریم لگائیں۔ اس کے علاوہ دھوپ میں نکلنے سے پہلے سر ڈھانپ لیں دھوپ کا معیاری چشمہ لگائیں۔ ایسا چشمہ نہ لگائیں جو آپ کی نظر کو نقصان پہنچانے کا باعث بن جائے۔ وٹامن سی اور وٹامن ای سورج کی روشنی سے جلد کو جھلسنے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان وٹامنز سے جلد کے کینسر کے گن امکانات میں کمی ہوتی ہے۔
سب کچھ کھائیں
دیکھئے کوئی ایک غذا بھی مکمل نہیں ہوتی۔ ہم اپنی غذائی ضروریات مختلف چیزوں کے استعمال سے پوری کرتے ہیں۔ ہر چیز جسم میں مختلف کیفیت پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے غذا کی نوعیت پر نظر رکھنا چاہئے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ دودھ ایک مکمل غذا ہے مگر یہ خیال صحیح نہیں۔ کیونکہ دودھ میں آئرن نہیں ہوتا۔ اسی طرح گوشت بہت اچھی غذا ہے لیکن اس میں کیلشیم نہیں ہوتا۔ ڈبل روٹی میں کاربوہائیڈریٹس تو ہوتے ہیں مگر چکنائی اور معدنی نمک نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس مکھن میں کاربوہائیڈریٹس اور پروٹین نہیں ہوتے۔ اس لیے ہمیں اپنی تمام غذائی ضروریات یعنی اچھے قسم کی پروٹین، مقررہ حرارے، معدنی نمک اور وٹامن حاصل کرنے کے لیے ایک سے زیادہ سے چیزوں کو ملاکرکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ڈبل روٹی کتنی زور ہضم
ڈبل روٹی کو جلد ہضم ہونے والی غذا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ تازہ ڈبل روٹی کے اوپر کا چھلکا معدے اور آنت میں ایک گولی کی سی صورت اختیار کرسکتا ہے اور اس پر معدے اور آنتوں کی رطوبتیں اس وقت تک اثر نہیں کرتیں جب تک کہ نگلنے سے پہلے اس کو چبا چبا کر باریک نہ کرلیا جائے۔ اس لحاظ سے چوبیس گھنٹے پہلے کی بنی ہوئی ڈبل روٹی زیادہ زود ہضم ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں