محلہ کی مسجد کی تعمیرو مرمت کاکام شروع ہوا تو مطلوبہ رقم اکٹھی ہونے میں دیر ہوگئی‘ کمیٹی انتظامیہ نے امام صاحب سے کہا کہ محلہ کی اس نکڑ والا بندہ ہے تو بڑا تاجر‘ مگر اپنے فسق و فجور میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو اس سے بات کرلیں۔ امام صاحب نے حامی بھرلی اور ایک دن شام کو جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، چند لمحے بعد تاجرصاحب اندر سے نمودار ہوئے‘ امام صاحب نے اپنے آنے کی وجہ بتائی تو صاحب سٹپٹا گئے اور بولے کہ ایک تو تمہارے سپیکروں کے ہروقت چلنے سے سکون برباد ہے اوپر سے تم ادھر تک آپہنچے ہو اور دوسرے محلے دار مرگئے ہیں جو مجھ سے چندہ لینے کی ضرورت آن پہنچی۔ امام صاحب نے کہا: صاحب اللہ کا دیاہوا موقع ہے‘ آپ کیلئے‘ آپ کے دستِ تعاون کی ضرورت ہے‘ میں خالی ہاتھ نہیں جانا چاہتا‘ اللہ تعالیٰ آپ کے مال و جان میں برکت دے گا۔ تاجر نے امام صاحب سے کہا لاؤ اپنا ہاتھ میں تمہیں چندہ دوں؟ امام صاحب نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا‘ اس تاجر نے امام کے ہاتھ پر تھوک دیا‘ امام صاحب نے بسم اللہ پڑھ کر یہ تھوک والا ہاتھ اپنے سینےپر مل لیا اور دوسرا ہاتھ تاجر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’یہ امداد تو میرے لیے ہوگئی‘ اب اس ہاتھ پر اللہ کیلئے امداد رکھیے‘‘
آپ کے پروجیکٹ کیلئے کتنے پیسے درکار ہیں؟
اس تاجر کو یہ بات نہ جانے کہاں جاکر لگی کہ فوراً منہ سے استغفر اللہ استغفراللہ کہنا شروع کردیا۔ کچھ لمحات کےبعد شرمندہ اور دھیمے سے لہجے میں بولا، کتنے پیسے درکار ہیں؟ امام صاحب نے کہا: آپ تین لاکھ روپے دے دیں۔ تاجر نے کہا: میں نے پوچھا ہے آپ کے پروجیکٹ کیلئے کتنے پیسے درکار ہیں؟ امام صاحب نے کہا: ہمیں مکمل طور پر مرمت کیلئے آٹھ لاکھ روپے درکار ہیں‘ تاجرصاحب اندر جاکر ایک چیک بنا کر لائے اور امام صاحب کو دیتے ہوئے کہا: آج سے اس مسجد کا جو بھی خرچہ ہو‘ مجھ سے لیجئے گا۔
متکبر اور فاسق بھی ہدایت پاسکتا ہے
انسان کے دل میں اگر دوسرے خصوصاً اپنے مدعو کیلئے خیرخواہی‘ ہمدردی اور اپنائیت کا جذبہ موجود ہو تو وہ ایک شفیق طبیب کی طرح اپنے مریض کیلئے فکرمندی شفقت و رحمت سے مریض کے مزاج اور اس کے حال کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے مدعو کیلئے حکمت و موعظت کا طریقہ اختیار کرتا ہے اور یہ درد مندی اور جذبہ خیرخواہی اسے ہمیشہ ہر طرح کے طنز وطعن بلکہ دارین کے کسی ادنی نقصان سے بچا کر اس کو ہر خیر سے مالامال کرانے کیلئے بے تاب کرتی ہے اس لیے بات کرنے والا اگر درد مند اور خیرخواہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بات کرنے کا انداز‘ سلیقہ اور تمیز عطا فرماتے ہیں اور اس کی بات میں مٹھاس عطا فرماتے ہیں۔ جس سے بڑے سے بڑا متکبر اورفاسق شخص بھی ہدایت پاسکتا ہے اور ہمارےکتنے ہی بے تکے اور طنزیہ جملوں سے لوگ نماز و قرآن اور دین سے دور بھاگتے ہیں۔
ہر مسلمان خوبیوں کی کان ہے!
حضرت جی مولانا انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بڑے حضرت جی مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں جب ہم کو گشت میں بھیجا جاتا تو اور نصیحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا کہ دیکھو! تم مسلمانوں سے ملنے جارہے ہو! تو نیت کرلو کہ ہم مسلمان کے گھر نیکی اور خوبی حاصل کرنے جارہے ہیں! اس لیے کہ ہر مسلمان خوبیوں کی کان ہے! اب تم نے اس نیت سے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو دراصل تم فقیر و بھکاری ٹھہرے۔
وہ اب عذاب الٰہی سے محفوظ رہا
اب اس نے کہا جاؤ مجھے کچھ نہیں سننا ہے! تو چونکہ تم خیر کی تلاش میں اس کے گھر بھکاری بن کر گئے ہو تو گھر والے کو اختیار ہے کہ تمہیں کچھ خیرات دے‘ یا دھتکار دے! تمہاری اس نیت کی وجہ سے وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہا! اگر خدانخواستہ اگر تم داعی بن کر جاتے اور وہ شخص داعی کے ساتھ بدسلوکی کرتا‘ تو ہلاک ہوجاتا! اور اس کی ہلاکت کا سبب تم ہوئے! اس لیے کہ وہ غریب اپنے بال بچوں میں عافیت کے ساتھ بیٹھا تھا! تم داعیوں کی دعوت کےانکار کی وجہ سے وہ مفت میں مارا گیا! اس لیے داعی بن کر نہ جاؤ! بھکاری بن کر جاؤ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں