تپتی دوپہر میں گلی میں چکر لگاتی نامعلوم بڑھیا
وہ جون کے مہینے کی ایک تپتی دوپہر تھی ۔ میں سویا ہوا تھا کہ بجلی چلی گئی اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی ‘میں کچھ دیر کروٹیں بدلتا رہا لیکن جب برداشت نہ ہوسکا تو اٹھ کھڑا ہوا اور کھڑکی کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا ‘ باہر ہو کا عالم تھا ہمارے محلے کے اکثر گھروں میں جنریٹر تھا لہٰذا لوگ بے خبر اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے ابھی مجھے کچھ دیر ہی وہاں کھڑے ہوئی تھی کہ نیچے گلی سے ایک ادھیڑ عمر عورت گزری مجھے اس بڑھیا کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ بے چاری کسی مصیبت کی ماری اس کڑکتی دھوپ میں چل رہی ہے۔ ابھی میں انہیں سوچوں میں مگن تھا کہ وہ عورت دوبارہ وہیں سے گزری اب کی بار تو مجھے حیرت بھی ہوئی وہ تو آرام آرام سے ٹہل رہی تھی کچھ دیر بعد وہ گلی کے ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی میں اسے دیکھتا رہا غالباً یہ ہمارے محلے کی خاتون نہیں تھی پھر میں نے سوچا اسے گھر لے آتا ہوں، بے چاری تھوڑا آرام کرلے گی لیکن پھر وہ وہاں سے اٹھی اور چل دی ابھی مجھے وہاں کھڑے پورے پانچ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ وہ دوبارہ وہیں آگئی اب تو میرے لیے ضبط کرنا مشکل ہوگیا میں نیچے آگیا وہ عورت اسی جگہ بیٹھی تھی۔’’السلام علیکم خالہ جان!‘‘ میں نے قریب جاکر کہا۔وہ یک دم چونک اٹھی، پھر آہستہ سے بولی ’’وعلیکم السلام‘‘’’معاف کیجئے گا آپ اتنی گرمی میں یہاں کیوں بیٹھی ہیں‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’بس بیٹا کیا بتائوں میرا گھر یہاں سے تھوڑی دور ہے غریب لوگ ہیں ہمارا نلکا خراب ہوگیا دو تین دن سے تو ساتھ والے گھروں سے پانی مانگ رہی ہوں لیکن اب تو انہوں نے بھی انکار کردیا پانی دینے سے کہتے ہیں اپنا نلکا کیوں نہیں ٹھیک کرواتیں کیا بتائو صاحب میرا کون ہے جو نلکا ٹھیک کراکے دے مجھے بس اسی لیے اس طرف چل دی نلکے کی تلاش میں یہاں بھی کہیں نظر نہیں آرہا‘‘ وہ چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے بولی اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔مجھے اس کی بات سن کر بہت دکھ ہوا کہ ہم پیا سے کو پانی تک نہیں پلاسکتے۔’’ایک منٹ رکیں خالہ میں پانی لاتا ہوں‘‘
میں دوڑتا دوڑتا گھر گیا اور فریج میں سے ٹھنڈے پانی کی تین بوتلیں نکالیں اور اس بڑھیا کے پاس آگیا ’’یہ لیں خالہ پانی پی لیں اور باقی ساتھ لے جائیں اور آپ کو جب بھی پانی کی ضرورت پڑے آپ بلاجھجک ہمارے گھر آجائیے گا‘‘
اچانک محلے میں شوربرپا ہوا
اسی اثناء میں میرے کسی دوست کا فون آگیا میں ایک طرف فون میں مشغول ہوگیا جب فون بند کیا تو وہ بڑھیا وہاں سے جاچکی تھی البتہ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں اس کی جوتی کے نشانات تھے ۔اتنے میں بجلی آگئی اور میں اندر آگیا۔
ابھی مجھے گھر پہنچے کوئی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ سامنے گلی میں ایک شور بلند ہوا۔ غالباً کسی کی چوری ہوگئی تھی اوہ میرے مالک دن دیہاڑے چوری میں نے اوپر سے گلی میں دیکھا سامنے والوں کی عورتیں بھی گلی میں آئی ہوئی تھیں اور رو رہی تھیں غالباً کوئی بہت بڑی چوری ہوگئی تھی میں بھی نیچے آگیا ایک دو لوگوں سے پوچھا کہ کس چیز کی چوری ہوئی لیکن کوئی کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا سب گھر والوں کا تماشا دیکھتے رہے اچانک مجھے اس بڑھیا کا خیال آیا شاید وہ کوئی ایسا ہی کام کرنے آئی ہو میرے دل میں برے برے وسوسے آنے لگے لیکن میں نے مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے اس سمت دوڑ لگا دی جہاں میں نے اس کے جوتوں کے نشانات دیکھتے تھے اس کی جوتی ایک عجیب طرز کی بنی ہوئی تھی میں ان جوتوں کے نشانات پر تیز تیز بھاگنے لگا۔
ابھی مجھے بھاگتے کوئی پانچ منٹ ہوئے تھے کہ نشان ختم ہوگئے۔اوہ مالک۔۔ آگے گاڑی کے ٹائروں کے نشانات تھے ہوسکتا ہے وہ یہاں تک آکر کسی گاڑی میں بیٹھ گئی ہو
میں تھوڑی دیر پریشانی میں وہیں کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگا اچانک مجھے وہی نشان نظر آنے لگے میں پھر تیز تیز دوڑنے لگا تھوڑی دور جاکر پکی سڑک شروع ہوگئی اور اس سڑک کے دو راستےنکلتے تھے میں بے بسوں کی طرح وہیں کھڑا ہوگیا اب کیا کروں؟ پھر میں نے سوچا، واپس چلا جائوں۔ یہاں کھڑے ہونے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ آگے نہ معلوم وہ کہاں گئی۔ اور یہ بات بھی قطعی طور پر نہیں معلوم کہ وہ چور ہے بھی یا نہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ چوری کیا چیز ہوئی ہے میں پسینے سے شرابور سڑک کے پاس کھڑا دل ہی دل میں خود کو کوستا رہا لیکن اب آگے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا تو واپس جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا آخر ایک سمت چل دیا۔
اب میری رفتار پہلے کی نسبت بہت آہستہ تھی بس اپنے خیالوں میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر انہیں بوتلوں پر پڑی جو میں نے اس بڑھیا کو دی تھیں انہیں دیکھ کر میں ایک منٹ کے لیے سکتے کی سی حالت میں آگیا اب مجھے یقین ہو چلا تھا کہ بڑھیا یقیناً کوئی ایسا ویسا کام کرنے ہی آئی تھی اور خوشی بھی کافی ہوئی کہ ٹھیک رستے پر آرہا تھا بس اب میں نے سوچے سمجھے بغیر دوڑنے کے بعد میں رکا اور پانی پینے لگا وہ نجانے کہاں غائب ہوگئی تھی تھوڑی دیر بیٹھا رہا، پھر چل دیا کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے دور کسی انسان کا سایہ نظر آیا غالباً کوئی عورت تھی میرے اندر جیسے بجلی کی لہر دوڑ گئی میں جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا بھاگتا رہا ہمارے درمیان کوئی دو تین گز کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
میں بھی کیسا بے وقوف ہوں!
اب میں نے آرام آرام سے چلنا شروع کردیا اس کی رفتار مجھ سے آہستہ تھی میں بھی آہستہ ہی چل رہا تھا کہ یک دم مجھے خیال آیا یہاں سے بس تھوڑی ہی دور بسوں کا اڈا ہے یہ وہیں جارہی ہوگی اور ابھی تک مجھے یہی نہیں پتا چل سکا تھا کہ یہ وہی بڑھیا ہے یا کوئی اور ہے پیچھے سے ٹھیک پہچانی بھی نہیں جارہی تھی جب میں کافی قریب ہوگیا تو مجھے محسوس ہوا اس عورت نے ایک بچہ اٹھایا ہوا تھا مجھے بے انتہا افسوس ہوا یہ تو کوئی اور عورت تھی میں نے ایک مرتبہ پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھانے شروع کردیئے اچانک اس عورت نے پلٹ کر دیکھا‘ میں اسے دیکھ کر چونک اٹھا وہ وہی بڑھیا تھی وہ بہت حیران ہوئی لیکن اس نے کوئی بات نہ کی اور سیدھی چلنے لگی مجھے دال میں کچھ کالا لگنے لگا ہوسکتا ہے یہ بچہ ہی گم ہوا ہو جبھی تو عورتیں بری طرح رو رہی تھیں۔
کیسا بے وقوف ہوں اس وقت تسلی سے پوچھ لیا ہوتا تو ایک منٹ میں اس سے بچہ چھین لیتا اب مجھے کیا معلوم یہ کس کا بچہ ہے البتہ یہ تو مجھے یقین ہوگیا تھا کہ بڑھیا کوئی کارنامہ کر کے آرہی ہے ورنہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے اس کی درد بھری کہانی سن کر اس کی مدد کی تھی۔ اسے مجھ سے بات تو کرنی چاہیے تھی۔ خیر میں تیز تیز چلتا بڑھیا کے برابر ہوگیا۔
’’السلام علیکم خالہ جان، پہچانا آپ نے‘‘ ’’ہاں ہاں بیٹا تم بھی کوئی بھولنے والی چیز ہو۔ اللہ تمہیں خوش رکھے‘‘ ’’خالہ جان یہ بچہ کس کا ہے پہلے تو نہیں تھا آپ کے پاس‘‘
’’ہاں یہ ابھی میں گھر سے لارہی ہوں میرے بیٹے کا ہے، بہو شادی پر گئی تھی اسے گھر ہی چھوڑ گئی
بہت تنگ کررہا ہے میں اسے اس کی ماں کے پاس چھوڑنے جارہی ہوں‘‘
’’اچھا ذرا دکھائیں تو سہی اپنا پوتا میں نے جلدی سے اس کے منہ سے کپڑا اتارا۔ پوتا تو دور کی بات وہ تو ان کے پوتے کا پوتا بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اس کا رنگ سخت سانولا تھا اور پوتا یوں تھا کہ جیسے مکھن کا رنگ ہوتا ہے موٹا تازہ اور جہاں تک میرا خیال تھا وہ لڑکی تھی اور جو سوٹ اس نے پہنا ہوا تھا وہ مہنگا تھا بس مجھے یقین ہوگیا بڑھیا اسے اغواء کر کے لے جارہی ہے۔ چلو ہوسکتا ہے، بڑھیا کو شادی پر جانا ہو تو ڈیڑھ دو سال کے بچے کو مہنگا سوٹ پہنا ہی دیا ہو لیکن پھر خود نیا نہ سہی کوئی صاف جوڑا ہی پہن لیتی اس کے قول و فعل میں بہت تضاد تھا۔ میں اس کے ساتھ باتیں کرتا لاری اڈے تک پہنچ گیا میں اردگرد نظریں دوڑا رہا تھا کہ کہیں کوئی پی سی او نظر آجائے لیکن اردگرد کہیں نظر نہ آیا ہجوم بھی بہت تھا مجھے بڑھیا کے ہاتھوں سے نکلنے کا خطرہ تھا کیونکہ وہ کسی ایسے ہی موقعے کی تلاش میں تھی میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو کر بڑھیا کو دیکھنے لگا اتنے میں ایک صاحب وہاں سے گزرے جن کے ہاتھ میں موبائل تھا میری جان میں جان آگئی میں نے ان سے موبائل لیا اور گھر فون کرکے ساری بات بتائی تو معلوم ہوا کہ ڈیڑھ سال کی بچی ہی گم ہوئی ہے بس میں نے ان سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہوسکے آجائیں اور اپنی بچی کی شناخت کرلیں اس دوران میری نظریں مسلسل بڑھیا پر ہی رہیں پھر میں بڑھیا کے پاس چلا گیا۔اور اسے باتوں میں لگالیا جب کہ وہ مجھ سے جان چھڑا کر نکل جانا چاہتی تھی مگر میں نے بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا آخر خدا خدا کرکے بچے کے ماں باپ اور محلے کے چند اور لوگ وہاں پہنچ گئے ان سب کو دیکھ کر بڑھیا کا رنگ فق ہوگیا ماں نے دوڑ کر اس سے بچی چھین لی محلے داروں نے بڑھیا کو بازوئوں سے پکڑ لیا آخر اسے پولیس کے حوالے بھی تو کرنا تھا ادھر بچی کے گھر والے بار بار میرا شکریہ ادا کررہے تھے لوگ مجھے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے میں کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں