(ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کا انتخاب نام اور جگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکے رازداری رہے‘کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی‘ اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کرانا چاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں۔)
میرے سسرال والوں نے مجھے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد میں اپنے شوہر کی مرضی سے ان کے پاس شہر شفٹ ہو گئی تھی۔ کیونکہ میرے میاں کا کاروبار (دس) سال سے یہاں تھا۔ کاروباری دنیا میں بڑا نام تھا جب میں یہاں آئی تومیری ساس اور نندوں نے میری مخالفت تھوڑی بہت نہیں، خوب شروع کردی حالانکہ میرے سسر سب کی رضامندی سے مجھے یہاں چھوڑ گئے تھے۔ پھر مجھے گورنمنٹ ملازمت مل گئی اور میں نے سروس شروع کر دی۔ جو کمایا شوہر کو دیا اور آج ایک پائی بھی میرے پاس نہیںہے۔ میری شادی کو تقریباً بیس سال ہو گئے ہیں اس دوران میرے شوہر نے دو بہنوں کی شادی کی، تمام اخراجات اٹھائے اور والدین کے گھر کابھی خرچ اٹھاتے تھے اور سسرال والوں کا اصرار تھا کہ میرے شوہر واپس بیوی بچے ہمارے پاس چھوڑ دے۔ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی اور ان کی ضد بڑھتی گئی اور آج بھی 20سال کے بعد یہ ضد قائم ہے۔ کبھی طلاق، کبھی دوسری شادی، کبھی بچیاں چھن جانے کی دھمکیاں۔میرے شوہرکے دوسرے بھائی سب کے سب آوارہ ہیں۔ ان کے ذریعے مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ نوکری چھوڑ دو۔ تمہیں واپس جانا ہے ورنہ بچے چھین لیںگے تمہیں اس شہر میںسروس نہیں کرنے دیں گے جبکہ میں عید، شب برا ¿ت کے علاوہ ہمیشہ (گرمیوں کی چھٹیاں) سسرال گزارتی رہی۔ میں نے اپنے بچے تنہا پالے ہیں۔ کبھی بھی میری ساس نندیں میری بیماری یابچوں کی پیدائش یا کسی بھی تکلیف میں نہیں آئیں۔ میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو وہ ابھی ساڑھے تین ماہ کی تھی جس کو زبردستی لے گئیں اور 3سال تک اپنے پاس رکھا ، شکل تک نہیں دکھائی۔ سروس کی وجہ سے میں کم ہی جاتی تھی۔ بڑی مشکلوںسے وہ بچی واپس لی۔ صرف اس بچی سے پیار ہے، اسے تعویز پہناتی ہیں، پلاتی ہیں کہ یہ ماں کی نہ بنے۔ اس دوران میرے میاں نے مجھے کبھی نہ عزت دی نہ مقام۔ میں نے اپنی جان مال ہر چیز ان پر قربان کر دی لیکن یہ میرے نہ بنے۔ پورے 20سالوں میں انہوں نے میری کبھی طرف داری نہیں کی، نہ کبھی میری خدمات کا اعتراف کیا۔ سروس کرنے کے ساتھ ساتھ گھر سنبھالنا، بچے پالنا، انہیں پڑھانا سب میری ذمہ داری تھا جبکہ اسی دورانیہ میں میرے میاں نے ہمیشہ مجھے باور کروایا کہ مجھے واپس والدین کے پاس ہی جانا ہے۔ روز روز کی لڑائیوں، طلاقوں کی دھمکیوں سے تنگ آکر میں نے ان کی بات مان لی اور میں دوبارہ گاﺅں شفٹ ہو گئی۔ اس دوران میری ساس نے شوہر کو مجبور کر دیا کہ تم اپنا کاروبار یہاں سے بند کرو ۔ انہوںنے اپنی چلتی دکان چھوڑ دی جبکہ یہ لوگ کاروبار پرعمل کرواتے رہے تھے۔ کاروبار توختم ہو چکا تھا، میری تنخواہ سے گھر چل رہا تھا۔ جب میں وہاں شفٹ ہوئی تووہاں نہ کوئی لچک، نہ احساس، نہ خوشی کہ جن لوگوں کی جڑیں ہم 20سال سے ہلا رہے تھے آج اکھڑ کر ہماری جھولی میں آگرے ہیں۔میں نے اپنے میاں سے کہا کہ میںاپنا کھانا الگ پکاﺅںگی اصل لڑائی اس کام پرہوتی ہے یہ الگ پکائیں اور میںالگ۔ انہوں نے کھانا تو درکنار میرا وہ حال کیا، اتنا ذلیل کیا کہ حدیں پار کر دیں کہ اب یہ یہاں سے کہاں جائے گی۔ یہاں سے شکایت کرتی تو وہ کہتے میں کچھ نہیں کر سکتا۔میرا ٹرانسفر اللہ کے حکم اور مہربانی سے نہ ہو سکا اور میں دوبارہ چند سامان کی چیزیں لے کر واپس آگئی۔ دوبارہ بچے داخل ہوئے اور میں نے سروس جوائن کرلی۔اب ان کا کاروبار تو ختم تھا ، کبھی وہاں کبھی یہاں کرتے کرتے سال گزرگیا اور ان کی دوبارہ وہی رٹ کہ اب ٹرانسفر کروا لو۔ دوبارہ چلو مار کٹائی‘ روز روز لڑائی ، روکرسکول جانا، لوگوں نے، محلے نے تماشا دیکھا۔میکے والوں کو کبھی میں نے خبر نہ کی۔الٹا میرے میاں میری شکایتیں لیکر جاتے اور میری بھابی خوب خوش ہوتی اورمیرے والد ہاتھ جوڑتے، معافی مانگتے۔کبھی کبھی آکر سمجھاتے کہ دونوں ملکر رہو۔ان کا ایک بھائی دو بئی میں ہے، دوسرے نے زمین سنبھالی ہے۔ ایک مربع زمین ہے آج تک ہمیںکچھ نہیںدیا۔آخر تنگ آکر دوبارہ سامان پکڑا اور وہاں سے واپس گاﺅںآگئی۔ اس بار توان لوگوں کا غصہ عروج پر تھا کہ اب ٹرانسفر ہو ہی جانی ہے اب یہ کہاں جائے گی؟مجھے پھر ان لوگوں نے جو ذلیل کیا وہ میں لکھ نہیں سکتی۔ یہاں تک کہ کھانے پینے سے مجبور کر دیا۔ 16 جانور پال رکھے تھے لیکن آدھ کلو دودھ بھی مجھے نہیں دیتے تھے۔ بھائی کے ہاتھوں بہنیں چھین لیتی تھیں اور صبح و شام دیور فحش گالیاں دیتا تھا کہ اس کا دماغ ٹھکانے آیا ہے یا میں کروں۔
میرے سسر نہایت شریف آدمی تھے جن پر معلوم نہیں کیا کروا دیا گیا تھا کہ وہ بے بس تھے۔ وہ میری بڑی عزت اور ہمدردی کرتے تھے۔ جب وہ ہمدردی کرتے تو سارا گھر انہیںذلیل کرتا تھا۔ اب ظاہر ہے میرے خاوند جو کہ بیروزگار تھے ،اگر ڈیرے پر جاتے تو چھوٹا بھائی نوکروں کی طرح کام لیتا۔ اس کا کھانا لے کرجانا، وہاں پر نوکروں کی طرح کام کرنا ان کی ڈیوٹی تھا۔ اور نہ تنخواہ نہ حصہ کہ گھر کھانا پکتا ہے سب کومل رہا ہے۔ خداکی کرنی ایسی ہوئی کہ دوبارہ میرا ٹرانسفر نہ ہو سکا کیونکہ سختی زیادہ تھی۔ ضلع چھوڑ کر دوسرے ضلع میں ٹرانسفر پر سخت بین تھا۔ میں دوباہ واپس اکیلی آگئی۔ کرائے کا مکان تلاش کیا۔دوچارپائیاں، چولہا، واشنگ مشین اور کچن کا سامان انہوں نے لاکر دیا اور بچے وہیں رکھے کہ یہاں پر پڑھ رہے ہیں۔ خیر اکیلے بچوں کے بغیر وقت کاٹا۔ بچے سال بھر وہاں رہے اور بالکل خراب ہو گئے۔ خصوصاً میرا بیٹا بالکل تباہ ہوگیا۔ بچیاں ڈری سہمی، خوفزدہ سال بھر وہاں رہیں اور فیل کا رزلٹ لیکر دوبارہ میرے پاس آگئیں۔ اتنے عرصے میں بیٹے کا تو مکمل بیڑا غرق کر دیا گیا اور وہ مکمل ان کا بن چکا تھا اور چھوٹی بیٹی بھی۔ میرے خاوند اس دوران بالکل فارغ رہے۔ کبھی یہاں آگئے 15دن رہے پھر وہاں سے فون آتے تو ادھر چلے جاتے۔ آخر میں نے بھاگ دوڑ کرکے 40ہزار روپے کا انتظام کیا اور انہیں کہا کہ یہاںشہر میں چھوٹی سی دکان کھول لیں۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے ادھار پر مال لے کر کام شروع کیا۔لیکن نقصان کے ساتھ بند کر دیا۔ میرے بہت اصرار پربتایا کہ میرے گھر والے مجھے یہاں کاروبار نہیںکرنے دیتے۔بھائیوں سے مدد کا کہتا ہوں تو وہ شرط لگا دیتے ہیں کہ شہر میں کاروبار نہیں کرنا۔ واپس آگئے تو دو تین سال فارغ رہے، کسی نے بھی کاروبار نہ کروایا تو یہ دکان کھول لی۔ اس کے کھولتے ہی میرا بیٹا میرے خلاف ہوگیا کہ یہ دکان بے عزتی کا باعث ہے۔ آپ نے ناک کٹوا دی۔میرے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ 2ماہ ہی دکان چلی کہ دوبارہ بند کر دی اور بغیر بتائے گاﺅں چلے گئے۔ پھر آئے اور بہانے سے دونوں لڑکیاں لے گئے۔ اب میں بالکل تنہا تھی، بیٹا پہلے سے وہاں چلا گیا تھا۔ عاملوں کے پاس بھاگتی بھاگتی اور دھکے کھاتے کھاتے آپ کے پاس آگئی ہوں۔ اب بھی وہ لوگ خفیہ تدبیر کررہے ہیں کہ میرے شوہر یہاں کاروبار نہ کریں اور گاﺅں آجائیں۔ میں یہاں اکیلے رہوں۔ اس دوران انہوں نے پہلے میرا مالی بائیکاٹ کیا جو اتنا سخت تھا کہ اللہ نے بچایا، عزت رکھی۔ اب سوشل بائیکاٹ پر آچکے ہیں کہ شہر میں کرائے کا مکان نہ ملے۔ ذلیل و خوار ہو جائیں۔ دوست عزیزواقارب سب چھوڑ دیں۔ ان کی چار بہنیں، چار بھائی ہیں۔ میرے بہن بھائی میرے خلاف ہیں۔ ان کے دوست انہیں چھوڑ گئے۔ والد کی وفات پر جان چھڑکنے والے دوست تعزیت کیلئے نہیں آئے۔ ایساکردیا ہے کہ شہر خود بخود چھوڑ دیں اور گاﺅں آکر رہیں۔یہ لوگ مجھے ڈھانے اورگرانے میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھول چکے ہیں۔کالاجادو کرواتے ہیں۔ میرا رب نہ مجھے چھوڑے، بس اس کاسہارا ہے۔ تنخواہ بھی اتنی نہیں کہ تمام اخراجات اٹھا سکوں۔ بینک سے اپنے میاں کو قرضہ لیکر دیا تھا۔ اب تک 2600 روپے کٹ رہے ہیں۔ اب یہ وہی دکان کررہے ہیں۔جب یہ کہتے ہیں کہ یہ دکان چھوڑ دوں گا تومیری جان نکل جاتی ہے۔ پہلے بچے چھوٹے تھے، اخراجات کم تھے۔ اب بیٹا ہی سانس نہیںلینے دیتا۔اس کو تو اتنا تباہ کر دیا ہے کہ وہ تعلیم نہ حاصل کرسکے اور میرے خلاف بھڑکا دیا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ماں کا سہارا نہ بن جائے۔ میں تباہ ہو چکی ہوں۔ نماز تسبیح کرتی ہوں تو میاںطعنے دیتے ہیں۔ اللہ کے واسطے مجھے اپنے سسرال والوں کے شر اور حسد سے بچائیں۔
(قارئین الجھی زندگی کا سلگتا خط آپ نے پڑھا، یقینا آپ دکھی ہوئے ہوںگے۔ پھر آپ خود ہی جواب دیں کہ اس دکھ کا مداوا کیا ہے؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں