ذرا توجہ کیجئے
ساس ظالم کیوں ہوتی ہے اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ساس کا رویہ ایک چین سسٹم کی وجہ سے بنتا ہے۔ ساس ماضی میں جب کسی کی بہو تھی تو اسے اپنی ساس سے دب کر رہنا پڑا‘ چنانچہ جب وہ خود ساس بنتی ہے تو اپنی محرومی کا بدلہ وہ اپنی بہو سے لیتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ایسی ساس کا سخت اور ظالمانہ رویہ حاکمانہ خواہشات کے تحت ہوتا ہے اور وہ بہوپر اپنے طور طریقے ‘ مرضی و منشاءٹھونس دینا چاہتی ہے۔ وہ توقع کرتی ہے کہ اس کی جنبش ابرو کے بغیر بہو ایک تنکا بھی اِدھر سے اُدھر نہ کر سکے اور ہر کام ساس سے پوچھ کر انجام دے۔ کچھ لوگ اس تنازع کو خوبصورت الفاظ میں باورچی خانے کے حصول کی جنگ کہتے ہیں۔ بہر حال وجہ کچھ بھی ہو ان تنازعات کے حل میں ساس کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔
محبت سے کام لیجئے
ایک بزرگ اور قابل احترام ہستی ہونے کی وجہ سے ساس کو زیادہ فہم و فراست ‘ اخلاص‘ محبت و شفقت اور دور اندیشی کا ثبوت دینا چاہیے۔ بڑے تو چھوٹوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ معاشرے میں بری نظر سے دیکھے جانے والے بعض غنڈوں اور بد معاشوں کی ماﺅں کو بھی اپنے بچوں کےلئے قابل محبت و شفقت دیکھا گیا ہے۔ مائیں اپنی بیٹی کی بڑی سے بڑی غلطی معاف کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں لیکن بہو کے عام رویے بھی گراں گزرتے ہیں۔ اس کی چال ڈھال ‘ بات چیت کو کڑی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سب سے آخر میں کھانا کھائے جبکہ بیٹی کے متعلق یہ رویہ نہیں ہوتا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو والدہ پلنگ پر بیٹھی ہوتی تھیں جبکہ ان کی جوان سال بہن پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ انہوں نے سوچا کہ اگر بیٹی کی جگہ بہو ہوتی تو والدہ کا رویہ مختلف ہوتا۔ وہ اسے گستاخی میں شمار کرتیں‘یہ نہیں سوچا جاتا کہ بہو بھی اب ساس کے گھر کی ایک فرد ہے۔ ظاہر ہے ہر انسان میں اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں‘ بہو کے اندر بھی کچھ خرابیاں ہو سکتی ہیں۔
درگزر سے کام لیجئے
انسان خطا کا پتلا ہے ‘ کبھی بہو بھی غلطی کر سکتی ہے۔ اس کی غلطی کو نظر انداز کرنا اور بھلائی سے اس کا جواب دینا ساس کے مقام و مرتبہ اور عزت میں مزید چار چاند لگا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اور بھلائی اوربرائی برابر نہیں ہو سکتی ۔ برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہت اچھا ہے۔ پھر دیکھنا وہ شخص جس میں اور تم میں دشمنی ہے وہ ایسا ہو جائے گا جیسے دوست اور رشتہ دار (سورہ حم سجدہ ) اللہ تعالیٰ نے رشتوں کو مضبوط قائم رکھنے پر بہت زور دیا ہے اور ایسی تمام باتوں سے روکا ہے جو دلوں میں رخنہ ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ رشتوں سے پیہم جڑے رہنے والوں کی خصوصیات یوں بیان کرتے ہیں ” اور جن رشتوں کو جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے ہیں ‘ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کے دن سے خوف رکھتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کےلئے عاقبت کا گھر ہے (سورہ رعد) اور جو لوگ اللہ سے پکا وعدہ کر کے اسے توڑ ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں۔ ایسوں پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کےلئے (آخرت میں) برا گھر ہے (سورہ رعد ) ایک ہی چھت کے نیچے اور ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھانے والی ساس و بہو میں جب لڑائی جھگڑے کی خلیج پیدا ہو جائے تو اس بات کو قرآن نے فساد فی الارض کا نام دیا ہے۔ اس ماحول میں پرورش پانے والی نسل کے اندر ذہنی اور اخلاقی خلاءپیدا ہو جاتا ہے۔ ان کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ ناقابل معافی ہے۔ ایسے گھرانوں پر اللہ کی لعنت ‘ بے برکتی اور وحشت کی صورت میں نظر بھی آتی ہے۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ساس کا مثالی کردار
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مثالی ساس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت ابو طالب کی بہن معزز صحابیہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ عظیم فرزند اسلام حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ اور حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) کی ساس تھیں۔ مدینہ منورہ میں یہ دونوں میاں بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ ان دونوں سے بہت محبت کرتی تھیں خصوصاً بہو حضرت اسماءرضی اللہ عنہ سے ان کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ ہجرت کے بعد کئی ماہ تک کسی مہاجر مسلمان کی اولاد نہ ہوئی تو یہودیوں نے افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ مسلمانوں کا سلسلہ نسل منقطع ہو چکا ہے۔ پھر حضرت اسماءرضی اللہ عنہ کے بطن سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو مسلمانوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ خصوصاً اس بچے کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ تو پھولے نہ سماتی تھیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے مشفقانہ رویہ کی وجہ سے دونوں بہو بیٹے ان کی خدمت میں دل و جان سے لگے رہتے۔
تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارا کردار
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں تلاش اور تحقیق کے باوجود ساس اور بہو کی اس طرز کی جنگ کا ایک بھی واقعہ نہ مل سکا جس طرز کی جنگیں برصغیر پاک و ہند میں برسوں سے جاری ہیں۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں شادی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ایک نیا گھر قائم ہو رہا ہے ‘ یا ایک نئے گھرانے کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ چنانچہ اس گھرانے کےلئے ابتداءہی سے علیحدہ مکان کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فرمائی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے اپنے لئے علیحدہ مکان کا بندوبست کیا۔ ہمیں آج اسلام کی روشنی میں اپنے معاشرتی گتھیوں کو سلجھانے کی کوششیں شروع کر دینی چاہئیں ورنہ تیزی سے سمٹتی ہوئی اس دنیا میں جہاں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اطلاع پہنچنے میں چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں ہمیں تضحیک و تمسخر کے سوا کچھ نہ ملے گا اور آخرت کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ آج ہم اپنے نوجوانوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ شادی کے بعد بیوی کا یہ قانونی اور مذہبی حق ہے کہ وہ علیحدہ گھر میں رہے۔ ساس بہو اور نند بھاوج کے روایتی جھگڑوں کا حل بھی اس میں ہی پوشیدہ ہے۔ شوہر کےلئے اگر علیحدہ گھر خریدنا یا کرائے پر لینا ممکن نہ ہو تو گھر میں ہی باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ کھانا پکانا الگ کیا جا سکتا ہے۔ ساس بہو اور نند بھاوج کی لڑائی کا اصل میدان باورچی خانہ ہی تو ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے اور بیمار ہوں تو شوہر پیار و محبت کے ساتھ اپنی بیوی سے درخواست کر سکتا ہے کہ وہ ان کی خدمت کرے یا ان کا خیال رکھے اور یہ بہو کا اخلاقی فرض بھی ہے اور تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی دور سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ساس کو اپنی حقیقی ماں کا درجہ دیکر ساس سے اخلاق اور نرم پہلو سے پیش آنا چاہیے کیونکہ آنے والے کل میں وہ بھی اس عمر میں ساس کے مرتبہ پرپہنچنے والی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں