انسانی زندگی واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے۔ اس زندگی میں انسان کے ساتھ کچھ ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن کو انسانی ذہن سے مٹانا ممکن نہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ آئیے میں آپ کو سناتا ہوں۔ میرا نام محمد وسیم حمید ہے۔ میں شور کوٹ کے قریب ایک گاﺅں کا رہنے والا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم سب گھر والے گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے ہوئے تھے چونکہ میرے ابو واپڈا تھرمل پاور سٹیشن گڈو میں جاب کرتے ہیں اور یہاں پر رہائش ہونے کی وجہ سے ہم یہیں پڑھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں ہی موقع ملتا ہے کہ اپنے رشتے داروں سے مل آئیں۔ ہمارا گاﺅں بہت حد تک سرسبز اور ہرا بھرا ہے۔ میرا سب سے چھوٹا کزن جس کا نام ہارون ہے کافی شرارتی اور باتونی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ میں تمہیں گاﺅں کی سیر کرانے لے کر چلتا ہوں۔میں فوراً تیار ہو گیا۔ ہم شام تک فصلیں اور باغات دیکھتے رہے۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب تھا تو میں نے ہارون سے کہا کہ ہم نے کافی سیر کر لی اور رات بھی ہونے والی ہے۔ آﺅ اب گھر واپس چلتے ہیں۔ گاﺅں میں شہروں جیسی گہما گہمی نہیں ہوتی اس وجہ سے شام کے ڈھلنے تک گاﺅں میں سناٹا چھا جاتا ہے۔
جب ہم فصلوں وغیرہ کی سیر کرکے واپس گھر کی طرف آرہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک باغ گاﺅں کے باقی باغات سے کافی فاصلے پر الگ تھلک ہے۔ میرے پوچھنے پر ہارون نے بتایا کہ یہ باغ ”جنات کا باغ“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں سے رات کے وقت کافی دفعہ رونے اور ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور کچھ لوگوں نے ایسی آوازیں بھی سنی ہیں جیسے بڑی خوفناک قسم کی لڑائی ہو رہی ہو۔ اس وجہ سے اس کی طرف رات کو دور کی بات دن کو بھی کوئی نہیں جاتا۔ میں نے سمجھا کہ وہ اپنے باتونی پن کی وجہ سے ایسی باتیں مجھے سنا رہا ہے اور تھک جانے کی وجہ سے نہیں جانا چاہتا لیکن میں بھی فیصلہ کر چکا تھا کہ چلو سیر کرنے آئے ہیں تو اس باغ کی بھی سیر کر لی جائے لیکن ہارون نہ مانا اور مجھے قائل کرنے کی بے حد کوشش کی۔ لیکن میں بھی اپنی دھن کا پکا تھا اس لیے اس کو چھوڑ کر باغ کی طرف چل پڑا جبکہ ہارون گھر کی طرف ہو لیا۔ جب میں تقریباً باغ کے قریب پہنچا تو سورج کی آخری کرنیں نظر آرہی تھیں۔ آہستہ آہستہ اندھیرا پھیل رہا تھا۔ بہر حال میرے باغ کے اندر داخل ہوتے ہی ایسی آواز سنائی دی جیسے دو تلواریں آپس میں ٹکرائی ہوں لیکن میں نے اس کو اپنا وہم سمجھا اور آگے چل دیا۔ یہ باغ باقی باغات کی نسبت کافی گھنا تھا۔ جب میں باغ کی سیر کرتے ہوئے تقریباً درمیان میں پہنچا تو مجھے ایسی آوازیں سنائی دیں جیسے کہیں ڈھول بج رہا ہو اور بہت سے لوگ گھنگھرو پہنے ناچ رہے ہوں۔ ابھی میں ان آوازوں کی طرف غور کر رہا تھا کہ کوئی چیز اچانک میرے سامنے آگری۔ جب میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا تو وہ کوئی انسان نما شخص تھا اور اس کے ہاتھ اور پاﺅں پیچھے کو مڑے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی۔ میں اسی وقت پیچھے کو مڑا اور واپس اسی راستے سے بھاگنا شروع کیا جس راستے سے میں سیر کرتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا۔ بھاگنے کے ساتھ ساتھ میں آیت الکرسی بھی پڑھتا جارہا تھا۔ بھاگتے وقت مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میرے پیچھے بھاگ رہا ہے اور مجھے پکڑنے کی کوشش کرہا ہے لیکن شاید یہ آیت الکرسی کی برکت تھی کہ میں اس کے ہاتھ نہ آسکا۔ باغ سے باہر آکر میری ہمت جواب دے گئی اور وہیں گرا اور بیہوش ہو گیا۔ بیہوش ہونے سے پہلے مجھے آخری آواز سنائی دی ”کاش نہ بچتا۔“
اس کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں گھر میں تھا اور تمام گھر والے میرے اردگرد موجود تھے۔ رات کے تقریباً دو بج رہے تھے۔ جب میں نے انہیں تمام واقعہ سنایا تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ہارون نے ہمیں گھر آکر بتایا کہ تم اس منحوس باغ کی طرف چلے گئے ہو۔ اس وجہ سے ہارون اپنے بھائی کو لے کر چل دیا تاکہ تمہیں باغ میں جانے سے روکا جائے لیکن جب یہ ہاں پہنچے تو تم باغ کے باہر بیہوش پڑے ہوئے تھے اور یہ تمہیں وہاں سے اٹھا کر لے آئے۔
آج بھی جب یہ واقعہ میں اپنے دوستوں کو سناتا ہوں تو وہ بالکل یقین نہیں کرتے۔ اس لیے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھی صرف ایک دفعہ باغ کی سیر کر آئیں۔ سب کچھ سامنے آجائے گا۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 298
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں