Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

خیالا ت میں انقلاب برپا ءکیجئے

ماہنامہ عبقری - فروری 2010ء

ایڈیٹرہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اور انقلابی نام ہے۔ انہوں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔ میری عمر جب اٹھارہ بیس برس کی تھی تو میں بہت ہی متعصب قسم کا سکھ تھا اور اس کا سبب وہ سکھ ماحول تھا جو بطور دوستوں کے حلقے کے مجھے فیروز کے قیام میں نصیب ہوا۔ میرے یہ دوست مسلمانوں اور ہندوﺅں دونوں کے دشمن تھے ۔ دن رات اپنی علیحدہ قوم‘ علیحدہ مذہب اور علیحدہ پنتھ کے خبط میں رہتے ۔ یہ سنگھ سبھا کی تحریک کے سرگرم ورکروں میں سے تھے اور ان کی ذہنیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بعض حضرات نے گور مکھی زبان کی تبلیغ و اشاعت کےلئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں سوائے گور مکھی کے اردو‘ انگریزی یاکسی دوسری زبان میں کچھ نہ لکھیں گے اور نہ پڑھیں گے۔ چنانچہ اصحاب اگر مدراس‘ کلکتہ یا بمبئی خط لکھتے تو خط کا ایڈریس گورمکھی زبان میں لکھا جاتا جو ان صوبوں کے ڈیڈ لیٹر آفس کی سیر کرنے کے بعد واپس آجاتا ۔ ان دوستوں کی اس سپرٹ کا مجھ پر بھی اثر ہوا اور مجھے یاد ہے کہ جس طرح ایک نو مسلم دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ پر ہندوﺅں کا زیادہ دشمن ہوتا ہے یا دشمن ہونا ظاہرکرتا ہے تاکہ اس کو مسلمان زیادہ مخلص اور اسلام کا پرستار سمجھیں۔ میں بھی ہندوﺅں کا عموماً اور آریہ سماجیوں کا خصوصاً کبھی بہت دشمن تھا۔ میں ہندو تہواروں اور رسم و رواج کا مذاق اڑاتا اور جب کبھی بحث ہوتی تو ویدوں اور ستیارتھ پرکاش پر بھی اعتراض کرتا۔ حالانکہ نہ کبھی میں نے ستیارتھ پرکاش پڑھا تھا اور نہ گرنتھ صاحب سے کافی واقفیت تھی اور ویدوں کو تو کبھی دور سے دیکھنے کا بھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ میری ذہنی معلومات کی یہی پوزیشن اسلام اور عیسائیت کے متعلق تھی۔ یعنی بغیر ان مذاہب کی واقفیت کے ان پر بھی اعتراض کرتا۔ انسان کے ذہن میں تبدیلی کیونکر پیدا ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں دو واقعات بیان کرتا ہوں: میں منصوری پہاڑ پرتھا اور چند روز کے قیام کے بعد واپس آنے والا تھا جس روز شام کو وہاں سے روانہ ہونا تھا منصوری پہاڑ کا کچھ سامان یعنی چھڑیاں وغیرہ خریدنے کےلئے بازار میں گیا۔ بازار میں دیکھا کہ سینما کے پاس عیسائی طلبہ و طالبات کا مجمع ہے اور یہ لوگ اپنے پادریوں کی معیت میں سینمامیں داخل ہو رہے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا میں نے پوچھا کہ کیا یہاں آج عیسائیوں کا کوئی جلسہ ہے کیونکہ سینما شو شام کے وقت ہوا کرتے تھے۔ ایک پادری نے جواب دیا کہ حضرت مسیح کی زندگی کے متعلق فلم ”کنگ آف کنگز“ دکھائی جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی یہ فلم دیکھ سکتا ہوں۔ میں نے ٹکٹ کی قیمت دینے کےلئے کہا۔ مگر پادری نے قیمت لینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس شو میں ٹکٹ فروخت نہ کئے گئے تھے۔ میں یہ فلم ”کنگ آف کنگز“ دیکھتا رہا۔ میں ذہنی اعتبار سے کسی فلم کی تمام سٹوری کو یاد رکھنے کا اہل نہیں پوری زندگی میں کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں نے کسی فلم کی پوری کہانی کو ذہن میں رکھا ہو کیونکہ فلم دیکھتے یا کسی سے باتیں کرتے چند منٹ کے بعد ہی ذہن دوسرے خیالات کی طرف منتقل ہو جاتا اور اس سلسلہ میں میرے لئے ایک پوری فلم کا دیکھنا یا نصف دیکھ کر انٹرول میں چلے آنا ایک جیسا ہے۔ اسی طرح دوستوں کو پوری بات پر متوجہ نہ ہونے کے باعث مجھے اکثر شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے۔ میں فلم ”کنگ آف کنگز“ کی تمام سٹوری پر تو غور نہ کر سکا اور نہ مجھے یاد ہے کہ میں نے کیا دیکھا مگر حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے واقعہ کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور یہ فلم ہی اس اعتقاد اور احترام کی بنیاد ثابت ہوئی جو آج میرے دل میں عیسائی مذہب کے بانی یعنی حضرت مسیح کے متعلق ہے۔ چنانچہ اگر میں اپنے دل کی ترجمانی کر سکتا ہوں تو مجھے اس کا اقرار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ کہ گو میں عیسائی نہیں مگر جہاں تک حضرت مسیح علیھ السلام کی قربانیوں اور قدسیت کا سوال ہے میں حضرت مسیح کا عیسائیوں سے کم معتقد نہیں ہوں۔ اسلام سے مجھے واقفیت نہ تھی اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یا قرآن کے مطالعہ کا کبھی خیال کیا کیونکہ مذہبی لوگوں کے اعمال کو دیکھ کر مذاہب سے ایک قسم کی نفرت سی پیدا ہو چکی تھی۔ چنانچہ اگر کسی جگہ مذہب کے متعلق کوئی بات ہو تو میرے لئے وہاں چند منٹ گزارنا بھی طبیعت پر بار گزرتا تھا۔ میں دہلی جیل میں تھا وہاں میرا قیام کانپور کے احراری مولوی عبدالقیوم (جو مسلم لیگ کے سرگرم لیڈر یا ورکر رہے ہیں) کے ساتھ تھا۔ مولوی عبدالقیوم ایک مخلص شخصیت ہیں۔ مولوی لوگوں کی عملی زندگی چاہے کچھ ہو یہ مذہب کو کسی وقت بھی نہیں بھولتے اور کوئی بات ہو اس کے متعلق مذہبی سند پیش کرنے میں مشاق ہوتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ دن رات رہتا اور یہ ہر بات میں مذہبی سند پیش کر دیتے۔ جس پر میں نے کبھی توجہ نہ کی۔ چنانچہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی یہ مذہبی سند پیش کرنا مجھے ناگوار سا محسوس ہوتا۔ ایک روز مہاتما گاندھی کی زندگی اور حق پرستی کا ذکر ہو رہا تھا کیونکہ میں مہاتما گاندھی کی حق پرستی کا سالہا سال سے معتقد یا معترف ہوں اور میرا ایمان ہے کہ موجودہ دور کے مشاہیر میں سے کوئی لیڈر بھی مہاتما گاندھی کا حق و صداقت کے اعتبار سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مہاتما گاندھی کی سچائیوں اور صاف بیانیوں کے ذکر کے بعد مولوی عبدالقیوم نے ایک حدیث پڑھی جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا جہاد بادشاہ کے منہ پر حق و صداقت کی آواز بلند کرنا ہے اور اگر یہ شخص کسی سزا کی پرواہ نہیں کرتا تو اس شخص کا یہ فعل تمام جہادوں میں سب سے بڑا جہاد قرار دیا جائے گا۔ مولوی عبدالقیوم کے منہ سے یہ حدیث سن کر میں سوچنے لگا کہ جو رسول حق و صداقت کی آواز بلند کرنے کو جہادوں میں سے افضل ترین جہاد قرار دیتا ہے اس رسول کے بلند‘ حق پرست اور قابل احترام ہونے سے انکار کرنا کس قدر شرمناک اور باطل پرستی ہے۔ چنانچہ مولوی عبدالقیوم کے اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد اسلام کے متعلق میرے ذہن میں انقلاب پیدا ہوا۔ اس کے بعد جب بھی موقع ملا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا اور مختلف موضوعات پر قرآن کے احکام کو سمجھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دل میں گو بعض مسلمانوں کے اعمال دیکھ کر ان کےلئے نفرت ہے اور ان کے اعمال نامے کو عالم اسلام کےلئے رسوائی و ذلت کا باعث سمجھتا ہوں مگر رسول اللہ‘ قرآن اور اسلام کےلئے اپنے دل میں اتنی ہی عزت اور احترام و محبت کے جذبات رکھتا ہوں جتنے ایک مسلمان کے دل میں ممکن ہے۔ ان دو واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کے ذہن کی تبدیلی کےلئے بعض اوقات ایک آدھ واقعہ ہی کافی ہوتا ہے اور یہ واقعہ نہ صرف اس کی زندگی میں انقلاب پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے بلکہ یہ نفرت کو محبت اور حقارت کو عشق میں تبدیل کرنے کا باعث بھی ممکن ہے۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 322 reviews.