Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری……قسط178

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2024ء

دو بوڑھوں کا غم

یہاں جو خاص بات محسوس کی وہ یہ کہ یہاں جتنے بھی جنات تھے ان سب کا اسلحہ کوئی خاص قسم کی انوکھی زریں تھی جس کی دنیا میں دلیل نہیںمگر اس کے باوجود ان کے لہجے میں نرمی‘ محبت پیار‘ احترام تھا‘ سختی تلخی ہرگز نہیں تھی۔ انہوں نے کہا : آپ کا شاہِ جنات کے ہاں انتظار ہورہا‘ آپ فوراً تشریف لے جائیں۔ اب دل میں خیال آرہا تھا اور کتنے محلات آئیں گے اور کتنی دنیا آئے گی جس دنیا کو ہم جانتے نہیں ‘ کتنی دنیا کے انوکھے نظام جس دنیا کے بارے میں ہمارا خیال اور گمان نہیں‘ آخر کیسے ہوگا؟ یہ خیالات مسلسل ذہن میں آرہے تھے جس سے دل بار بار سوچ رہا تھا کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کیسی دنیا ہوگی؟ بس یہی سوچیں تھیں جس میں دل الجھا بھی ہوا تھا‘ مطمئن بھی تھا اور لطف اندوز بھی ہورہا تھا۔ لیکن یہ ساری چیزیں ایک طرف ان دونوں بوڑھوں کا غم ان سب چیزوں پر غالب تھا اور وہ غم ایسا تھا جس غم کو ہم سمجھ نہیں سکتے اور سوچ نہیں سکتے۔ یہ غم ان سب ذائقوں پر غالب تھا ۔

موتیوںسے بنے گلاس

ہم آگے بڑھے تو ہمیں ایک چوتھا محل نظر آیا جو بالکل کالے پتھروں سے بنا ہوا تھا اور بہت زیادہ سیاہ کالا اتنا کہ اس کے اندر سخت ہیبت تھی‘ اس کے اندر سخت قسم کا خوف محسوس ہورہا تھا اور یہ ہیبت اور خوف غلبہ کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ ہم اس چوتھے محل میں پہنچے‘ پہنچتے ہی انہوں نے ہمیں مرحبا ‘ خوش آمدید کہا‘ بہت محبت دی اور اب وہاں کی مہمان نوازی بدلی۔ چھوٹے سے شیشے کے گلاس تھے‘ دراصل وہ شیشے کے نہیں بلکہ موتی اور مروارید کے بنے ہوئے تھے وہ گلاس بھی عجیب تھے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایک ہی موتی ہے اسی کے اندر گلاس بنایا گیا ہے‘ اس میں ایک جام تھا جو صرف تین گھونٹ تھا اور ایک سفید رنگ کا مشروب تھا۔ محسوس ہوا تھا کہ یہ دودھ ہے‘ اس کا جب پہلا گھونٹ پیا تو واقعی وہ دودھ تھا لیکن ابھی گھونٹ نگلا ہی نہیں تھا کہ اس کے ذائقے بدلنا شروع ہوگئے‘ کبھی گائے کے دودھ کا ذائقہ‘ کبھی بھینس‘ کبھی بکری‘ کبھی بھیڑ اور پھر اس کے مزید ذائقے مشروبات کی شکل میں بدلنا شروع ہوگئے‘ گلاب‘ نیلوفر‘ عجیب و غریب ذائقے تھے۔ 

انوکھی لذت اور انوکھے ذائقے

انوکھی لذتیں ‘لذت کا انوکھا سامان ‘یہ نظام گمان اور خیال سے بالاتر‘ یہ کیا چیز تھی؟ اور یہ کیا انوکھا نظام جس کو ہم نہ سمجھ سکے نہ سوچ سکے۔ آخر یہ کیا ہے؟ ہر گھونٹ اپنی انوکھی لذت کو ایسے بیان کررہا تھا کہ جسے بیان نہیں کرسکتے اور ہر گھونٹ میں ایک لذت کارفرما تھی۔ بس یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور ہم اسی مشروب میں ایسے محو ہوئے اور ذائقے میں ایسے کھوئے کہ ہمیں سمجھ نہ آئی‘ بس پھر اچانک آواز آئی کہ شاہِ جنات کے ہاں آپ کا انتظار ہورہا ہے‘ اس آواز نے ہماری آنکھیں  کھولیں کیونکہ مشروب کی لذت وذائقہ ایسا تھا کہ جو گمان اور خیال سے بالا تر احساس اور سوچ سے بالاتر۔ 

قیمتی پتھروں سے بنا وسیع محل

اب ہم پانچویں محل کی طرف بڑھے لیکن پھر سوچ وہی اسی دکھ اور غم کی غالب آگئی ‘یہ لذت اور ذائقےتھوڑی دیر کے لئے تھے ۔ ان کے دکھ‘ غم‘ رونے اور سسکیوں نے دل و دماغ قبضہ جمایا ہوا تھا۔ ظالم کے ظلم کے بارے میں دماغ اور دل مسلسل سوچ رہے تھے یہی سوچ بڑھتے بڑھتے ہم آگے گئے تو ہمیں پانچواں محل نظر آیا ۔وہ پانچواں محل تین رنگوں سے مزین تھا اس میں ایک فیروزہ ‘ دوسرا یاقوت اور تیسرا عقیق کا رنگ تھا۔ یعنی وہ تین قیمتی پتھروں سے مل کر بنا تھا ۔محل اتنا بڑا تھا اور اس کا دروازہ اتنا اونچا تھا کہ سر کو آخری درجہ تک اٹھا کر دیکھنے کے بعد بھی اس محل کے دروازے کا آخری حصہ میں نہ دیکھ سکا۔ 

گمان اور خیال سے بالاتر

اس کے برج‘ اس کے کینگرے‘ اس کی آبشاروں کا سازو آواز اس کے موتی‘ اس میں جڑے ہوئے لعل و جواہر اور وہاں کے دربانوں کا لباس سبز تھا ،سبزہ ان پر غالب تھا۔ ان کے جوتے کوئی خاص چیز سے بنےہوئے تھے‘ ان کے سر پر ان کے بدن پر ہر چیز سبز ہی سبز تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا‘ بہت پیار سے ملے۔ انہوں نے ہمیں ایک چھوٹی سی روٹی پیش کی۔ روٹی اتنی چھوٹی تھی جیسے ہمارے ہاں گول بسکٹ ہوتاہے اس پر ایک مکھن لگا ہوا تھا چھوٹا سا بسکٹ اور مکھن ایسا تھا جو ایک لقمہ کے برابر تھا انہوں نے بھی کہا کہ یہ چھوٹا سا بسکٹ اور مکھن منہ میں ڈال لیں‘ بس ایک ہی لقمہ ہے۔ اس کے بعد ایک درخت کی شاخ دی اور سب نے کہا کہ اس کا ایک ایک پتہ توڑ لیں اور وہ اسی لقمہ کے ساتھ کھالیں تھوڑی ہی دیر میں اس لقمہ اور شاخ نے ہمیں زندگی کا انوکھا نظام اور انوکھی کیفیت دی ۔اس کا ذائقہ‘ اس کی لذت‘ کیا بیان کروں؟ کیسے بیان کروں؟ بیان تو اس وقت کروں جب اس کی کوئی مثال میرے سامنے آئے‘ بیان تو اس وقت کروں جب اس کا کوئی نظام میرے سامنے آئے‘ آخر کیسے بیان کروں؟ بس اتنا کہ ایک چیز تھی جسے نہ بیان کیا جاسکتا ہے نہ لکھا جاسکتا ہے ۔

جنات کی حکمت و بصیرت

اسے مکھن اسے شہد‘ اسے ملائی‘ اسے کون سا ذائقہ کہوں اور کس ذائقے سے اس کو مثال دے کر سمجھاؤں اور پتے کے اندر کیا تھا ‘وہ نمکین بھی تھا‘ وہ میٹھا بھی تھا‘ وہ چرپرا بھی تھا‘ وہ لذیذ بھی تھا۔ بس یہ لذتیں اورملا جلا نظام غم کو بھلانے اور دکھ کو بھلانےکے لئے تھیں‘ بعد میں احساس ہوا کہ یہ سب ذائقے اور لذتیں دی اس لیے جارہی ہیں کہ انسان کو بعض اوقات غم ایسا آتا ہے کہ وہ اس غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ‘ جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے یہ سوچ ان کی اصل سوچ تھی اور یہ جذبہ ان کا اصل جذبہ تھا‘ہم انہی خیالات میں تھے کہ آواز آئی کہ شاہِ جنات کے ہاں آپ کا شدت سے انتظار ہورہا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ اب آپ چھٹے محل میں جائیں گے اس کے بعد ساتواں محل شاہِ جنات کا ہوگا جہاں ان کی مجلس اور کچہری اور جہاں وہ بیٹھتے ہیں۔

چھٹے محل کی طرف اٹھتے متلاشی قدم

ہمارے قدم متلاشی‘ قدم چھٹے محل کی طرف اور ہمیں اب تسلی ہوگئی کہ یہ آخری محل ہے اس کے بعد ہماری شاہِ جنات سے ملاقات ہونی ہے۔ چھٹے محل کی طرف ہم پہنچے تو چھٹے محل کے رنگ کو ہم پہچان ہی نہ سکے وہ رنگ ایسا تھا جو آج تک نہ دیکھا پڑھا ‘لکھا ‘نہ سوچا‘ نہ احساس ‘ نہ خیال ‘نہ ادراک میں‘ وہ کیا رنگ تھا ایک ہی پل میں سفید ‘نظر ہٹے تو اس کا رنگ بدل جاتا تھا اگلی نظر میں اس کا اور رنگ ہوتا ‘ اس سے اگلی نظر میں اور رنگ ہو‘ نظر نظر کے بعد اگلا رنگ لیکن ایک چیز اور ہے اس میں کوئی دربان نہیں تھا‘ کوئی بھی نہیں تھا‘ دائیں بائیں دیکھا تو ہم خاموشی سے آگے نکلے ‘آگے چلے تو اس سے بھی زیادہ کہیں بڑا ہیبت ناک اور پروقار ایک محل تھا جو سب محلات پر غالب تھا اور سب سے غالب اور اتنا غالب تھا کہ انسان اس کے غلبے کے احساس کو سوچ ہی نہیں کر سکتا۔ اس کی سوچ کتنی‘ اس کا احساس کتنا‘ اس کا غلبہ کتنا‘یہ چیزیںعقل انسانی سے آگے کی تھیں۔ ہم شاہِ جنات کے محل تک پہنچے جو کہ ساتواں محل تھا۔ 

نیک اولیاء ؒ کی ارواح

دربانوں کی لائنیں تھیں ان لائنوں کے اندر سے گزر رہے تھے ہردربان محبت پیار کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے دربان کے درمیان سے گزرے تو ان سب کی وردی ایک ہی رنگ کی تھی‘ اگلے دربان ان کی وردی دوسرے رنگ کی تھی‘ان کے سروں پر جو لوہے کی ٹوپی تھی اس کا رنگ اور اس کانمونہ بھی اور تھا ‘اس طرح تیسرے دربان‘ الغرض سات دربان تھے ان ساتوں دربانوں سے ہم گزر رہے تھے‘ سب کی وردی کے رنگ‘ سب کے اسلحہ کا انداز‘ سب کی زندگی کی کیفیت بالکل منفرد تھی جو کہ ہمارے خیال احساس اور ادراک سے بالاتر ہے۔ یہ سب چیزیں دیکھ رہا تھا اور ان ساری چیزوں کو میں پڑھ رہا تھا ‘ ایک احساس ہورہا تھا کہ اب ہم شاہِ جنات کے پاس پہنچیں گے اور شاہ ِجنات ان فریادیوں کی فریاد سنیں گے‘  باورچی بابا جن‘ عبدالسلام جن‘ اولیاء ارواح جن کو میں نے قبروں سے لیا تھا‘ قبرستان کے جنات اور وہ دونوں بوڑھے اور ان کا پورا خاندان میرے ساتھ تھے۔

ہیبت ناک آواز

تھوڑی دیر ہوئی ہم ایک بہت بڑے دلان میں داخل ہوئے‘ اس کے دائیں بائیں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں ان کرسیوںپر جنات بیٹھے تھے ۔ہم آگے بڑھتے گئے‘ ایک رہبر تھا جو ہمیں لے کر جارہا تھا‘ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اگلا دلان تھا جو اس سے اور خوش نما تھا اس میں کچھ لوگ بیٹھے تھے‘ پھر اگلا ہال تھا ۔یوں سات ہالوں سے ہم گزرے‘ اس میں ہر فرد اس انداز سے بیٹھا تھا جیسے کچھ سوچنے کی ذمہ داری اور فکر کا احساس ہو۔سب نے ہمیں دیکھا ‘نظروں ہی نظروں میں محبت دی ۔ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھے کہ ہمیں ایک بہت بڑا تخت نظر آیا۔ تخت کے دائیں بائیں سینکڑوں جنات تھے جو پہرہ دے رہے تھے ۔ تخت کے اوپر ایک بہت بڑے جن بیٹھے‘ ان کے سر کے اوپر سات تاج تھے۔ ایک تاج سر پر تھا اس تاج کے اوپر ایک اور تاج تھا‘ایسے ہی تاج کے اوپر تاج جڑے ہوئے تھے اورجوآخری تاج جو کہ سب سے بڑا تھا وہ سونے جواہرات سے مزین تھا۔ اس تاج کے اوپر شاہِ جنات بیٹھے تھے۔میں نے سلام کیا۔ ہیبت ناک آواز اور محبت کے ساتھ سلام کا جواب آیا۔

شاہِ جنات کی آنکھوں میں آنسو

ہم سامنے پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے‘ پھر گفتگو کا آغاز کیا کہ یہ مظلوم ہے‘ اس کی داد رسی کی جائے۔شاہ جنات نے بات کو بڑی متانت سے سنا‘ فرمانے لگے:ہمیں ساری اطلاع مل گئی ہے اور آپ کے آنے سے پہلے میں نے اس ظالم جن کو قید کروا کر قید خانہ میں ڈالا ہوا ہے ۔پھر اشارہ کیا‘ اس ظالم جن کو قید خانہ سے زنجیروں کے ساتھ لایاجائے‘  وہ ظالم جن پیش کیا گیا جو کہ آگ کی زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا تھا۔ اسےسامنے کھڑا کرکے پھر ان دونوں بوڑھوں کو کہا گیا کہ اپنی فریاد سنائیں۔ ان میاں بیوی نے رو رو کر اپنے دکھ اور فریادسنائیں اتنی دکھ بھری داستان تھیں کہ سارا مجمع سسکیاں لے رہا تھا‘ خود شاہ جنات کی آنکھوں میں آنسو تھے ‘ میں خود رو رہا تھا ‘ دوسری طرف اس ظالم کاسر جھکا ہواتھا۔

ظالم جن کا عبرتناک انجام

تھوڑی ہی دیر میں شاہ جنات بولے: اس نے صرف ان دونوں بوڑھوں پر ظلم نہیں کیا‘ اس کے ظلم کے قصے پرانے ہیں جس کو ہم ڈھیل دیتے رہے‘ سمجھاتے رہے‘ یہ ہم سے وعدے کرتا رہا اور اس کے وعدے ہم سنتے رہے ‘ انتظار کرتے رہے کہ کب اس کے وعدے وفا ہوں گے لیکن اس نے وعدے پورے نہیں کیے ہمیشہ وعدوں سے پھر جاتا تھا۔ پھر اس کو ہم نے ہلکی سزائیں بھی دیں ‘سزاؤں کے بعد معافی اور معافی کے بعد پھر یہ واپس اپنے مزاج پر‘ آخر کار جب مجھ تک اطلاع پہنچی تو اب اس کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے جس طرح لوگوں کو سسکایا ہے اس کو بھی ایسے سسکایاجائے گا‘ لیکن جیل میں نہیں ۔اس معاشرے‘ اس علاقہ ‘اس شہر میں جہاں اس نے ظلم کیا تھا ‘ عین چوراہے پر اس جگہ پر جہاں لوگ اس کودیکھیں ‘وہاں اس کو سسکانے والی خطرناک سزائیں دی

جائیں گی اور ایسی سزائیں دی جائیں گی جوصدیوں کسی نے نہ دی ہوں گی اور لوگ ان سزاؤں پر آخر کار سسک اٹھیں گے‘ آنے والوں کو نصیحتیں کریں گے کہ خیال کرنا کبھی اس سزا کو نہ بھول نہ جانا۔ اس کے بعد ان کا اشارہ ہوا‘ اشارے میں اس ظالم جن کو گھسیٹ کر محافظوں کے ہاتھوں بھیج دیا کہ اس کو عبرت کا نشان بنادیں ‘پھر ان کی بیٹی انہیں واپس دلا دی جو پہلے سے بہت عزت وقار کے ساتھ لائی گی تھی ان کا مال واپس بھی دلایا اور اپنی طرف سے شاہ جنات نے ہر آنے والے کو لاجواب تحائف دئیے‘ ایسے کمال تحائف جس سے ان کی عزت آبرو‘ وقار اور احترام دل میں اور بڑھ گیا‘ہم ان کا شکریہ ادا کرتے واپس ہوئے۔ لیکن اب کی بار ہمیں جو واپس کیا گیا‘ ایک ایسے گل بہار رستے میں جس میں محلات نہیں آتے تھے وہ راستہ تھا جس میں باغ‘ پھول‘ چہچہانے والے پرندے‘ خوبصورت انداز‘ ہم اس سے واپس آئے۔ بوڑھا بوڑھی بہت خوش‘ بہت شکریہ ادا کررہے تھے‘ دعائیں دے رہے تھے اور میں ان مظلوموں کی دعاؤں پر دل ہی دل میں آمین کہہ رہا تھا۔ ان کی خدمت مدد کرکے دل بہت خوش ہوا وہ لذتیں اور ذائقے جو محلات میں ملے‘ان دعاؤں نے اور ان کی ممنون آنکھوں نے وہ سب لذتیں اور ذائقے بھلا دئیے۔

دو بوڑھوں کا غمیہاں جو خاص بات محسوس کی وہ یہ کہ یہاں جتنے بھی جنات تھے ان سب کا اسلحہ کوئی خاص قسم کی انوکھی زریں تھی جس کی دنیا میں دلیل نہیںمگر اس کے باوجود ان کے لہجے میں نرمی‘ محبت پیار‘ احترام تھا‘ سختی تلخی ہرگز نہیں تھی۔ انہوں نے کہا : آپ کا شاہِ جنات کے ہاں انتظار ہورہا‘ آپ فوراً تشریف لے جائیں۔ اب دل میں خیال آرہا تھا اور کتنے محلات آئیں گے اور کتنی دنیا آئے گی جس دنیا کو ہم جانتے نہیں ‘ کتنی دنیا کے انوکھے نظام جس دنیا کے بارے میں ہمارا خیال اور گمان نہیں‘ آخر کیسے ہوگا؟ یہ خیالات مسلسل ذہن میں آرہے تھے جس سے دل بار بار سوچ رہا تھا کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کیسی دنیا ہوگی؟ بس یہی سوچیں تھیں جس میں دل الجھا بھی ہوا تھا‘ مطمئن بھی تھا اور لطف اندوز بھی ہورہا تھا۔ لیکن یہ ساری چیزیں ایک طرف ان دونوں بوڑھوں کا غم ان سب چیزوں پر غالب تھا اور وہ غم ایسا تھا جس غم کو ہم سمجھ نہیں سکتے اور سوچ نہیں سکتے۔ یہ غم ان سب ذائقوں پر غالب تھا ۔موتیوںسے بنے گلاسہم آگے بڑھے تو ہمیں ایک چوتھا محل نظر آیا جو بالکل کالے پتھروں سے بنا ہوا تھا اور بہت زیادہ سیاہ کالا اتنا کہ اس کے اندر سخت ہیبت تھی‘ اس کے اندر سخت قسم کا خوف محسوس ہورہا تھا اور یہ ہیبت اور خوف غلبہ کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ ہم اس چوتھے محل میں پہنچے‘ پہنچتے ہی انہوں نے ہمیں مرحبا ‘ خوش آمدید کہا‘ بہت محبت دی اور اب وہاں کی مہمان نوازی بدلی۔ چھوٹے سے شیشے کے گلاس تھے‘ دراصل وہ شیشے کے نہیں بلکہ موتی اور مروارید کے بنے ہوئے تھے وہ گلاس بھی عجیب تھے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایک ہی موتی ہے اسی کے اندر گلاس بنایا گیا ہے‘ اس میں ایک جام تھا جو صرف تین گھونٹ تھا اور ایک سفید رنگ کا مشروب تھا۔ محسوس ہوا تھا کہ یہ دودھ ہے‘ اس کا جب پہلا گھونٹ پیا تو واقعی وہ دودھ تھا لیکن ابھی گھونٹ نگلا ہی نہیں تھا کہ اس کے ذائقے بدلنا شروع ہوگئے‘ کبھی گائے کے دودھ کا ذائقہ‘ کبھی بھینس‘ کبھی بکری‘ کبھی بھیڑ اور پھر اس کے مزید ذائقے مشروبات کی شکل میں بدلنا شروع ہوگئے‘ گلاب‘ نیلوفر‘ عجیب و غریب ذائقے تھے۔ انوکھی لذت اور انوکھے ذائقےانوکھی لذتیں ‘لذت کا انوکھا سامان ‘یہ نظام گمان اور خیال سے بالاتر‘ یہ کیا چیز تھی؟ اور یہ کیا انوکھا نظام جس کو ہم نہ سمجھ سکے نہ سوچ سکے۔ آخر یہ کیا ہے؟ ہر گھونٹ اپنی انوکھی لذت کو ایسے بیان کررہا تھا کہ جسے بیان نہیں کرسکتے اور ہر گھونٹ میں ایک لذت کارفرما تھی۔ بس یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور ہم اسی مشروب میں ایسے محو ہوئے اور ذائقے میں ایسے کھوئے کہ ہمیں سمجھ نہ آئی‘ بس پھر اچانک آواز آئی کہ شاہِ جنات کے ہاں آپ کا انتظار ہورہا ہے‘ اس آواز نے ہماری آنکھیں  کھولیں کیونکہ مشروب کی لذت وذائقہ ایسا تھا کہ جو گمان اور خیال سے بالا تر احساس اور سوچ سے بالاتر۔ قیمتی پتھروں سے بنا وسیع محلاب ہم پانچویں محل کی طرف بڑھے لیکن پھر سوچ وہی اسی دکھ اور غم کی غالب آگئی ‘یہ لذت اور ذائقےتھوڑی دیر کے لئے تھے ۔ ان کے دکھ‘ غم‘ رونے اور سسکیوں نے دل و دماغ قبضہ جمایا ہوا تھا۔ ظالم کے ظلم کے بارے میں دماغ اور دل مسلسل سوچ رہے تھے یہی سوچ بڑھتے بڑھتے ہم آگے گئے تو ہمیں پانچواں محل نظر آیا ۔وہ پانچواں محل تین رنگوں سے مزین تھا اس میں ایک فیروزہ ‘ دوسرا یاقوت اور تیسرا عقیق کا رنگ تھا۔ یعنی وہ تین قیمتی پتھروں سے مل کر بنا تھا ۔محل اتنا بڑا تھا اور اس کا دروازہ اتنا اونچا تھا کہ سر کو آخری درجہ تک اٹھا کر دیکھنے کے بعد بھی اس محل کے دروازے کا آخری حصہ میں نہ دیکھ سکا۔ گمان اور خیال سے بالاتراس کے برج‘ اس کے کینگرے‘ اس کی آبشاروں کا سازو آواز اس کے موتی‘ اس میں جڑے ہوئے لعل و جواہر اور وہاں کے دربانوں کا لباس سبز تھا ،سبزہ ان پر غالب تھا۔ ان کے جوتے کوئی خاص چیز سے بنےہوئے تھے‘ ان کے سر پر ان کے بدن پر ہر چیز سبز ہی سبز تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا‘ بہت پیار سے ملے۔ انہوں نے ہمیں ایک چھوٹی سی روٹی پیش کی۔ روٹی اتنی چھوٹی تھی جیسے ہمارے ہاں گول بسکٹ ہوتاہے اس پر ایک مکھن لگا ہوا تھا چھوٹا سا بسکٹ اور مکھن ایسا تھا جو ایک لقمہ کے برابر تھا انہوں نے بھی کہا کہ یہ چھوٹا سا بسکٹ اور مکھن منہ میں ڈال لیں‘ بس ایک ہی لقمہ ہے۔ اس کے بعد ایک درخت کی شاخ دی اور سب نے کہا کہ اس کا ایک ایک پتہ توڑ لیں اور وہ اسی لقمہ کے ساتھ کھالیں تھوڑی ہی دیر میں اس لقمہ اور شاخ نے ہمیں زندگی کا انوکھا نظام اور انوکھی کیفیت دی ۔اس کا ذائقہ‘ اس کی لذت‘ کیا بیان کروں؟ کیسے بیان کروں؟ بیان تو اس وقت کروں جب اس کی کوئی مثال میرے سامنے آئے‘ بیان تو اس وقت کروں جب اس کا کوئی نظام میرے سامنے آئے‘ آخر کیسے بیان کروں؟ بس اتنا کہ ایک چیز تھی جسے نہ بیان کیا جاسکتا ہے نہ لکھا جاسکتا ہے ۔جنات کی حکمت و بصیرتاسے مکھن اسے شہد‘ اسے ملائی‘ اسے کون سا ذائقہ کہوں اور کس ذائقے سے اس کو مثال دے کر سمجھاؤں اور پتے کے اندر کیا تھا ‘وہ نمکین بھی تھا‘ وہ میٹھا بھی تھا‘ وہ چرپرا بھی تھا‘ وہ لذیذ بھی تھا۔ بس یہ لذتیں اورملا جلا نظام غم کو بھلانے اور دکھ کو بھلانےکے لئے تھیں‘ بعد میں احساس ہوا کہ یہ سب ذائقے اور لذتیں دی اس لیے جارہی ہیں کہ انسان کو بعض اوقات غم ایسا آتا ہے کہ وہ اس غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ‘ جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے یہ سوچ ان کی اصل سوچ تھی اور یہ جذبہ ان کا اصل جذبہ تھا‘ہم انہی خیالات میں تھے کہ آواز آئی کہ شاہِ جنات کے ہاں آپ کا شدت سے انتظار ہورہا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ اب آپ چھٹے محل میں جائیں گے اس کے بعد ساتواں محل شاہِ جنات کا ہوگا جہاں ان کی مجلس اور کچہری اور جہاں وہ بیٹھتے ہیں۔چھٹے محل کی طرف اٹھتے متلاشی قدمہمارے قدم متلاشی‘ قدم چھٹے محل کی طرف اور ہمیں اب تسلی ہوگئی کہ یہ آخری محل ہے اس کے بعد ہماری شاہِ جنات سے ملاقات ہونی ہے۔ چھٹے محل کی طرف ہم پہنچے تو چھٹے محل کے رنگ کو ہم پہچان ہی نہ سکے وہ رنگ ایسا تھا جو آج تک نہ دیکھا پڑھا ‘لکھا ‘نہ سوچا‘ نہ احساس ‘ نہ خیال ‘نہ ادراک میں‘ وہ کیا رنگ تھا ایک ہی پل میں سفید ‘نظر ہٹے تو اس کا رنگ بدل جاتا تھا اگلی نظر میں اس کا اور رنگ ہوتا ‘ اس سے اگلی نظر میں اور رنگ ہو‘ نظر نظر کے بعد اگلا رنگ لیکن ایک چیز اور ہے اس میں کوئی دربان نہیں تھا‘ کوئی بھی نہیں تھا‘ دائیں بائیں دیکھا تو ہم خاموشی سے آگے نکلے ‘آگے چلے تو اس سے بھی زیادہ کہیں بڑا ہیبت ناک اور پروقار ایک محل تھا جو سب محلات پر غالب تھا اور سب سے غالب اور اتنا غالب تھا کہ انسان اس کے غلبے کے احساس کو سوچ ہی نہیں کر سکتا۔ اس کی سوچ کتنی‘ اس کا احساس کتنا‘ اس کا غلبہ کتنا‘یہ چیزیںعقل انسانی سے آگے کی تھیں۔ ہم شاہِ جنات کے محل تک پہنچے جو کہ ساتواں محل تھا۔ نیک اولیاء ؒ کی ارواحدربانوں کی لائنیں تھیں ان لائنوں کے اندر سے گزر رہے تھے ہردربان محبت پیار کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے دربان کے درمیان سے گزرے تو ان سب کی وردی ایک ہی رنگ کی تھی‘ اگلے دربان ان کی وردی دوسرے رنگ کی تھی‘ان کے سروں پر جو لوہے کی ٹوپی تھی اس کا رنگ اور اس کانمونہ بھی اور تھا ‘اس طرح تیسرے دربان‘ الغرض سات دربان تھے ان ساتوں دربانوں سے ہم گزر رہے تھے‘ سب کی وردی کے رنگ‘ سب کے اسلحہ کا انداز‘ سب کی زندگی کی کیفیت بالکل منفرد تھی جو کہ ہمارے خیال احساس اور ادراک سے بالاتر ہے۔ یہ سب چیزیں دیکھ رہا تھا اور ان ساری چیزوں کو میں پڑھ رہا تھا ‘ ایک احساس ہورہا تھا کہ اب ہم شاہِ جنات کے پاس پہنچیں گے اور شاہ ِجنات ان فریادیوں کی فریاد سنیں گے‘  باورچی بابا جن‘ عبدالسلام جن‘ اولیاء ارواح جن کو میں نے قبروں سے لیا تھا‘ قبرستان کے جنات اور وہ دونوں بوڑھے اور ان کا پورا خاندان میرے ساتھ تھے۔ہیبت ناک آوازتھوڑی دیر ہوئی ہم ایک بہت بڑے دلان میں داخل ہوئے‘ اس کے دائیں بائیں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں ان کرسیوںپر جنات بیٹھے تھے ۔ہم آگے بڑھتے گئے‘ ایک رہبر تھا جو ہمیں لے کر جارہا تھا‘ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اگلا دلان تھا جو اس سے اور خوش نما تھا اس میں کچھ لوگ بیٹھے تھے‘ پھر اگلا ہال تھا ۔یوں سات ہالوں سے ہم گزرے‘ اس میں ہر فرد اس انداز سے بیٹھا تھا جیسے کچھ سوچنے کی ذمہ داری اور فکر کا احساس ہو۔سب نے ہمیں دیکھا ‘نظروں ہی نظروں میں محبت دی ۔ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھے کہ ہمیں ایک بہت بڑا تخت نظر آیا۔ تخت کے دائیں بائیں سینکڑوں جنات تھے جو پہرہ دے رہے تھے ۔ تخت کے اوپر ایک بہت بڑے جن بیٹھے‘ ان کے سر کے اوپر سات تاج تھے۔ ایک تاج سر پر تھا اس تاج کے اوپر ایک اور تاج تھا‘ایسے ہی تاج کے اوپر تاج جڑے ہوئے تھے اورجوآخری تاج جو کہ سب سے بڑا تھا وہ سونے جواہرات سے مزین تھا۔ اس تاج کے اوپر شاہِ جنات بیٹھے تھے۔میں نے سلام کیا۔ ہیبت ناک آواز اور محبت کے ساتھ سلام کا جواب آیا۔شاہِ جنات کی آنکھوں میں آنسوہم سامنے پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے‘ پھر گفتگو کا آغاز کیا کہ یہ مظلوم ہے‘ اس کی داد رسی کی جائے۔شاہ جنات نے بات کو بڑی متانت سے سنا‘ فرمانے لگے:ہمیں ساری اطلاع مل گئی ہے اور آپ کے آنے سے پہلے میں نے اس ظالم جن کو قید کروا کر قید خانہ میں ڈالا ہوا ہے ۔پھر اشارہ کیا‘ اس ظالم جن کو قید خانہ سے زنجیروں کے ساتھ لایاجائے‘  وہ ظالم جن پیش کیا گیا جو کہ آگ کی زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا تھا۔ اسےسامنے کھڑا کرکے پھر ان دونوں بوڑھوں کو کہا گیا کہ اپنی فریاد سنائیں۔ ان میاں بیوی نے رو رو کر اپنے دکھ اور فریادسنائیں اتنی دکھ بھری داستان تھیں کہ سارا مجمع سسکیاں لے رہا تھا‘ خود شاہ جنات کی آنکھوں میں آنسو تھے ‘ میں خود رو رہا تھا ‘ دوسری طرف اس ظالم کاسر جھکا ہواتھا۔ظالم جن کا عبرتناک انجامتھوڑی ہی دیر میں شاہ جنات بولے: اس نے صرف ان دونوں بوڑھوں پر ظلم نہیں کیا‘ اس کے ظلم کے قصے پرانے ہیں جس کو ہم ڈھیل دیتے رہے‘ سمجھاتے رہے‘ یہ ہم سے وعدے کرتا رہا اور اس کے وعدے ہم سنتے رہے ‘ انتظار کرتے رہے کہ کب اس کے وعدے وفا ہوں گے لیکن اس نے وعدے پورے نہیں کیے ہمیشہ وعدوں سے پھر جاتا تھا۔ پھر اس کو ہم نے ہلکی سزائیں بھی دیں ‘سزاؤں کے بعد معافی اور معافی کے بعد پھر یہ واپس اپنے مزاج پر‘ آخر کار جب مجھ تک اطلاع پہنچی تو اب اس کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی مارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے جس طرح لوگوں کو سسکایا ہے اس کو بھی ایسے سسکایاجائے گا‘ لیکن جیل میں نہیں ۔اس معاشرے‘ اس علاقہ ‘اس شہر میں جہاں اس نے ظلم کیا تھا ‘ عین چوراہے پر اس جگہ پر جہاں لوگ اس کودیکھیں ‘وہاں اس کو سسکانے والی خطرناک سزائیں دی(باقی صفحہ59 )(بقیہ :جنات کا پیدائشی دوست)جائیں گی اور ایسی سزائیں دی جائیں گی جوصدیوں کسی نے نہ دی ہوں گی اور لوگ ان سزاؤں پر آخر کار سسک اٹھیں گے‘ آنے والوں کو نصیحتیں کریں گے کہ خیال کرنا کبھی اس سزا کو نہ بھول نہ جانا۔ اس کے بعد ان کا اشارہ ہوا‘ اشارے میں اس ظالم جن کو گھسیٹ کر محافظوں کے ہاتھوں بھیج دیا کہ اس کو عبرت کا نشان بنادیں ‘پھر ان کی بیٹی انہیں واپس دلا دی جو پہلے سے بہت عزت وقار کے ساتھ لائی گی تھی ان کا مال واپس بھی دلایا اور اپنی طرف سے شاہ جنات نے ہر آنے والے کو لاجواب تحائف دئیے‘ ایسے کمال تحائف جس سے ان کی عزت آبرو‘ وقار اور احترام دل میں اور بڑھ گیا‘ہم ان کا شکریہ ادا کرتے واپس ہوئے۔ لیکن اب کی بار ہمیں جو واپس کیا گیا‘ ایک ایسے گل بہار رستے میں جس میں محلات نہیں آتے تھے وہ راستہ تھا جس میں باغ‘ پھول‘ چہچہانے والے پرندے‘ خوبصورت انداز‘ ہم اس سے واپس آئے۔ بوڑھا بوڑھی بہت خوش‘ بہت شکریہ ادا کررہے تھے‘ دعائیں دے رہے تھے اور میں ان مظلوموں کی دعاؤں پر دل ہی دل میں آمین کہہ رہا تھا۔ ان کی خدمت مدد کرکے دل بہت خوش ہوا وہ لذتیں اور ذائقے جو محلات میں ملے‘ان دعاؤں نے اور ان کی ممنون آنکھوں نے وہ سب لذتیں اور ذائقے بھلا دئیے۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 926 reviews.