گزشتہ سے پیوستہ: سالہا سال ان کا لنگر چلتا رہا جس کو کہیں کھانا نہیں ملتا تھا اس کو تین وقت وہیں کھانا ملتا تھا۔ گرمیوں میں تین وقت ہوتا تھا ‘موسم سرما میں دو وقت ہوتا تھا اور بھرپور ہوتا تھا‘ جتنا کوئی کھائے‘ جتنا کوئی پئے‘ جتنا جس کا دل چاہےوہ اس کو ملتا تھا‘ جی بھر کر ملتا تھا۔
مہاجرین سے محبت اور ان کا اکرام
ایک بات کہنے لگے:اگر کھلانے والا خادم کوئی کمی بیشی کرتا تھا تو اس کو سزا ملتی تھی اور کھانے والا مہمان اس سے بھی زیادہ کمی بیشی کرتاتھا تو اس کو سزا نہیں ملتی تھی کیونکہ ان کے دل میں اس کا بھرپور احترام ہوتا تھا‘اس کے اکرام کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھتے تھے‘ کھلانے کو عبادت سمجھتے تھے‘ اس سے محبت کرنے کو بھی عبادت سمجھتے تھے ۔ سال میں دو مرتبہ سب مہاجروں کو ایک سوٹ مردانہ‘ ایک زنانہ گھر کے ہر فرد کو دیتے تھے اور گھر کا ہرفرد مردانہ زنانہ سوٹ لیتا تھا ۔ انہوں نے درزی بٹھائے ہوئے تھے ‘سوٹ ان کے ناپ کے اور مزاج مطابق سلوا کر دیتے تھے ‘صرف ان کا ہی نہیں ان کے بچوں کا بھی باقاعدہ سوٹ ہوتاتھا جو کہ وہ خود سلواتے تھے اور دیتے تھے ‘یہی ان کا مزاج کی ترتیب تھی۔ وہ بہت زیادہ غریب نواز اور بندہ پرور تھے ۔ایک مرتبہ ایسا ہوا باہر سردیوں میں گراؤنڈ میں ہماری کلاس تھی۔ ہم سب گھاس پر اور استاد کرسی پربیٹھے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہر جگہ نگرانی چل پھر رہے تھے‘ ہماری کلاس میں آئے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی‘ مجھ سے کہنے لگے طارق! کلاس کے بعد میرے دفتر آنا۔میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں چلا گیا‘ وہ کچھ کاغذات کو سلجھا رہے تھے اوران پر کچھ لکھ رہے تھے سر جھکائے کہنے لگے کرسی پر بیٹھ جائو۔
جنات کی چیخیں!’’ہمیں نہ جلائیں‘ ہم جارہے ہیں‘‘
مجھ سے کہنے لگے تمہیں تمہارے بڑوں کاایک واقعہ سناتا ہوں ۔میری ایک قریبی رشتہ دار تھی۔ وہ قریبی رشتہ دار بیمار ہوگئیں‘ جب بیمار ہوئی توان کا بہت علاج کیا‘ ان کے علاج میں بہت زیادہ خرچ کیا مگر وہ ٹھیک نہ ہوئیں‘ مرض بڑھتا گیا کبھی دورے‘ کبھی گر پڑتی تھیں‘ کبھی زخم لگ جاتا تھا‘ کبھی الٹیاں‘ کبھی معدہ خراب‘ طرح طرح کی بیماریاں تھیں جو ختم نہ ہونے کا نام لے رہی تھیں۔کسی نے کہا: یہ کوئی روحانی بیماری اور جنات کےمسائل ہیں۔ہیڈ ماسٹر صاحب کہنے لگے : ہم تمہارےپڑدادا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے آئے‘ پڑدادارحمۃ اللہ علیہ نے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی پکڑی اور ایک ورد پڑھنا شروع کردیا‘ تھوڑی دیر ہوئی اس کے جسم سے چیخیں ہائے ہائے‘ ہمیں نہ جلائیں‘ ہم چلے جاتے ہیں ہمیں کچھ نہ کہیں ہمیں معاف کردیں اس طرح کی آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ آوازیں نکل رہی تھیں‘ لیکن پڑدادا نہیں چھوڑ رہے تھے اور اس کو پکڑ کر پڑھی جارہے تھے‘ تھوڑی دیر ہوئی تو وہ خاتون بیہوش ہوگئیں۔ جب وہ بیہوش ہوئیں تو اس کو چھوڑ دیا اور ساتھ دم کیا ہوا پانی پڑا تھا اس کے چھینٹے مارے اور تعویذ دیاکہ اس کے گلے میں پہنائیں۔اس کے علاوہ ایک اور تعویذ دیا کہ اس کو گھول کر پلائیں ‘تیسرا تعویذ دیاکہ اس کےتکیے میں رکھیں اور تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آگئی اور بالکل ٹھیک ہوگئی۔
لوگ حیران کہ اسے کیا ہوگیا؟
ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کو کوئی بیماری ہے ہی نہیںاور اس کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں‘ اس کی تکلیف‘ بیماری بالکل ختم ہوگئی۔ چند دنوں کے بعد اس نے سارے گھر کا نظام سنبھالا اور سارے گھر کو ایسے انداز سے خدمت میں لیا کہ گھر والے حیران‘ لوگ حیران‘ یہ تو مہینوں سے بستر پر پڑی تھی اب اس کو کیا ہوگیا؟
خاندانی عظمتیںاورروحانیت میں مقام ‘ان سے بہت زیادہ سنا‘ سیکھا‘ ان کے ساتھ نشستیں ہوئیں اور ایک لفظ اکثر فرماتے تھے کہ بیٹا تجھے پتہ ہی نہیں کہ تیرا خاندان ہے کون؟ کبھی کہتے طارق! تجھے پتہ ہی نہیں تیرے خاندان کی داستانیں کتنی پرانی اور گہری ہیں۔ (جاری ہے)
گزشتہ سے پیوستہ: سالہا سال ان کا لنگر چلتا رہا جس کو کہیں کھانا نہیں ملتا تھا اس کو تین وقت وہیں کھانا ملتا تھا۔ گرمیوں میں تین وقت ہوتا تھا ‘موسم سرما میں دو وقت ہوتا تھا اور بھرپور ہوتا تھا‘ جتنا کوئی کھائے‘ جتنا کوئی پئے‘ جتنا جس کا دل چاہےوہ اس کو ملتا تھا‘ جی بھر کر ملتا تھا۔ مہاجرین سے محبت اور ان کا اکرامایک بات کہنے لگے:اگر کھلانے والا خادم کوئی کمی بیشی کرتا تھا تو اس کو سزا ملتی تھی اور کھانے والا مہمان اس سے بھی زیادہ کمی بیشی کرتاتھا تو اس کو سزا نہیں ملتی تھی کیونکہ ان کے دل میں اس کا بھرپور احترام ہوتا تھا‘اس کے اکرام کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھتے تھے‘ کھلانے کو عبادت سمجھتے تھے‘ اس سے محبت کرنے کو بھی عبادت سمجھتے تھے ۔ سال میں دو مرتبہ سب مہاجروں کو ایک سوٹ مردانہ‘ ایک زنانہ گھر کے ہر فرد کو دیتے تھے اور گھر کا ہرفرد مردانہ زنانہ سوٹ لیتا تھا ۔ انہوں نے درزی بٹھائے ہوئے تھے ‘سوٹ ان کے ناپ کے اور مزاج مطابق سلوا کر دیتے تھے ‘صرف ان کا ہی نہیں ان کے بچوں کا بھی باقاعدہ سوٹ ہوتاتھا جو کہ وہ خود سلواتے تھے اور دیتے تھے ‘یہی ان کا مزاج کی ترتیب تھی۔ وہ بہت زیادہ غریب نواز اور بندہ پرور تھے ۔ایک مرتبہ ایسا ہوا باہر سردیوں میں گراؤنڈ میں ہماری کلاس تھی۔ ہم سب گھاس پر اور استاد کرسی پربیٹھے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہر جگہ نگرانی چل پھر رہے تھے‘ ہماری کلاس میں آئے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی‘ مجھ سے کہنے لگے طارق! کلاس کے بعد میرے دفتر آنا۔میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں چلا گیا‘ وہ کچھ کاغذات کو سلجھا رہے تھے اوران پر کچھ لکھ رہے تھے سر جھکائے کہنے لگے کرسی پر بیٹھ جائو۔ جنات کی چیخیں!’’ہمیں نہ جلائیں‘ ہم جارہے ہیں‘‘مجھ سے کہنے لگے تمہیں تمہارے بڑوں کاایک واقعہ سناتا ہوں ۔میری ایک قریبی رشتہ دار تھی۔ وہ قریبی رشتہ دار بیمار ہوگئیں‘ جب بیمار ہوئی توان کا بہت علاج کیا‘ ان کے علاج میں بہت زیادہ خرچ کیا مگر وہ ٹھیک نہ ہوئیں‘ مرض بڑھتا گیا کبھی دورے‘ کبھی گر پڑتی تھیں‘ کبھی زخم لگ جاتا تھا‘ کبھی الٹیاں‘ کبھی معدہ خراب‘ طرح طرح کی بیماریاں تھیں جو ختم نہ ہونے کا نام لے رہی تھیں۔کسی نے کہا: یہ کوئی روحانی بیماری اور جنات کےمسائل ہیں۔ہیڈ ماسٹر صاحب کہنے لگے : ہم تمہارےپڑدادا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے آئے‘ پڑدادارحمۃ اللہ علیہ نے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی پکڑی اور ایک ورد پڑھنا شروع کردیا‘ تھوڑی دیر ہوئی اس کے جسم سے چیخیں ہائے ہائے‘ ہمیں نہ جلائیں‘ ہم چلے جاتے ہیں ہمیں کچھ نہ کہیں ہمیں معاف کردیں اس طرح کی آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ آوازیں نکل رہی تھیں‘ لیکن پڑدادا نہیں چھوڑ رہے تھے اور اس کو پکڑ کر پڑھی جارہے تھے‘ تھوڑی دیر ہوئی تو وہ خاتون بیہوش ہوگئیں۔ جب وہ بیہوش ہوئیں تو اس کو چھوڑ دیا اور ساتھ دم کیا ہوا پانی پڑا تھا اس کے چھینٹے مارے اور تعویذ دیاکہ اس کے گلے میں پہنائیں۔اس کے علاوہ ایک اور تعویذ دیا کہ اس کو گھول کر پلائیں ‘تیسرا تعویذ دیاکہ اس کےتکیے میں رکھیں اور تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آگئی اور بالکل ٹھیک ہوگئی۔لوگ حیران کہ اسے کیا ہوگیا؟ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کو کوئی بیماری ہے ہی نہیںاور اس کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں‘ اس کی تکلیف‘ بیماری بالکل ختم ہوگئی۔ چند دنوں کے بعد اس نے سارے گھر کا نظام سنبھالا اور سارے گھر کو ایسے انداز سے خدمت میں لیا کہ گھر والے حیران‘ لوگ حیران‘ یہ تو مہینوں سے بستر پر پڑی تھی اب اس کو کیا ہوگیا؟ خاندانی عظمتیںاورروحانیت میں مقام ‘ان سے بہت زیادہ سنا‘ سیکھا‘ ان کے ساتھ نشستیں ہوئیں اور ایک لفظ اکثر فرماتے تھے کہ بیٹا تجھے پتہ ہی نہیں کہ تیرا خاندان ہے کون؟ کبھی کہتے طارق! تجھے پتہ ہی نہیں تیرے خاندان کی داستانیں کتنی پرانی اور گہری ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں