محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!چند ماہ قبل عبقری میں موبائل کے منفی استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات سے متعلق تحریر پڑھی تو فیصلہ کیا کہ اس ضمن میں اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ تحریر کر وں تاکہ لوگوں کے لئے یہ اصلاح اوربھلائی کا ذریعہ بنے۔
خاندان کا لاڈلہ بیٹا
ہمارے ایک قریبی رشتہ دار ہیں ‘تمام بھائیوں کی شادیاں تاخیر سے ہوئیں مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے کرم کیا چند سال بعد ایک بھائی کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی‘تمام گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی۔گھر کے تمام افراد کی جانب سے بیٹے کو خوب پیار دیا جاتا‘اس کی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور لاڈ نے بچےکی زندگی کی ترتیب درہم برہم کر دی۔یہ سوچ کر کہیں بچہ دوسروں بچوں کے ساتھ مل کر بگڑ نہ جائے اسے محلے کے بچوں کے ساتھ دوستی اور کھیلنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ‘ گھر کی چار دویواری میںدل بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا یا پھر صبح و شام ٹی وی پر کارٹون اور دوسرے چینلز لگا کر مشغول رکھا جاتا۔اس کے علاوہ بازاری اور گھریلو چٹ پٹی مرغن غذائیں ‘بازاری مشروبات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا۔کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔یہ بات سو فیصد درست ہے‘ ایسا ہی ہوا۔جُوں جُوں بچہ بڑا ہوتا گیا اس کے گُن ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے۔اب حال یہ ہو گیا کہ ٹی وی یا موبائل پر کارٹون وغیرہ دیکھے بغیربچے کی حلق سے نہ کھانے کا لقمہ اور نہ ہی پانی کا گھونٹ نیچے اترتا ہے۔بس یوں کہیے کہ ٹی وی اور موبائل کا استعمال بچے نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔جب تک بچہ جاگ رہا ہوتا ہے ٹی وی پر اپنی پسند کے علاوہ کسی کو کوئی بھی چینل نہیں دیکھنے دیتا۔
موبائل اور انٹرنیٹ سے پرورش
بات صرف یہی تک ختم نہیںہوئی‘دوسرے بچوں سے دور رہنے ‘ سارا دن ٹی وی اور موبائل کے استعمال کی وجہ سے اس میں عام بچوں کی طرح نہ بات کرنے کا ڈھنگ اور نہ ہی کھیلنے کودنے کی صلاحیت ہے۔وہ غصہ میں ہو یا خوشی میں ‘اس کی ہر بات منہ سے چیخ اور چلّا کر ہی نکلتی ہے۔بچہ احساس کمتری کا شدید شکارہو چکا ہے۔ان حالات میں بچے کے والد نے بیٹے کو سکول میں داخل کروایا تو پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔یعنی جس طرح جیلوں میں پیشہ ور مجرم حالات کے مارے بیچارے عام قیدیوں کو بہانے سے تنگ کرتے اور مزاحمت کرکے شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘ بالکل اسی طرح اس بچے کو بھی سکول کے چالاک اور شریر بچے تنگ کرتے‘ چڑاتے اور اس کی چیزو ںکو چھپاتے اور چراتے ہیں۔بعض تو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہ بیچارہ ان کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔
والدین کا غلط فیصلہ گلے پڑ گیا
حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ جیسے ہی وہ کمزوراور بزدل بچہ سکول سے گھر آتا ہے تو گھر والوں پر وہ قیامت بن کر ٹوٹتا ہے۔ بچے کی فکر دیمک کی طرح کھائی جا رہی ہے۔وہ بچہ تقریباً گیارہ سال کا ہو چکا ہے مگر اس کے اندر چار سال کے بچے جتنی بھی عقل اور سمجھ بوجھ نہیں ہے۔والدین کے غلط فیصلہ نے یعنی معاشرہ کےبچوں سے دور رکھ کر ہاتھ میں موبائل تھما دینے اور ٹی وی کے حوالہ کردینے سے آج وہ بچہ انسان نما جانور بن چکا ہے۔مگر والدین اپنی اس غلطی کا اعتراف کرنے اور اصلاح کرنے پر تیار نہیں۔خاندان کے باقی افراد کی طرف سے جب اس طرف توجہ مبذول کروائی جاتی ہے تو آگے سے یہی جواب آتا ہے کہ بچہ ہے بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا مگر کب اور کیسے؟ وہ بیچارہ موبائل‘ انٹرنیٹ اور ٹی وی کی دنیا میں مگن ہو کر دن بدن بگڑتا چلا جا رہے ہے‘ اس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔
قارئین!میری آپ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اپنے بچے سے پیار‘ محبت لازمی کریں‘ اس کا خیال بہت رکھیں مگر پیار اور لاڈ کے نام پر‘ اپنی ذمہ داریوں سے کترا کر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہرگز نہ تھمائیں‘ اسے فطری ماحول‘ فطری غذائیں دیں ورنہ خدانخواستہ وقت اور بچہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔آپ کا نور نظر آپ کے لئے راحت کے بجائے غم اور دکھوں کا سبب بن جائے گا‘اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے ‘ آمین!
محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!چند ماہ قبل عبقری میں موبائل کے منفی استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات سے متعلق تحریر پڑھی تو فیصلہ کیا کہ اس ضمن میں اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ تحریر کر وں تاکہ لوگوں کے لئے یہ اصلاح اوربھلائی کا ذریعہ بنے۔خاندان کا لاڈلہ بیٹاہمارے ایک قریبی رشتہ دار ہیں ‘تمام بھائیوں کی شادیاں تاخیر سے ہوئیں مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے کرم کیا چند سال بعد ایک بھائی کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی‘تمام گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی۔گھر کے تمام افراد کی جانب سے بیٹے کو خوب پیار دیا جاتا‘اس کی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور لاڈ نے بچےکی زندگی کی ترتیب درہم برہم کر دی۔یہ سوچ کر کہیں بچہ دوسروں بچوں کے ساتھ مل کر بگڑ نہ جائے اسے محلے کے بچوں کے ساتھ دوستی اور کھیلنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ‘ گھر کی چار دویواری میںدل بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا یا پھر صبح و شام ٹی وی پر کارٹون اور دوسرے چینلز لگا کر مشغول رکھا جاتا۔اس کے علاوہ بازاری اور گھریلو چٹ پٹی مرغن غذائیں ‘بازاری مشروبات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا۔کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔یہ بات سو فیصد درست ہے‘ ایسا ہی ہوا۔جُوں جُوں بچہ بڑا ہوتا گیا اس کے گُن ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے۔اب حال یہ ہو گیا کہ ٹی وی یا موبائل پر کارٹون وغیرہ دیکھے بغیربچے کی حلق سے نہ کھانے کا لقمہ اور نہ ہی پانی کا گھونٹ نیچے اترتا ہے۔بس یوں کہیے کہ ٹی وی اور موبائل کا استعمال بچے نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔جب تک بچہ جاگ رہا ہوتا ہے ٹی وی پر اپنی پسند کے علاوہ کسی کو کوئی بھی چینل نہیں دیکھنے دیتا۔موبائل اور انٹرنیٹ سے پرورشبات صرف یہی تک ختم نہیںہوئی‘دوسرے بچوں سے دور رہنے ‘ سارا دن ٹی وی اور موبائل کے استعمال کی وجہ سے اس میں عام بچوں کی طرح نہ بات کرنے کا ڈھنگ اور نہ ہی کھیلنے کودنے کی صلاحیت ہے۔وہ غصہ میں ہو یا خوشی میں ‘اس کی ہر بات منہ سے چیخ اور چلّا کر ہی نکلتی ہے۔بچہ احساس کمتری کا شدید شکارہو چکا ہے۔ان حالات میں بچے کے والد نے بیٹے کو سکول میں داخل کروایا تو پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔یعنی جس طرح جیلوں میں پیشہ ور مجرم حالات کے مارے بیچارے عام قیدیوں کو بہانے سے تنگ کرتے اور مزاحمت کرکے شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘ بالکل اسی طرح اس بچے کو بھی سکول کے چالاک اور شریر بچے تنگ کرتے‘ چڑاتے اور اس کی چیزو ںکو چھپاتے اور چراتے ہیں۔بعض تو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہ بیچارہ ان کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔والدین کا غلط فیصلہ گلے پڑ گیاحیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ جیسے ہی وہ کمزوراور بزدل بچہ سکول سے گھر آتا ہے تو گھر والوں پر وہ قیامت بن کر ٹوٹتا ہے۔ بچے کی فکر دیمک کی طرح کھائی جا رہی ہے۔وہ بچہ تقریباً گیارہ سال کا ہو چکا ہے مگر اس کے اندر چار سال کے بچے جتنی بھی عقل اور سمجھ بوجھ نہیں ہے۔والدین کے غلط فیصلہ نے یعنی معاشرہ کےبچوں سے دور رکھ کر ہاتھ میں موبائل تھما دینے اور ٹی وی کے حوالہ کردینے سے آج وہ بچہ انسان نما جانور بن چکا ہے۔مگر والدین اپنی اس غلطی کا اعتراف کرنے اور اصلاح کرنے پر تیار نہیں۔خاندان کے باقی افراد کی طرف سے جب اس طرف توجہ مبذول کروائی جاتی ہے تو آگے سے یہی جواب آتا ہے کہ بچہ ہے بڑا ہو کر ٹھیک ہو جائے گا مگر کب اور کیسے؟ وہ بیچارہ موبائل‘ انٹرنیٹ اور ٹی وی کی دنیا میں مگن ہو کر دن بدن بگڑتا چلا جا رہے ہے‘ اس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔قارئین!میری آپ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اپنے بچے سے پیار‘ محبت لازمی کریں‘ اس کا خیال بہت رکھیں مگر پیار اور لاڈ کے نام پر‘ اپنی ذمہ داریوں سے کترا کر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہرگز نہ تھمائیں‘ اسے فطری ماحول‘ فطری غذائیں دیں ورنہ خدانخواستہ وقت اور بچہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔آپ کا نور نظر آپ کے لئے راحت کے بجائے غم اور دکھوں کا سبب بن جائے گا‘اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے ‘ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں