دل کا معاملہ ہے
اللہ جل شانہ کا ایک نظام ہے کہ ایمان اس کو ملتا ہے جس کے اندر طلب ہوتی ہے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا وہ ایمان والا نہیں تھا اللہ جل شانہ نے قرآن میں فرمایا اے میرے نبی! وہ آپ علیہ السلام کی اہل میں سے نہیں ہے ہاں!! کبھی اس خیال میں نہ رہئے گا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی‘ حضرت ابراہیم کا باپ نافرمانوں میں سے تھے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم میں سے بھی چند لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ ارے! ابولہب کی تو وہ محبت بھی نہ بھولیں کہ جب لونڈی دوڑتی ہوئی آئی اور کہا آپ کے بھائی کے ہاں بیٹا ہوا ہے تو اتنا خوش ہوا کہ میرے مرحوم بھائی کا نام زندہ ہوگیا ہے کہا لونڈی جا تو آزاد ہے کیا ابو لہب کی یہ محبت کام آئے گی؟ قرآن کہتا ہے تبت یدا ابی لہب ابولہب برباد ہوگیا ‘اس کی بیوی برباد ہو گئی کیوں؟ اس لیے کہ ایمان نہیں لایا تھا.... ایمان اتنی قیمتی چیز ہے.... ایمان کا بنانا اتنا ضروری ہے.... ایمان کا پانا اتنا ضروری ہے.... ایمان کے لئے کوشش کرنا اتنا ضروری ہے‘ ایمان پر کتنی کوشش کتنی محنت کی....؟ ایمان کے لئے کتنا وقت لگایا....؟ کتنی جان لگائی ....؟کتنا اللہ سے مانگا....؟ کتنا گڑگڑائے اور پھر ہمیں اس کا کتنا فکر دامن گیر ہوا....؟ آپ یقین جانئے! جان کےلئے میٹھا چھوڑا لیکن ایمان کےلئے گناہ نہ چھوڑا۔ شوگر ہے‘ کولیسٹرول ہے ‘یوریا بڑھ گیا ہے.... میں فلاں چیز نہیں کھاتا.... ہنس کے کہتا ہے اب تو سال ہا سال ہو گئے چکھ کے نہیں دیکھا ....کس لئے ؟جان کے لئے۔ ایسے بھولے کہ بھولنا ہی بھول گئے کہ یہ پرہیز کیوں کیا؟
کہنے لگے کہ میں سخت تختے پر سوتا ہوں اس لیے کہ میرا ڈسک کا مسئلہ ہے‘ احتیاط کرتا ہوں.... میرا فلاں مسئلہ ہے‘ میں یہ احتیاط کرتا ہوں۔ میں صبح سیر کیلئے جاتا ہوں وہاں کئی لوگوں کو دیکھتا ہوں کوئی الٹا ہو رہا‘ کوئی سیدھا ہو رہا‘ سارا نظام جان بنانے کیلئے چل رہا ہے۔ کہتے ہیں رسک نہ لینا‘ معاملہ دل کا ہے فوراً بائی پاس‘ انجیو پلاسٹی کروائو۔میں آپ کو دل سے کہہ رہا ہوں‘ رسک نہ لینا‘ معاملہ ایمان کا ہے جو کہ دل میں ہوتا ہے۔ خیال کرنا رسک نہ لینا ۔میرے آقا سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسم میں ایک لوتھڑا ہے مفہوم ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوتا ہے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیا ہے؟ فرمایا خبردار! وہ دل ہے ....وہ دل ہے.... وہ دل ہے.... معاملہ دل کا ہے ۔ رسک نہ لینا ۔
ایمان کے بقدر موت کی نرمی و سختی
یاد رکھنا !ایمان کے بقدر موت کی نرمی اور سختی آئے گی ایمان کے بقدر موت کے فرشتے بن سنور کر ورنہ خطرناک شکل میں آئیں گے۔ موت کے فرشتے بھی ایمان کے بقدراپنی شکلیں بدلتے ہیں ۔میں آ پ کو حقیقت کہہ رہا ہوں۔ (میری ایک دودھ شریک بہن فوت ہوگئی تھی)جب میں حج سے واپس آیا تو گھرجانے سے پہلے والدین اور بہن کی تربت پر گیا۔ اگلے دن میری ہمشیرہ مجھ سے کہنے لگیں تمبہن کی تربت پر گئے تھے؟ تومیں نے کہا ہاں !میں گیاتھا.... کہنے لگیں وہ میرے خواب میں آئی تھی کہنے لگی اللہ نے میری بخشش کی تھی لیکن ایک معاملے میں میں پکڑی ہوئی تھی کہ میں نے آ ج تک اپنے آپ کو کسی کے سامنے جھکایا نہیں تھا‘ میں اپنا سر اونچا رکھتی تھی۔ طارق نے حج سے آکر دعا کی تو میری بخشش ہوگئی۔ بھئی! مجھ پرفتویٰ نہ لگا دینا ‘میں تو آپ کو کسی کی بات عرض کررہا ہوں مجھے تو اپنا پتہ نہیں ہے۔ میں نے کہا ہاں! میں گیا تھا اور اللہ سے دعا کی تھی کہ الٰہی اس کو معاف کردے۔ تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حاجی کی دعا قبول ہوتی ہے اللہ !میرا وہ حج تو نہیں ہے لیکن تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سچا ہے پہلے اپنے والدین کی تربت پر گیا تھا پھر اس کی تربت پر گیا۔ قبر میں معاملہ ایمان کے بقدر ہوگا آپ کو میں دل کی گہرائیوں سے عرض کررہا ہوں اور فرشتے بھی ایمان کے بقدر اپنی شکلیں سنوار کے یا بگاڑ کے آئیں گے اور اس ایمان کے بنانے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ یہی بنتی ہے جو میں نے عرض کیا ہے یعنی جھکنا ۔
ایمان کی بربادی دو چیزوں سے
ایک دفعہ پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ شیخ العرب والعجم رحمة اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ تھے‘ بڑے صاحب کمال درویش تھے۔ وہ فرماتے تھے آدمی ہمیشہ جب بھی ایمان سے دور ہوا ‘اعمال سے دورہوا‘ اللہ جل شانہ کی محبت سے دور ہوا ہے اور گرا ہے تو دو چیزوں کی وجہ سے ....باہ اورجاہ .... ایک خواہشات نفسانی کی وجہ سے اور دوسرا حب جاہ یعنی اپنی انا ‘میں کچھ ہوں میرا اس سے مقام اونچا ہے‘ میری کیا حیثےت ہے؟یا میں گیا تھا انہوں نے مجھے پروٹوکول ہی نہ دیا‘ توجہ ہی نہیں دی‘ میرا خیال ہی نہ کیا۔
بس یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو بندے کو رب سے دور کردےتی ہیں اورفرمایا بندہ گرتا چلا جاتا ہے اور اسے اپنے گرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ ایک اللہ والے فرماتے تھے جو گدھے سے گرتا ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں گرا ہوں اور جو کسی اللہ والے کی محفل سے گرتا ہے تو شےطان اس کو احساس بھی نہیں ہونے دےتا اور اس کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں بند ہورہی ہوتی ہیں اور برزخ کی آنکھیں کھل چکی ہوتی ہیں اور موت کے فرشتے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اس وقت اس کی آنکھیں کھلتی ہیںجبکہ وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ میرے دوستو! اس جگہ بڑے بڑے گر جاتے ہیں کہ میری تو توہین ہو گئی مجھے تو پوچھا ہی نہیں ابھی تین دن کے لئے احباب جمع ہوئے تو ایک صاحب نے مجھے خط لکھا بہت سے لوگوں کی آراءآرہی ہیں بہت سے خواب بھی آرہے ہیں لوگوں نے یہاں عجیب خواب بھی دیکھے ہیں ایک شخص نے ایک لفظ لکھا اور بڑا اچھا لکھا۔ کہنے لگے میں تو یہاں ایسے رہا کہ سارے اصحاب کہف ہیں اور میں ان کا کتا ہوں۔ (جاری ہے)
نہ میں بھونکا نہ میں ٹونکا نہ میں شور مچاواں
نیکاں دے لڑ لگ کے میں وی شاید بخشیاں جاواں
اللہ جل شانہ نے اصحاب کہف کے کتے کا قرآن میں کئی جگہ زکر کیا ہے اور ایک رواےت میں یہاں تک آتا ہے کہ اللہ پاک اس کتے کو انسانی شکل دیں گے اور اللہ اس کو جنت میں بھیج دیں گے ان کے ساتھ اور ایک اللہ والے نے یہاں ایک عجیب نقطہ بیان کیا ہے عارفانہ عاشقانہ نقطہ ہے فرمایا دنیا اصحاب کہف کی مخالف تھی ساری دنیا مخالف تھی اللہ جل شانہ کی محبت اور ایمان بچا کر نکلے تھے اور ایک غار میں پناہ لی تھی اس کتے نے ساتھ دیا تھا فرمایا ایمان والوں کا اگر کتا بھی ساتھ دے اللہ اس کا تذکرہ قرآن میں کر دے اگر ایمان والا بندہ ہو اس کا اگر انسا ن ساتھ دے تو اللہ اس سے کتنا راضی ہو گا اور خوش ہو گا اور اللہ اس کو کتنا مقام عطا فرمائے گا یہ تو آنکھیں کھلیں گی ابھی بند ہیں فرمایا کہ سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آئے گی تب جاگیں گے ابھی تو آنکھیں بند ہیں سمجھ نہیں آرہی عقل نہیں مان رہی آنکھیں جو بند ہیں جب یہ آنکھیں کھلیں گی۔
درس سے پانے والے
السلام علیکم حکیم صاحب!آپ کے درس کی برکت سے میری زندگی سنور گئی ہے۔ میں درس میں آنے سے پہلے بہت سی بری عادات میں مبتلا تھا جن میں بدنگاہی‘ سگریٹ نوشی‘ نماز نہ پڑھنا‘ جھوٹ‘ غیبت‘ چغلی اور اس قسم کی کئی بری عادات مجھ میں تھیں جن کو میں گناہ ہی نہیں سمجھتا تھا اور ان گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ ایک دن میرا ایک دوست زبردستی جمعرات والے دن آپ کے درس میں لے آیا۔ حکیم صاحب جیسے جیسے میں آپ کا درس سنتا چلا گیا مجھے اپنے گناہوں کا احساس ہوتا گیا کہ میں کیسے کیسے بڑے گناہ صرف معمولی لذت کی خاطر کرتا رہا۔ میں نے اسی دن سے سچی توبہ کی اور آج میں پانچ وقت نماز کے ساتھ تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں۔(علی‘ لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں