سابق پولیس انسپکٹر چوہدری محمد رمضان اپنی زندگی کے تجربات یو ں بیان کر تے ہیں۔
اس جرائم کی دنیا میں ہر قسم کے انسان ملیں گے۔ قاتل بھی ملیں گے، ٹھگ بھی ملیں گے ،دھوکہ با ز، دوسروںکا مال ہتھیانے والے ۔ڈاکو، چور، راہزن بھی ملیں گے اور اس جرائم کی دنیا میں ایک نا م ایسا ہے جو سب سے زیا دہ سختی کے قابل ہے۔ اور وہ نام ہے ” جیب ترا ش “ کا۔
جیب تراشی کے مختلف زبا نو ں کے کئی نا م ہیں مثلاً جیب کترہ۔ پاکٹ ما ر۔گنڈہ کٹ، گندھ گپ۔ پک پاکٹ جس کا مقصد صرف ایک ہی ہو تا ہے کہ کسی انسان کو اسکی حالت بیداری میں اسکی جمع پونجی سے محروم کر دینا۔ جیسا کہ میں نے عر ض کیا ہے کہ یہ طبقہ سب سے زیا دہ قابل نفرت ہے۔ اس لیے کہ وہ نہیں دیکھتے کہ کوئی شخص اپنے بیما ر بچے کی دوائی لینے کے لیے کسی سے ادھار رقم لے کر آیا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی اپنی بیٹی کے جہیز کا سامان لینے کے لیے آیا ہے اور محنت سے رقم جمع کی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی اپنے عزیز کا کفن دفن کا سامان خریدنے آیاہے اور اگر وہ بروقت سامان لے کر نہ پہنچا تو میت کے دفن کرنے میں تاخیر ہو گی۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی مسافر راستہ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے کتنا پریشان ہو گا۔وہ تو اپنا کام کعبہ کا طواف کر تے ہو ئے ،صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے، منٰی میں شیطان کی رمی کر تے ہوئے ،لو گو ں سے کر جا تے ہیں۔ ان کو ذرہ بھر احسا س نہیں ہوتا کہ و ہ شخص اپنے وطن کیسے پہنچے گا۔ جبکہ سعودی حکومت میں بھیک مانگنا بھی جر م ہے۔
طریقہ وار دات
جیب ترا ش یہ کا م یا تو بلیڈ سے کر تے ہیں یا دو انگلیوں سے ۔کلمہ والی انگلی اور درمیا نی انگلی کے ساتھ کسی کی جیب سے یا بیک پاکٹ سے رقم نکالتے ہیں۔ ان کا نام سلا خیں رکھا ہواہے۔ جس کی جتنی پتلی اور لمبی انگلیاں ہو نگی واردات کرنے میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی نے شلوار کے نیفہ۔ اندرونی جیب میں رقم رکھی ہو تو بلیڈ استعمال کرتے ہیں۔ اور تیسرا طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ اپنے شکار سے ٹکراتے ہیں اور کام کر جا تے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کوئی بڑا آدمی کسی بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہو تا ہے اور بچہ اس سے ڈر کر کسی دوسرے کی پنا ہ میں جا چھپتا ہے۔ اور اپنا کام کر جا تاہے۔ حالانکہ بڑے اور بچے کا واردات کرنے کا یہ ایک ذریعہ ہو تاہے۔ بعض نوجوان لڑکیا ں بھی اس قسم کے کام میں ملوث ہو تی ہیں۔ را ہ جا تے کسی شخص سے ٹکر اتی ہیں اور کام کر جا تی ہیں یا پھر اپنا کوئی پرس وغیر ہ، ٹکراتے ہی زمین پر گر ادیتی ہیں اور وہ شخص از راہ ہمدردی وہ چیز اٹھانے لگتا ہے اور پو نجی سے محروم ہو جا تاہے۔ بعض لڑکیاں فحاشی کے لیے کسی کے ساتھ جا تی ہیں اور راستہ میں اپنا کام مکمل کر کے غائب ہو جا تی ہیں۔ یہ کام بچپن سے شروع کیا جاتاہے اور جب تک مر نہ جائیں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ بچپن سے جوانی تک یہ کا م خود کر تے ہیں اور بوڑھا ہو جانے پر شاگر د رکھ لیتے ہیں۔ اور خودا ستا د، ما سٹر اور گرو کہلاتے ہیں اور ٹریننگ دیتے ہیں۔
عمر
اس کا م میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ اکثر بچپن میں سکو لو ں سے بھاگے ہوئے بچے، وی سی آروغیرہ کے شائقین، اپنے سے بڑے گھرانے کے لوگو ں سے دوستی رکھنے والے بچے۔ جب ان کے دوست کھلا خر چ کر تے ہیں اور یہ غر بت کی وجہ سے خر چ نہیں کر سکتے تو ان کی دیکھا دیکھی روپیہ کی لا لچ میں گھر و ں سے بھا گ کر کسی استاد ماسٹر یا گرو کے ہتھے چڑھ جا تے ہیں اور وہ ان کو جیب ترا شی کا دھندہ سکھا دیتا ہے اور اس سے روزانہ کا بھتہ وصول کر تا ہے۔ اکثر لڑکیاں بھی جو بے راہ روی کا شکا ر ہو کر گھر سے بھا گ جاتی ہیں اور پھر گرو، ما سٹر یا استاد کے ہتھے چڑھ کر اپنی دنیا وی زندگی کے ساتھ عاقبت بھی خرا ب کر بیٹھتی ہیں۔ جیب ترا ش کرنے والے اکثر منشیا ت کے بھی عادی ہو تے ہیںاور منشیات حاصل کرنے کے لیے ان کو رقم کی ضرورت ہو تی ہے اور وہ یہ دھندہ کر تے ہیں۔
جائے واردات
جیب ترا ش اکثر بس اسٹینڈپر، سینما گھرو ں کے باہر، دربارو ں پر، میلو ں پر، ریلوے اسٹیشن پر یا بس وغیرہ میں وار دات کر تے ہیں۔ جہاں بھیڑ زیا دہ ہو تی ہے۔ واردات کرنیوالے اکثر یہ بھی کر تے ہیں کہ کسی کی جیب ترا شی کی اور پکڑے جانے پر اس نے دوسرے ہاتھ میںپہلے سے مو جو د کچھ رقم اور کا غذ شکار کو پکڑا دیئے اور خود اصل رقم کے ساتھ غائب ہو گیااور شکار کچھ رقم اور کا غذ گنتا اور دیکھتا رہ گیا۔ یہ لوگ شکا ر کے ساتھ بس وغیر ہ میں سوار ہو جاتے ہیں۔ پہلے کو شش ہو تی ہے کہ بس میں سوار ہو تے وقت کا م کر جائیں۔ اگر کا میا ب ہو گیا توٹھیک ورنہ بس میں سوار ہوکر اس کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں یا کھڑے رہ ہو جاتے ہیں اور وقت ملنے پر کام دکھا جاتے ہیں۔ اس طرح سینما ہا ل یا درباروں پر ہوتا ہے۔ دربار پر دعا مانگتے وقت یہ کا م دکھا جا تے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ خریدتے وقت یا ٹرین میں سوار ہوتے وقت یہ کام کر جاتے ہیں۔ کسی بھی جگہ کوئی موقع ملے تو مو قع ہاتھ سے جا نے نہیں دیتے۔
سزا
جیب ترا ش بہت کم موقع پر پکڑے جا تے ہیں اگر موقع پر پکڑے بھی جا ئیں تو چونکہ مدعی کی رقم وغیر ہ مل جاتی ہے۔ اس لیے وہ پو لیس اور عدالتوں کے چکرو ں سے بچنے کے لیے کا روائی نہیں کرتے ۔اگر کوئی کا روائی کر تا بھی ہے تو چونکہ رقم کی ملکیت کا اس کے پا س ثبو ت نہیں ہو تا اس لیے عدالت ملزم کو بری کر دیتی ہے۔ اس لیے جیب ترا ش سزاسے بچ جا تا ہے۔ ماسوائے اس صور ت کے کہ ملزم خود عدالت میں اقبال جرم کرے۔ علا وہ ازیں گواہا ن بھی عدالت میں متضا د بیانی کرتے ہیں جس کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے اور وہ سزا سے بچ جا تاہے۔
احتیا ط
کبھی بھی سفر میں، دربار پر جا تے وقت یا پبلک پلیس وغیر ہ میں تمام رقم ایک جگہ اکھٹی نہ رکھی جائے۔ بلکہ کم از کم تین مختلف محفوظ جگہو ں میں رکھنی چاہئے تاکہ ایک جگہ سے کٹ جانے کی صور ت میں باقی رقم سے استفا دہ کر سکے۔ اس کے لیے شلوا رکا نیفہ، سلو کے کی اندرونی جیب یا بنیان میں جیب لگوا کر اس میں رقم رکھی جائے۔ اگر چادر پہنی ہو توچادر کی ڈب میں لپیٹ کر اوپر سے کسی دھاگے سے باندھی جائے یا تھیلی جس میں رقم ڈال کر کمر سے با ندھی جائے۔ اور رقم والا حصہ سامنے کی طرف ہو ۔
معا ونت
جیب ترا ش ہر جگہ پائے جا تے ہیں۔ یہ گنتی کے چند لو گ ہو تے ہیں۔ ان کو یا تو پو لیس مقامی کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ یا کسی با اثر شخص کی، جو پکڑے جانے پر انکو پولیس سے چھڑا سکے یا مدعی کے ساتھ ملکر معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں۔ اور خواہ پولیس ہو یا مقامی با حیثیت شخصیت، جیب تراش سے روزانہ بھتہ وصول کر تے ہیں۔
آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ان جیب ترا شو ں سے ہر انسان کو بچائے رکھے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 230
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں