Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست

ماہنامہ عبقری - مارچ 2013

موتی مسجد میں موجود جگہ کی انوکھی کہانی
جہاں بڑے بڑے اولیائے کرام نے سجدے دئیے اور ولایت کے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔ یعنی موتی مسجد کی اس جگہ نے اپنی ایک انوکھی کہانی سنائی۔ وہ جگہ کہنے لگی کہ ایک ڈاکومغل حکمران اکبر بادشاہ کے دور میں قید کیا گیا‘ بہت عرصہ وہ قید رہا اسے طوق و زنجیر پہنائے گئے‘ بہت عرصہ قید رہنے کے بعد آخر اس کو بڑے قیدیوں کا نگران بنا دیا گیا‘ ڈاکو کبھی کبھی رات کی تنہائیوں میں موتی مسجد میں آکر عبادت کرتا تھا‘ اسے کچھ نہیں آتا تھا بس وہ سجدے میں پڑ کر ’’اللہ‘ اللہ‘‘ کرتا تھا کیونکہ اس دور میں موتی مسجد میں عام بندہ داخل نہیں ہوسکتا تھا یہ صرف بادشاہوں اور شہنشاہوں کیلئے تھی‘ ہاں! جمعہ کے دن بادشاہ رعایاکے ساتھ اس میں جمعہ پڑھتا تھا ۔ رعایا سے مراد جو بادشاہ کے خاص بڑے بڑے مصاحب تھے ۔
درویش کا سینہ پر ہاتھ لگانا تھا کہ…
وہ زمین کہنے لگی کہ اس ڈاکو نے( جس کو قید تھی) جب یہاں سجدہ کیا اور بس اللہ اللہ کہتا رہا اللہ اللہ کہتے کہتے زمین کی برکت ایسی تھی کہ جہاں اس کی پیشانی لگی اوراس پر اس کے آنسو گرے‘ اور وہ اللہ اللہ کہتا رہا اس کی برکت سے اس کی قید چند دنوں میں ہی ختم ہوگئی‘ پھر جب وہ قید سے اورشاہی قلعے سے باہر نکلا تو دیکھاکہ ایک درویش اپنے گدھے پر جارہے تھے ۔اس ڈاکو نے آواز دی اور کہا کہ میری جیب خالی ہے میں ہوں تو برااور آپ اچھے ہیںکیا آپ اپنی جیب سے کچھ میری جیب میںڈال دیں گے؟ تو وہ بزرگ کہنے لگے ہاں کیوں نہیں۔۔۔ انہوں نے چند سکے میری جیب میں ڈال دئیے… وہ سکے لے کرمیں آگے گیا تو بزرگوں نے فرمایا کہ ادھر آؤ میری بات سنو! جب میں ان کے قریب گیا تو انہوں نے اپنے گریبان کو کھولا اور اپنے دل کے اوپر ہاتھ لگایا…ایسا لگا کہ جیسے گریبان کھلتے ہی ان کا سینہ چاک ہوگیا اوران کا دل جیب کی شکل بن گیا… انہوں نے دل میں ہاتھ ڈالا اور میرے دل کے اندر کوئی چیز ڈال دی۔ اپنے سینے سے ہاتھ نکال کر میرے سینے میں ڈال دی مجھے محسوس ہوا کہ میرے سینے میں کوئی چیز گئی ہے۔ دل میں ہلکی سی چبھن ہوئی اور فرمانے لگے جا …ان سجدوں کی برکت سے جو تم نے کیے تھے اللہ نے تیرے دل کو نورانی بنا دیا اب تیرا دل تو دھل چکا ‘لے اس میں جو نور اللہ کی معرفت سے ہمیں ملا تھا لے وہ نور ہم نے تجھے دے دیا۔ میں ان کی بات سن کر وہیں ٹھہر گیا‘ میرے قدم ہل نہ سکے‘ وہ بزرگ اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور چل دئیے۔میں انہیں دیکھتا رہا اوروہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
پل میں زمین و آسمان بدل گئے
کہنے لگے میں واپس پلٹا اور میں نے دربانوں سے کہا مجھے واپس جیل جانا ہے وہ حیران… کہ اتنے سالہا سال کی قید کے بعد تجھے خلاصی ملی‘ لوگ جیلوں سے خلاصی چاہتے ہیں تم واپس آنا چاہتے ہو؟کہا کہ اصل میں مجھے جیل مقصود نہیں‘ اصل مجھے موتی مسجد مطلوب ہے‘ جہاں سے مجھے یہ محبت ملی‘ کہا پل پل میرا دل اللہ اللہ کہہ رہا ہے‘ زمین کے پردے ہٹ گئے‘ جنات انسانوں کی طرح نظر آنے لگے‘ فرشتوں کا نور نظر آنے لگا‘ رحمت اوپر سے اترتی نظر آنے لگی‘ عذاب اترتا نظر آنے لگا‘ ہر چیز بول بول کر مجھے اپنا نام بتاتی تھی‘ اپنا کام بتاتی تھی اپنا ذکر بتاتی تھی۔ ہر جانور کی بولی مجھے سمجھ آنے لگی اور زمین کے نقشے‘ آسمان کے نقشے بدل گئے‘میرا دل خود اللہ کی طرف مائل ہوا‘ آنکھیں ہروقت تررہنے لگیں‘ جسم ہر وقت عبادت کی طرف متوجہ ہونے لگا اور میرے انگ انگ اورروئے روئے سے اللہ کی محبت نکلنے لگی‘ میں جس جگہ عبادت کرتا تھا اس جگہ کی آواز اور اس کی سمجھ مجھے آنے لگی‘ پھر تو یہ عالم ہوگیا کہ وہ دل میں نور کیا پڑا اورموتی مسجد کے سجدے مجھے کیا ملے کہ بس پھر تو یہ تھا کہ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا تھا تو پھر نماز مجھے خودبخود آگئی‘ مجھے تلاوت خودبخود آگئی‘ میں نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا‘ عبادت بھی مل گئی‘ تلاوت بھی مل گئی‘ تسبیح بھی مل گئی‘ سجدے بھی مل گئے‘ میں حیران ہوا اور مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کا قرب مجھے مل گیا اور اللہ کا ذکرمجھے مل گیا اسی قرب اور تسبیح میں میرے دن رات گزرنے لگے‘ مجھے دربانوں نے اندرنہ جانے دیا‘بس میںباہر بیٹھا روتا رہتا تھا‘ گری پڑی کوئی روٹی مجھے مل جاتی تھی۔ یہ بات آخر بادشاہ تک پہنچی کہ فلاں جو ڈاکو تھا اس کا حال یہ ہوگیا ہےاور وہ کہتا ہے کہ بس مجھے موتی مسجد کی دربانی دے دو‘ بادشاہ کو عجیب احساس ہوا ‘شاید قبولیت کی گھڑی تھی‘ بادشاہ نے مجھے بلوایا اور بلوا کر پوچھا تو کیا چاہتا ہے… ؟تو میں نے انہیں سارے حالات بتا دئیے کہ میں کس طرح موتی مسجد میں گیا اور موتی مسجد کی وہ مخصوص جگہ جس کی صرف اولیاء کوخبر ہے اس جگہ پر قدرتی میرا سجدہ ہوگیا ۔میں رات کو چھپ چھپا کر جاتا تھا‘ قیدیوں کا میں نگران بن گیا تھا۔ بس اس سجدے کی برکت سے خلاصی ہوگئی آپ کو ترس آگیا اور آپ نے مجھے آزاد کردیا۔ میںباہر نکلا تو کسی درویش نے مجھے سکے دئیے اور جاتے جاتے واپس آئے اور اپنے دل کی جیب سے نور نکال کرمیرے دل میں ڈال دیا بس اس دن سے میری زندگی بدل گئی‘ میری دنیا بدل گئی‘ میری نظریں بدل گئیں‘ میری سوچیں بدل گئیں‘ میرے جذبے بدل گئے‘ میرا اٹھنا بیٹھنا سونا اور جاگنا بدل گیا‘ میرے دن اور ات بدل گئے۔
بادشاہ کوخزانہ کیسے ملا؟
بادشاہ نے کہا’’ کیسے مانیں کہ تیرے دن اور رات بدل گئے‘‘ تو میں نے فوراً کہا ’’بادشاہ سلامت! آپ جس جگہ بیٹھے ہیں آپ کے قدموں کے چار ہاتھ بائیں طرف ایک بہت بڑا خزانہ دفن ہے اور وہ خزانہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اگر خزانہ نہ ملا تو آپ تلوار سے میرا سر قلم کردیں آپ کو اختیار ہے۔‘‘
بادشاہ نے فوراً خدام بلوائے اور خدام بلا کر اس جگہ کو کھودا اس جگہ بہت بڑے قیمتی پتھر لگے ہوئے تھے‘ بادشاہ کا محل تھا اور بادشاہ کا خاص کمرہ تھا اس کو کھودنا بہت مشکل تھا آخر کاریگر لوگ بلوائے گئے‘انہوں نے وہ ٹائلیں ہٹائیں‘ ٹائلیں ہٹاکر وہاں کھودنا شروع کیا بس تھوڑا ہی کھودا تھا تو وہاں ان کی کدال کسی سخت چیز سے ٹکرائی تو وہ کہنے لگے کہ آگے کوئی سخت دھات کی چیز ہے۔ بادشاہ کی آنکھوں میں چمک آئی اور بادشاہ کہنے لگا اس کو مزید کھودو…دیکھا تو ایک تانبے کا بہت مضبوط برتن تھا جس کا منہ تانبے کے ڈھکن سے بند تھا اور انہوں نے جب اس کومزید کھولا تو اس کے اندر ہیرے‘ جواہرات تھے…سونا اور چاندی تھی… اس کی چمک اتنی تھی کہ بادشاہ کا کمرہ روشن ہوگیا‘ بادشاہ نے کہا کہ بس اسے ڈھانپ دو مت کھولو ۔وہ تمام کاریگر چلے گئے‘ آناً فاناً یہ کام ہوئے اور آناً فاناً میں اتنا بڑا خزانہ بادشاہ کو مل گیا۔ موتی مسجد کی برکت سے…
میں دو شرائط نہیں مانتا
بادشاہ تو حیران رہ گیا کہ اتنا بڑا خزانہ مجھے مل گیا‘ اس نے اس سابقہ ڈاکو اورموجودہ ولی کو سامنے بٹھایا‘ سامنے بٹھا کر اس کا اعزازو اکرام کیااور کہا ٹھیک ہے… آج سے تجھے شاہی دستر خوان سے کھانا ملے گا‘ دوشاہی خادم مستقل تیری خدمت کریں گے اور تو موتی مسجد کی خدمت کیا کر۔
اس بندہ خدا نے بادشاہ کی خدمت میں جھک کر عرض کیا‘ بادشاہ سلامت !میں یہ دو شرائط نہیں مانتا… مجھے عام خدام کے دفتر سے کھانا ملے اور مجھے کوئی خادم نہ ملے‘ بس کہیں کسی کونے میں رہنے کی جگہ مل جائے …مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘ بادشاہ نے اس کی یہ خواہش مجبوراً قبول کرلی اور وہ ساری زندگی موتی مسجد کی خدمت کرتا رہا‘ اس نے اس سجدہ گاہ کو نہیں چھوڑا جو کہ سجدہ گاہ موتی مسجد میں مخصوص سجدہ گاہ ہے۔
اس جگہ میں بھی سجدہ دیتا ہوں تو۔۔۔۔
قارئین! میں خود وہاں کئی دفعہ گیااور اس جگہ سجدے دئیے جب بھی میں وہاں سجدہ دیتا ہوں مجھے انوکھا سرور محسوس ہوتا ہےبلکہ میں پچھلے ہفتے وہاں گیا تو وہاں جاکر میں نے دو نفل پڑھے دو نفل کے سجدے میں جب میں گیا تو زمین کی تہیں ہٹ گئیں تو زمین کے نیچے مجھے کائنات کا ایک انوکھا نظام نظر آنے لگا جو شاید میں لفظوں میں اگر بیان کروں تو مخلوق خدا میری باتوں کو مبالغہ سمجھے… افسانہ یا داستان سمجھے… لیکن میں کروں توکیا کروں… جو آنکھیں میری کھلی ہوئی ہیں اگر آپ کی کھل جائیں تو آپ اس واقعہ کو سچ مانیں۔ افسوس! میری باتیں کسی کو سمجھ کیسے آسکتی ہیں…؟ میں اس دربان کی یہ بات سن رہا تھا تو سنتے سنتے مجھے احساس ہوا میں اس سے باتیں کرتا چلاجاؤں۔ میں اس سے باتیں سنتا رہا‘ سنتا رہا…
جگہ خاص پر سجدے کا کمال
میں اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور حیران ہورہا تھا ۔ مجھے احساس ہوا کہ واقعی موتی مسجد کا انکشاف کرکے میں نے مخلوق خدا کے ساتھ سوفیصد بھلا کیا جہاں انسانوں کو بہت فائدہ ہورہا وہاں جنات کی دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ مجھے شاہی قلعے کے کئی جنات نے یہ مبارک باد پیش کی کہ ان کے خود کےمسائل حل ہوئے‘ ان کی مشکلات دور ہوئیں‘ ان کی زندگیوں میں ایسی انوکھی روشنی آئی ۔وہ جنات کہنے لگے آپ ہمیںسجدے کی وہ جگہ دکھائیں‘ جس جگہ کے سجدے پر وہ کمال ملتا ہے‘ میں نے ان سے کہا جگہ تو میں دکھادوں گا پہلے جگہ کا اپنے آپ کو اہل توبناؤ… کہنے لگے اگر آپ ہمیں جگہ دکھادیں گے تو شاید اس جگہ کی برکت سے ہم اہل ہوجائیں پھر اس کی مثال دی کہ جس طرح انہوں نے اس ڈاکو کا واقعہ سنایا کیا وہ اہل تھا…؟؟؟
روحانیت کا سمندر موتی مسجد سے ملا
میں مسکرا دیا میں نے کہا واقعی وہ اہل نہیں تھا ‘ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ نااہل انسان کو اہل بناتی ہیں‘ وہاں اللہ کی خصوصی رحمت متوجہ ہوتی ہے وہ رحمت ہی انسان کو اہل بناتی ہے۔ خیر میں موتی مسجد پہنچا میں نے کہا اگر خود اچانک آہی گیا ہوںتو میں بھی وہیں جاکر نفل پڑھ لوں‘ ویسے بھی وہ رات کا وقت تھا اس وقت ہماری باتیں ہوتے ہوتے تقریباً رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ میں نے وہاںتہجد کی نیت کرکےنفل پڑھے۔ بہت سرور ملا بہت سکون ملا‘ انوکھی محبت‘ انوکھا پیار ملا‘انوکھا روحانیت کا ایک سمندر ملا‘ میں بڑی دیر تک سجدے میں پڑا رہا‘ آنسو ؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ جنات میرا انتظار کررہے تھے اُدھر تقریب میں مسلسل مہمان آرہے تھے۔ ہماری تقریب رات ایک بجے کے بعد شروع ہونی تھی‘ میں نفل پڑھتا رہا پھر دعا کی‘ ان کو وہ جگہ بتائی۔
ڈاکو کی موت کیسے آئی؟؟؟
اس کے بعد میں واپس آیا تو اس ڈاکو کو جو کہ اکبر بادشاہ کے دور کا ڈاکو تھا بعد میں اللہ کا ولی تھا ‘کے بارے میں سوچتا رہا‘ میں نے اس جن سے پوچھا اس ڈاکو کے نام کا کچھ پتہ ہے؟ جن کہنے لگا:پہلے نام کی تو کوئی خبر نہیں بعد کا نام خود بادشاہ اکبر نے اپنے نام کی نسبت کے ساتھ اصغر رکھ دیا تھااور اس کو اصغر خادم بولتے تھے۔ وہ چونکہ مسجد کی خدمت کرتارہتا تھا اس کو اصغر خادم کہتے تھے۔ ایک دفعہ اصغر خادم کی موت کا وقت قریب آیا تو کہنے لگا مجھے موتی مسجد میں لے چلو میں مسجد میں مرنا چاہتا ہوں پھر اس جگہ لے آئے وہ بہت عرصے سے بیمار تھا لیکن مسجد میں خدمت کیلئے اس کو خادم پکڑ کر لے آتے تھے وہ آتا تھااور اپنے کانپتے ہاتھوں سے جھاڑو دیتا اور کانپتے ہاتھوں سےدعا مانگتا تھا۔خدام اس کو اٹھا کراس سجدے والی جگہ پر لے گئے اور سجدے کی جگہ پر اس کا سر رکھ دیااور وہ بلک بلک کر رونےلگا۔’’ اے اللہ! میرے دن سیاہ تھے‘ میرے صبح و شام سیاہ تھے لیکن اپنے گھر کی برکت سے اے اللہ تو نے میرے دل کو دھو دیا اور تیرے گھر کی برکت سے مجھے درویش مل گیا جنہوں نے تیری محبت کا نور جو انہوں نے زندگی کے مجاہدوں اور مشقتوں سے حاصل کیا تھا مجھے دے دیا‘ اے اللہ میں تیرے پاس آرہا ہوں تو میرے ساتھ وہ معاملہ فرماجو ماں اپنے بچے کے ساتھ کرتی ہے اور مجھے تیری رحمت کی امید ہے…‘‘ یہ کہتےہوئے وہ رو رہا تھا اور سر بار بار پٹخ رہا تھا ۔اس کے آنسو ؤںاور سسکیوں سے مسجد دہل رہی تھی اور آنسوؤں سے زمین تر ہورہی تھی آخر کار اس نے تین دفعہ اللہ کہا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔
اکبر بادشاہ بلک بلک کر رو پڑا
بادشاہ تک جب یہ اطلاع پہنچی کہ اصغر خادم فوت ہوگیا ہے تو بادشاہ اس طرف آیا جس جگہ اس کی میت پڑی ہوئی تھی۔اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کردئیے گئے تھے اور انگوٹھے باندھ دئیے گئے تھے‘ بادشاہ نے اس کی میت کو دیکھا… اکبر بادشاہ بہت حوصلے والا اور بہت طاقتور مزاج رکھتا تھا لیکن اس کو دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگا۔ کہنے لگا یہ کیسا شخص تھا جس شخص کی وجہ سے مجھے ایک نہیں کئی خزانے ملے اور خود مجھے احساس ہوا کہ میں ہندووانہ ذہن رکھتا تھا اور مشرکانہ رسمیں کرتا تھا ۔اس شخص(اصغر خادم) کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ روحانیت ملی اور قرب ملا مجھے احساس ہوا کہ شاید اللہ مجھے (اکبر) کو معاف کردے‘ اللہ ہمایوں کو معاف کردے‘ پھر اپنا شجرہ بیان کرکے اکبر مسلسل روتا رہا اس کے بعد وزراء آئے انہوں نے بادشاہ کو سنبھالا اورلے گئے… بادشاہ نے اس کا جنازہ خود پڑھا ۔ بادشاہ اس کو اکثر یاد کرتا رہتا تھا۔ اس کی روحانیت بہت عرصہ مسجد میں رہی۔ پھر جن مجھے مزید بتانے لگے کہ اس کے بعد ایک بوڑھے جن نے اس مسجد کی خدمت سنبھال لی اب چالیس جنات مسلسل مسجد کی خدمت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔کبھی بھی موتی مسجد کی خدمت کم نہیں ہوئی انسان آئیںیا نہ آئیں لیکن موتی مسجد کی خدمت ہمیشہ ہوتی رہے گی اور موتی مسجد کی خدمت ہمیشہ بہت زیادہ برکتوں کے ساتھ چلتی رہے گی۔
اللہ پاک نے بہت برکتیں عطا فرمائیں اورجنات کی بہت سی مشکلات حل ہوئیں۔ 

ہم ان باتوں کو کرہی رہے تھے کہ اچانک پیغام آیا کہ تقلید سج گئی ہے اور آپکا انتظار ہورہا ہے جب میں تقریب میں پہنچا تو ہرطرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور پہلے تو ان کا پروگرام اس تقریب کو موتی مسجد میں کرنے کا تھا جب ہجوم زیادہ ہوگیا (جاری ہے)
تو موتی مسجد میں خاص حضرات نے نفل پڑھے پھر میدان میں آگئے وہاں بہت زیادہ ہجوم تھا جنات کا ہرطرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں ہر طرف جنات کی چہل پہل تھی۔ ایک جو چیز میں نے خاص طور پر محسوس کی اور آپ انسانوں کو بتانا چاہتا ہوں جنات عورتوں کبھی بے پردہ نہیں ہوتیں‘ حتیٰ کہ حیران کن بات ہے کہ کافر جنات بھی کبھی بے پردہ نہیں ہوتے۔ کافر جنات عورتیں کبھی بے پردہ نہیں ہوتیں

 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 576 reviews.