میرے محترم دوستو!ہماری طبیعتوں میں اور مزاجوں میں ایک حقیقت سرایت کر چکی ہے کہ مال و دولت اگر زیادہ ہو گا تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔اگر دولت زیادہ ہوگی،عہدہ بڑا ہوگا توزندگی میں کامیابی آجائے گی اوراگر گاڑی بڑی ہوگی تو دنیا میں رفعتیں، بلندیاں اور عزتیں بڑھ جائیں گی۔ یہ ہمارے پاس ایک پیغام ہے ،افسوس مال و دولت کی پیغام رسانی اس کے تذکرے اور منتقلی تو جاری وساری ہے مگر اعمال کے تذکروں کی منتقلی سے گریزاں بھی ہیں اور بے خبر بھی ہیں۔ لہٰذامال کا ماحول ہے اعمال کا ماحول نہیںہے اور اس ماحول میں ہم من حیث القو م مبتلا ہیں۔
مومن اور کافر کی طرزِ زندگی:اصل میں ہم مردہ مچھلی کی مانند پانی میں بہتے جا رہے ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح بہتی ندی میں مردہ مچھلی اس رُخ پر بہتی ہے جس رُخ پر ندی کا پانی بہتا ہے اور جو زندہ مچھلی ہوتی ہے وہ بہتی ندی میں کبھی اُس رُخ پر نہیں تیرتی۔اس کے اپنے راستے ہوتے ہیں۔مچھلی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ یخ بستہ ٹھنڈے پانی کے اندربھی چشموں اور پہاڑوں سے گرتے پانی میں تیرتی ہے۔ جس کا بڑے سے بڑا طاقتور انسان بھی مقابلہ نہیں کرسکتا وہ اپنے رُخ بدلتی رہتی ہے۔ مومن کی زندگی اور کافر کی زندگی کا فرق یہی ہے کہ مومن کی زندگی وہ زندگی ہوتی ہے جو کہ زندہ مچھلی کی طرح ہے اور کافر کی زندگی بہتے پانی میں ایک مردہ مچھلی کی طرح ہے جس طرف کا پانی بہا اُس طرف یہ بہہ گیا۔ جس طرف زندگی کا سارا نظام چلا سارا جہاں بھی اسی طرف چل پڑا ۔ ہم بھی اُدھر چل پڑے۔ ایمان والے کی زندگی میںاور جس کے اندر ایمان نہیں ہے اُسکی زندگی کا فرق یہی ہے۔
گوشہء عافیت و راہِ نجات:بچے کو جب چوٹ لگتی ہے،تکلیف ہوتی ہے، درد اُٹھتا ہے تو وہ سب سے پہلے ماںکو پکارتا ہے، بچے نے ماں کی محبت سیکھی ہے تو ماں کو پکارا، ہم نے اللہ جل شانہٗ کی محبت نہیںسیکھی،اس لیے ہم نے اللہ کو نہیںپکارا۔ اعمال کی طرف رجوع کرنا، نماز کی طرف رجوع کرنا، نفل کی طرف رجوع کرنا، ذکر کی طرف رجوع کرنا، تسبیح کی طرف رجوع کرنا، قرآن کی آیات کی طرف رجوع کرنا، آقا سرورِ کونینﷺ کے اعمال کی طرف رجوع کرنا اصل میں یہی اللہ کی طرف رجوع ہے۔ بچے کو تکلیف پہنچے اور وہ چیخے اور ’’اماں‘اماں‘‘ پکارے اور دوڑتا ہوا اماں کی طرف جائے ، ماں سے جاکر لپٹ جائے ۔ بچے نے اپنی راہِ نجات ماں کو سمجھا‘ اس نے گوشہء عافیت ماں کو سمجھا‘ اس نے سمجھا کہ زندگی کا نظام ماں کے ذریعہ بن سکتا ہے اسکے علاوہ بن نہیں سکتا۔
انسان اور ابتدائی پیغام:پہلے دن سے ہم سے بڑی سخت غلطی ہوگئی اور وہ غلطی یہی ہوئی کہ پہلے دن سے ہمیں ایک پیغام ملا اور وہ پیغام یہ ملا کہ مال، دنیا ، دولت، عہدہ یہ چیزیں جتنی بڑھتی چلی جائیں گی ہم اتنے کامیابی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ مسلمان بھی صبح اٹھتے ہی یہ پروگرام سوچتا ہے، کافر بھی صبح اٹھتے ہی یہی پروگرام سوچتاہے ۔تو پھر مسلمان میں اورکافر میں فرق کیا ہوا۔۔۔؟
رجوع الی اللہ:پیاس مجھے بھی لگی آپکو بھی لگی اور پیاس اُس کو بھی لگی جو اللہ کو نہیںماننے والاہے۔ ہماری نظر فوراً پانی کی طرف گئی کافر کی نظر بھی فوراً پانی کی طرف گئی۔ہماری پیاس بجھنے کا ذریعہ بوتل میں ہے،گھڑے میں ہے، چشمے میں ہے،دریا میں ہے،نلکے میں ہے، کنویں میں ہے، سمندر میں ہے، ہماری نظر بھی پانی کی طرف گئی اور کافر کی نظر بھی پانی کی طرف گئی۔تو مسلمان اور کافر میںکیا فرق ہوا۔۔۔؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہٗ کی زندگی میں ایک عجیب چیز تھی۔ اُن کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹتا تھا تو اُنکی نظر فوراً اللہ رب العزت کی ذاتِ عالی پر جاتی تھی۔ حضرتِ عباس رضی اللہ عنہٗ سفر میں تھے کہ اپنےگھر کے قریب ایک فرد کی وفات کا پتہ چلا۔اپنے گھوڑے کو کھڑا کیا ، اُترے وضو کیا اور نفل پڑھے اور نفل پڑھنے کے بعد فرمایا: میں نے وہ کیا جو اللہ اور اُس کے حبیب ﷺ نے مجھے فرمایااور میں نے حضور ﷺ سے سنا کہ جب بھی تمہیں مصیبت اورتکلیف آئے توتم فوراً اللہ کی ذاتِ عالی کی طرف رجوع کیاکرو۔ہماری تکلیفیں،ہماری مصیبتیں،ہمارے مسائل ہماری پریشانیاںاور ہمارے دُکھ اللہ کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتے۔جتنی ٹکریں مارنی ہیں مار لیں، جتنی پریشانیاں جھیلنی ہیں جھیل لیں، جتنی تکلیفیں برداشت کرنی ہیں کرلیںاورجتنے مسائل ہم نے اپنی عقل سے سلجھانے ہیں سلجھالیں مگرراستہ صرف ایک ہے۔ اللہ والو!میری بات پر غور کرو۔۔۔راستہ صرف ایک ہے اور وہ راستہ اللہ والا راستہ ہےاس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسکے علاوہ کوئی منزل نہیں ہےجب تک ساری دُنیا کے اِنسان اعمال سے نہیں جُڑیں گے اور اللہ جل شانہٗ کی ذاتِ عالی کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور جب تک ہماری طبیعتوں میں یہ بات رچے بسے گی نہیںکہ فلاح و کامیابی مال سے نہیں بلکہ اعمال سے ہے تب تک ہم اللہ والا راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔اعمالِ نبویﷺ کے اندر دُنیا و آخرت کی خیریں، کامیابیاں، عزتیں، برکتیں، راحتیںاور سکون ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے ۔۔۔:ہمیں مال سے ملنے کا، مال سے پلنے کا، مال سے بچنے کا یقین نہ ہوبلکہ اعمال سے ملنے کا، اعمال سے پلنے کااور اعمال سے بچنے کا یقین ہو۔ میں اعمال اختیار کروں گا تو پلوں گا، بڑھوں گا اور اعمال اختیار کروں گا تو میں مصیبتوں سے ،پریشانیوں سے، دُکھوں سے، تکلیفوں سے، غموں سے بچوں گا۔ اعمال کی برکت سے اللہ مجھے پالے گا، اللہ میرے دُنیا و آخرت کے کام بنائے گا۔ مال سے پلنے کا یقین، مال سے بننے کا یقین میری کامیابی کا ضامن نہیں ہے۔ غموں سے، دُکھوں سے، تکلیفوں سے، مسائل سے مشکلات سے اگر بچوں گا تو اس کا راستہ صرف اعمال اختیار کرنے میں ہے۔ دُنیا کے نظام کی سوچ سے بالاتر ہو کر اعمال سے سُرخروئی میّسر ہو گی۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں