دکھ سُکھ کا ساتھی دوست
میرا ایک بہت ہی قریبی دوست ہے۔ ایک ماہ قبل اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ دور دورسے لوگ آئے مگرمیں نہیں گیا۔ میری مجبوری ہے کہ کسی کے مرنے پر نہیں جاتا۔ ایک ہفتے تک تو میں سوچتا ہوں پھر جب حالات معمول پر آجاتے ہیں تو چلا جاتا ہوں۔ ایسا ہی میں نے دوست کے ساتھ کیا وہ ناراض ہوگیا۔ اب صرف سلام دعا تک بات رہ گئی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اس کو اپنا رویہ نہیں بدلنا چاہیے تھا۔ میرے بھائی کہتے ہیں کہ تم پروا نہ کرو اور بہت سے دوست مل جائیں گے مگر بعض باتوں کی پروا ہوتی ہے‘ خیال آتا ہے بار بار توجہ اُدھر ہی جاتی ہے۔
(زوہیب‘ راولپنڈی)
مشورہ: دُکھ اور سُکھ میں ساتھ نبھانے والے ہی دوست ہوتے ہیں۔ والدہ کا غم بہت بڑا غم ہے اور اس میں کوئی قریبی دوست شریک نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دوست ہی نہ ہوا۔ آپ کے ساتھ جو رویہ آپ کے دوست نے اپنایا ہے وہ حیران کن نہیں۔ اسے ایسا ہی کرنا تھا۔ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا اسی طرح کرتا۔ دراصل کچھ لوگوں کو موت کا خوف ہوتا ہے وہ جنازوں میں شرکت کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ رویہ بہت غیرحقیقت پسند اور دوسروںکا احساس نہ کرنے والا ہے۔ اگر آپ کو موت کی حقیقت کااعتبار ہے اور کبھی اس غم کو محسوس کیا ہے تو کوئی دوست ہو یا نہ ہو آپ کو غم میں شریک ہونا چاہیے‘ اس طرح آپ دوسرے کے غم کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ جو لوگ غموں میں شریک ہوتے ہیں‘ انسان ان کو کبھی نہیں بھولتا‘ وہ اجنبی بھی ہوتے ہیں تو اپنے نیک اور ہمدردانہ سلوک سے اچھے دوست بن جاتے ہیں اور اگر اچھا دوست غم میں شریک نہ ہو تو اسے غیر بنتے دیر نہیں لگتی۔
مجھے رونا بہت آتا ہے
مجھے رونا بہت آتا ہے کبھی کسی بات پر اور کبھی بغیر بات کے روتی ہوں۔ پہلے تو سب لوگ بہت خیال کرتے تھے مگر اب میری ساس تو ناراض ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ اس طرح میرا دل اور دکھے گا۔ آج کل میرے شوہر اپنی بہنوں کی شادی کیلئے رقم جمع کرنے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند سال کی بات ہے‘ اکیلے رہ کراتناکمالوں گا کہ بہت دھوم دھام سے شادی ہوجائے گی۔ صرف دو بہنیں ہیں۔ ان کا فرض پورا ہوجائے تو سکون ہوگا۔ انہیں احساس نہیں کہ ان کی بیٹی بھی بڑی ہورہی ہے وہ مجھے والدہ کے گھر بھی نہیں رہنے دیتے کہ ان کے گھر والے اکیلے رہ جائیں گے حالانکہ میری ساس اور نندیں جہاں چاہیں جتنے دن کے لیے جاکر رہ سکتی ہیں۔ (فہمیدہ‘ پشاور)
مشورہ: رونا مایوسی کی علامت ہے اور بہت زیادہ رونا تو مریضانہ افسردگی ہے۔ یقیناً آپ شدید کرب سے گزر رہی ہیں۔ شوہر اپنی بہنوں کی شادی کے لیے گھر سے دور رہ کر قربانی دے رہے ہیں اور آپ بھی تنہا مسائل کا سامنا کرکے پریشان ہیں۔ خط سے یا فون پر بات کریں کہ شوہر گھر سے دوری کا ارادہ کچھ مختصر کردیں۔ شادیوں میں میانہ روی اختیار کریں‘ بہت زیادہ دھوم دھام کی ضرورت نہیں ہے جب تک شوہر واپس نہیں آتے‘ آپ صبرو تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرتی رہیں‘ اس دوران اُن سے اجازت لے لیں کہ وہ آپ کو بچوں کے ساتھ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہاں جانے کی اجازت دے دیں۔ ورنہ کبھی کہیں پارک میں گھومنے نکل جائیں۔ کھلی فضا میں چہل قدمی کرنے سے بھی انسان کے ذہن پر خوشگوار اثر ہوتا ہے اور مایوسی کم ہوتی ہے۔ بچوں سے باتیں کریں ان کے ساتھ وقت گزاریں اس طرح بھی توجہ تقسیم کی جاسکتی ہے۔
کاش! میری کوئی اولاد نہ ہوتی
جب میرے بیٹے کی عمر پانچ سال تھی تو اُس کی سکول کی پرنسپل نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہم آپ کے بچے کو سکول میں مزید نہیں رکھ سکتے۔ اب اس کیلئے کچھ اور انتظام کرلیجئے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ میں نے اس کو گھر پر پڑھانا شروع کردیا وہ پڑھنے میں ٹھیک تھا۔ مگر جب وہ اپنی عمرکے یاکچھ چھوٹے بڑے بچوں میں بیٹھتا تو الٹی سیدھی حرکتیں کرکے انہیں پریشان کرتا۔ گھر پر بھی میں اسے دروازہ بند کرکے رکھتی ورنہ وہ باہر نکل کر بچوں میں مار پیٹ کرتا۔ کبھی کھڑکی میں کھڑا رہ کر آنے جانے والوں پر چیزیں پھینکتا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ لوگوںکیلئے کس قدر بڑا خطرہ ثابت ہورہا ہے اور ایسا عمر بڑھنے کے ساتھ زیادہ ہوتا گیا۔ کبھی کبھار اسے ایک دورہ بھی پڑجاتا اور وہ بے ہوش ہوجاتا۔ ہلکے جھٹکے بھی آتے رہتے۔ چند سیکنڈ یہ کیفیت رہنے کے بعد ٹھیک ہوجاتی۔ گھر پر ہی پڑھ کر اس نے میٹرک کرلیا۔ چند ماہ اس کا علاج دماغ کے ڈاکٹر سے بھی کروایا لیکن خاطر خواہ فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے علاج بند کردیا۔ وہ میرے لیے ایک اتنی بڑی مشکل ہے کہ بیان نہیں کرسکتی۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ کیسی ماں ہو؟ بچے کی باتیںبرداشت نہیں کرسکتی۔ میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرتا ہے میں نہ تو سوسکتی ہوں؟ نہ جاگتی رہ سکتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ کتنا اچھا ہوتا اگر یہ دنیا میں آیا ہی نہ ہوتا اور بھی کوئی اولاد نہیں۔ پوری زندگی اسی کی فکر کرکے گزار دی اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ اسے کچھ ایسا ہوجائے کہ یہ ایک ہی جگہ پر بیٹھا رہے۔ (فرح علی‘ اسلام آباد)
مشورہ: آپ یقیناً باہمت خاتون ہیں جو ذہنی مریض بیٹے کے ساتھ اتنے عرصے سے اس کی بہتری کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ آپ نے اسے تعلیم دلوا کر بھی بہت اچھا کیا لیکن آپ کے مسئلہ کا حل بیٹے کی فکر کرنے‘ پریشان رہنے اور منفی انداز سے سوچنے میں نہیں ہے۔ قدرت کی طرف سے جو کچھ جس طرح ملتا ہے اسے قبول کرلینا چاہیے اسی میں بہتری ہوتی ہے۔ بحیثیت انسان ذہن میں تکلیف دہ خیالات آسکتے ہیںمگر ایسے خیالوں کے سلسلے میں پڑجانا نہیں چاہیے۔ بیٹے کے حوالے سے علاج کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آپ اسے دماغ کے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ وہ ذہنی مریض معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ وہ ایک جگہ بیٹھا رہے‘ مناسب نہیں۔ اس طرح تو نارمل لوگ بھی نہیں بیٹھ سکتے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کے رویے میں بہتری آنی چاہیے صحیح علاج سے وہ اپنے اور دوسروں کیلئے خطرہ نہ رہے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں