ڈاکٹر ہا نی جد ہ کے مشہور سر جن اور نامور ڈاکٹر ہیں۔مصری تھے ،روزانہ میرے پا س تشریف لا تے ۔ خوبصور ت اور خوب سیرت تھے ۔ ہنستے ، مسکرا تے ہوئے آتے اور خو ب ہنساتے ۔ہمد ردی کی با تیں کر تے اچھے سے اچھا علاج تجو یز کرتے ۔میں بعض اوقات اپنے حادثے کو بھول کر اس ڈاکٹر کے خلوص اور محبت میں محو ہو جا تا حتیٰ کہ اب تو میں ڈاکٹر ہانی کے انتظارمیں رہتا کہ ڈاکٹر ہا نی آئے گا اور پھر وہی چند لمحوں کی پُر خلوص محبو ب محفل اور میرے غم کا غلط ہو نا ۔ گاڑی کے حادثے نے میری دونو ں ٹانگو ں کو بالکل چکنا چور کر دیا تھا۔ جدہ کے بڑے ہسپتال میں علا ج کی غرض سے لایا گیا ۔ بے ہو شی نے بظاہر میرا درد ختم کر دیا اور میں ایک انوکھی اور لا ہو تی دنیا میں کھو یا رہا لیکن جب آنکھ کھلی تو درد سے میری چیخیں نکل گئیں اور افسو س نا ک خبر سننے کو ملی کہ میری دونو ں ٹانگیں ٹوٹ گئیں ہیں اور بظا ہر لا علا ج ہو ں ۔ زندگی کی گزری یا دیں اور درد کی ٹیسیں، بس اب یہی میرا دن رات تھا۔ گھر والے پاکستان میں غم زدہ اورپریشان ۔ماں تو بچپن ہی میں ساتھ چھوڑ کر مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئی ۔ ما ں کا سرا پا، محبت بھری بانہیں ،میری توتلی با تو ں پر اس کا مسکرا مسکرا کر جواب دینا، میری ہر آہ پر پریشان ہو جا نا، خو د کو بے حال کرکے میرے ہر حال پر غم زدہ ہو جا نا، جب کبھی میرا کھلو نا ٹوٹ جا تا تو وہ اسے جو ڑ کر دیتی، گلی میں نکل جا تا تو پریشان ہو تی۔ بس آنکھ کا تا را ،دل کا را جہ اور گھر کاشہزادہ تھا۔ دن رات بہت چین اور سکھ کے گزر رہے تھے ۔ والد صاحب اچھے اور کا میا ب تا جر تھے۔ گھرمیں کسی چیز کی کمی نہ تھی بس اچانک کیا ہوا کہ میری والدہ مجھ سے روٹھ گئی۔ میں چھوٹا تھا گھر میں بہت سے لو گ جمع ہو گئے ۔ اسی دن میر ی ما ں مجھ سے بچھڑ گئی۔ پھر میری متلا شی نگا ہیں ماں کو تلا ش کر تی اور چہرے تو ملتے لیکن ماں نہ ملتی۔ میں کس کو اما ں کہتا، کو نو ں میں چھپ کر روتا ۔والد مجھے پیار دیتے ،میرا خیال رکھتے لیکن ماں کی کمی کیسے پو ری ہو تی؟ اما ں تو اما ں ہی تھی ۔ کچھ عر صے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کرلی۔ بس میرے چین ، سکھ اورامن کی صبح را ت میں بدل گئی ، بہا ر خزاں اور چھا ﺅ ں دھو پ میں بدل گئی ۔ چھوٹی چھوٹی با ت پر ما ر پڑتی اور بے عزتی ہو تی ۔والد صاحب کو ہر لمحہ میری شکا یت ہو تی اور سو تیلی والدہ کے عتا ب کے ساتھ والد صا حب کی سخت سزا مجھے اپنی ما ں یا د دلا تی۔ بس رونا اور گھر کے کام کرتے رہنا ا س کے علا وہ میر ا کچھ مشغلہ نہ تھا ۔ حالا ت نے مجھے پاکستا ن سے جدہ سے پہنچا دیا اور کوئی زیا دہ عرصہ نہیں ہو ا تھا اچا نک حادثے نے میری دونو ں ٹانگیں توڑ کر مجھے معذور کر دیا۔ چھوٹے چھوٹے بچو ں کا ساتھ، آخر میرا کیا ہو گا ؟ بس انہی سو چو ں میں گم کہ اچا نک ڈاکٹر ہا نی کی محبت بھری آواز سنائی دی میں چونک پڑا۔ پو چھا شبیر صاحب کیا سو چ رہے تھے؟ میں بات گو ل کر گیا لیکن ایک چیز محسو س کی آج ڈاکٹر ہانی کا رویہ بدلا ہوا اور چہرہ سنجید ہ تھا۔ ڈاکٹر ہا نی نے بتا یا کہ ڈاکٹرو ں کے بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی ایک ٹانگ بچ سکتی ہے ۔ لیکن دوسری ٹانگ کی ہڈیا ں اتنی چو ر ہو گئی ہیں کہ جو ڑ نا مشکل ہے ۔لہذا آپ یہ ٹانگ کا ٹنی پڑے گی ۔ بس یہ بات سننی تھی کہ میری آنکھو ں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور دنیا کی زندگی ایک سایہ معلوم ہو نے لگی ۔درد نے بر ا حال کیا ہو اتھا بغیر سو چے کہا میں تیار ہوں۔ ڈاکٹر ہانی نے میرے دستخط لے لیے کہ آپ کا جلد آپریشن ہو گا ۔چلتے ہوئے ڈاکٹر ہانی نے کہا خود اور دوسرو ں کو دعا کا کہیں ۔ چونکہ میرا دینی تعلق تھا ، علما ءکرام ، اللہ والے مسلسل میری عیادت کے لیے تشریف لا رہے تھے جب انہیں پتہ چلا تو بہت پریشان ہوئے ۔سب حضرات سے دعا کا عرض کیا ۔ اسی دوران حضرت مو لا نا سعید احمد خان رحمتہ اللہ علیہ عیا دت کے لیے تشریف لائے ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مسنون دعا فرمائی کہ بد ر کے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھی تھی فرمایا خود بھی اور تمام گھر والوںاور احباب کو پڑھنے کو بتا ﺅ ۔ پریشان کی دعا دل سے نکلتی ہے۔ دن رات یہی دعا پڑھی اور خوب یقین سے پڑھی اور دل کی گہرا ئیو ں سے پڑھی۔ اٹھا رہ یا انیس دن کے بعد ڈاکٹر ہا نی نے پٹی کھو لی تو منہ میں قلم دبا کر حیرا ن کھڑا دیکھ ر ہا تھا ۔ کہنے لگا کہ ہوا یہ کہ جب میں نے آپ سے دستخط کر ا لیے تو میرے دل میں ایک خیا ل آیا کہ ٹانگ تو ویسے ہی کا ٹنی ہے کیو ں نہ ایک نیا تجربہ کر لیا جا ئے کہ شبیر صاحب کے کو لھے کی ہڈی کو کچھ حصہ کا ٹ کر وہاں جو ڑ دیا جائے۔ ایک طویل آپریشن کے بعد ہم نے ایسا کیا کہ ہو گیا درست ورنہ ٹانگ کاٹ دیں گے ۔ لیکن اب میری حیر ت کی انتہا نہ رہی کہ واقعی ہڈی ٹانگ کا حصہ بن گئی اور میرا تجر بہ کا میا ب ہو گیا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ڈاکٹر ہا نی وجد میں آگیا کہ یقینا یہ کسی دعا کا اثر ہے۔ تو میں نے ڈاکٹر ہا نی کو بتا یا کہ میں گزشتہ دنو ں سے مسلسل دن رات وضوبے وضوپا ک ناپاک یہ دعا بہت زیادہ پڑھ رہا ہو ں
” یَا جَابِرَ العَظمِ الکَسِیرِاَغِثنِی اِشفِنِی “
چند دنو ں بعد ڈاکٹر ہانی آیا اس کے ہاتھ میں1/2 کلو سونا اور 10 لا کھ پو نڈتھے۔ اس نے بتا یا کہ اس انوکھے تجر بے اور کا میا ب آپر یشن پر مجھے یہ انعام ملا ہے لہذا یہ آدھا آپ کا اور آدھا میرا ۔ میں نے لینے سے انکا ر کر دیا کہ اگر آپ میری خو شی چا ہتے ہیں تو آپ کلمہ پڑھ لیںکیونکہ ڈاکٹر ہانی عیسائی تھا ۔ کہنے لگا کہ دعا کریں کیو ں کہ میں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے لیکن مسلمانو ں کی زندگی میں اسلام نہیں ہے۔ پا کستان والو ں کا اسلا م اور ہے مکہ مدینہ والو ں کا اسلام اور ہے۔ مصر والو ں کا اسلام اور ہے ۔ میں کون سے اسلام میں داخل ہو ں؟ میں نے جو اب دیا، اس اسلام میں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ کر ام رضی اللہ عنہ کا تھا ۔ وہ چلا گیا اور میں بالکل تندرست ہو گیا۔میں نے اُس سے مسلسل رابطہ رکھا اور کوشش کر تا رہا کہ اتنا اچھا با اخلا ق شخص جہنم میں جانے کے قابل نہیں۔ آخر کا ر وہ مسلمان ہو گیا ۔ قارئین حاجی شبیر احمد کی پُرتاثیر با تیں مکہ مکرمہ میں حرم کی آخری چھت پر عشا ءکی نماز کے بعد بیٹھا سُن رہا تھا۔ ایک طرف مسحور کن ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی دوسری طرف حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا معجزہ متوازن چا ل میں چلتے حاجی شبیر احمد کو دیکھ رہا تھا۔ بس یقین شرط ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں