Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

قدرت کا انتقام متکبر کے لیے (سید نور عالم شاہ، شویکی شریف)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2008ء

وہ ایک عبادت گزار تھا، جولان کی پہاڑیوں پر گزشتہ ایک سو سال سے عبادت میں مصروف تھا۔ دنیاداری سے کوئی غرض نہ تھی۔ اردگرد کی بستیوں سے لوگ اسے دیکھنے اور اس کی خدمت کیلئے بے تاب تھے لیکن وہ اس سے ڈرتے بھی تھے۔ ایک بار ایک بستی کے دو نوجوان عبادت گزار کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک شوہر تھا اور دوسری بیوی۔ دونوں اس کیلئے کھانے کا خوان لیکر آئے تھے۔ کھانے کی خوشبو سے اردگرد کا ماحول مہک اٹھا۔ لیکن اس عبادت گزار کی آنکھ بند رہی۔ اس کے جسم سے کپڑے گل کر گر چکے تھے اور اس کے سر پر چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا تھا اور وہ ان کی چہکار سے بھی بیدار نہیں ہو سکا تھا ۔لیکن جب وہ دونوں اس کے پاس کھڑے رہے تو اس کی ایک آنکھ کھلی جو کبوتر کی طرح سرخ تھی۔ اس آنکھ سے بجلی سی چمکی اور وہ دونوں میاں بیوی آناً فاناً راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ اس عبادت گزار کی آنکھ پھر بند ہو گئی اس کے بعد کسی نے اس عبادت گزار کے قریب آنے کی ہمت نہیں کی۔یہاں تک کہ بھیڑ بکریوں نے بھی اِدھر کا رُخ کرنا بند کر دیا ۔چنانچہ پہاڑیوں کے پودوں، درختوں،جھاڑیوں اور گھا س نے اس کا جسم ڈھانپ لیا۔ ان پہاڑیوں میں حشرات الارض کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ سانپ اژدہے اور بچھوﺅں کی مختلف نسلیں تھیں۔ ان میں بعض بچھو ایسے تھے کہ جن کے زہر سے چٹانیں بھی پانی پانی ہو کر بہہ جائیں لیکن یہ سب حشرات الارض اس عبادت گزار سے خوف زدہ رہے اور دور دور تک دکھائی نہ دیتے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کھاتا پیتا کہاں سے ہے اوردوسری ضرور یا ت زندگی کیسے پوری کرتا ہے؟ اس حال میں اسے سوسال گزر گئے تو ایک فرشتہ اس کے سامنے نمودار ہوا۔ اس نے آواز دی اے عابد شب زندہ دار اے مرد عبادت گزار اے خالق کائنات کے بے لوث عبادت گزار آنکھیں کھول اور مژدہ سن کہ خالق کائنات نے تیری عبادت قبول کی۔ حکم خداوند ی ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ عبادت گزار نے آہستہ آہستہ اپنی دائیں آنکھ کھولی جو لہو رنگ نہ تھی۔ اس نے فرشتے پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور بے نیازی سے جواب دیا میرے رب سے کہہ کہ میرے ساتھ انصاف کرے اور یہ کہہ کر آنکھ بند کر لی۔ فرشتہ یہ سن کر لرز اٹھا اور کہنے لگا اے شخص اُس سے مانگنا ہے تو اس کا فضل و کرم مانگ، اس سے انصاف نہ مانگ۔ لیکن عبادت گزار نے آنکھیں نہیں کھولیں اور بے حس و حرکت ہو کر اپنے شغل میں مصروف ہو گیا۔ دوسری صدی بھی اسی طرح گزر گئی۔ سو گرمیاں سوبرساتیں اور سو سردیاں آئیں اور چلی گئیں یہ پہاڑ ہر قسم کے جانداروں سے خالی ہو گئے تھے جھاڑیوں کے درمیان وہ خاموشی کے ساتھ بیٹھا خالق کائنات کے حضور عبادت میں مصروف تھا۔ اردگرد کی بستیوں کے رہنے والوں نے اپنے جوانوں اور بچوں کو نصیحت کر دی تھی کہ وہ اس پہاڑ کی طرف جانے سے بھی پرہیز کریں جس پر وہ مرد عبادت گزار فروکش ہے۔ وہ حتی الامکان اپنے مویشیوں کو بھی ادھر جانے سے روکتے تھے لیکن کوئی شامت کا مارا ادھر چلا ہی جاتا تو اسے واپسی نصیب نہ ہوتی وہ راکھ کے ہی ڈھیر میں تبدیل ہو جا تا ۔ اس صدی میں اس نواح میں دو خطرناک جنگیں بھی ہوئیں۔ ایک جنگ تو وہ تھی جس میں طالوت علیہ السلام نے جالوت کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا اور دوسری جنگ میں طالوت علیہ السلام کے داماد حضرت داﺅد علیہ السلام نے کافروں سے جنگ کی تھی۔ صدی اسی طرح گزر گئی۔ یہ اس مرد عبادت گزار کی عبادت مسلسل کی دوسری صدی تھی۔ پھر وہی مہربان فرشتہ نمودار ہوا۔ اس نے صدا دی ”اے مرد عبادت گزار آنکھیں کھول اور اپنے کانوں کو بھی اذن سماعت دے کہ میں ایک بار پھر تیری عبادت کی قبولیت کی نوید لے کر آیا ہوں، عبادت گزار نے آنکھ کھولی جس کا رنگ خونِ کبوتر کی طرح سرخ تھا اس کی آنکھوں سے بجلیاں سی نکلیں لیکن وہ فرشتہ محفوظ رہا کہ اس کے اردگرد بھی ایک نادیدہ حصار تھا۔ عبادت گزار نے جب اپنی آنکھ کی بجلیوں کو بے اثر دیکھا تو بولا بتا تو میرے لیے کیا لایا ہے؟ کیا وہ میرے ساتھ انصاف کرنے پر تیار ہو گیا ہے اگر نہیں تو واپس جا مجھے تیری خوش خبریوں کی ضرورت نہیں۔ یہ چند الفاظ ادا کرکے وہ خاموش ہو گیا اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور بے حس و حرکت ہو گیا۔فرشتہ بڑبڑایا بدبخت تجھے اپنی عبادتوں پر اتنا غرور کیوں ہو گیا ہے؟ تجھے یہ بھی پتا نہیں کہ تو کیا مانگ رہا ہے۔ لیکن عبادت گزار کے کان بھی بند ہو چکے تھے وہ فرشتے کے یہ الفاظ سن نہ سکا۔ فرشتے نے اپنے پر پھڑپھرائے اور آسمان کی طرف رُخ کرکے پرواز کر گیا۔ تیسری صدی شروع ہوئی تو کئی نسلیں بدل چلی تھیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے آخری دنوں میں جب بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر شروع ہوئی تو کرہ ¿ اِرض کے اس برگزیدہ فرماں رواں نے اس کی تعمیر اپنی نگرانی میں شروع کرائی۔ وہ ایک منبر پر کھڑے، ایک ہاتھ میں عصائے شاہی لیے اہل جنات سے ہیکل تعمیر کروا رہے تھے کہ ایک پرندے نے آکر سرگوشی کی اے پیغمبر علیہ السلام خدا! یہاں سے دور ایک ایسا عبادت گزار بھی ہے جو گزشتہ تین سو سال سے عبادت میں مصروف ہے۔ اس کی دہشت کی انتہاءہے کہ اس کے اردگرد نہ حشرات الارض ہیں اور نہ پرندے۔ کسی نے اسے نہ ہی کھاتے پیتے دیکھا ہے اور نہ دوسری ضروریات زندگی پوری کرتے ہوئے دیکھاہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا: اے ہد ہد تو نہیں جانتا کہ جو عابد مخلوق خدا سے بیزار ہو یا مخلوق خدا اس سے بیزار ہوِ، اس کی عبادت ایک سعی رائیگاں ہے اور بس ۔پیغمبرِ خدا نے یہ کہہ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خاموش ہوگئے۔ روایات کے مطابق اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے کوئی کلام نہیں کیا۔ اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبر علیہ السلام کو اپنے پاس بلا لیا تھا لیکن ہیکل سلیمان کی تعمیر جاری رہی یہاں تک کہ تعمیرمکمل ہو گئی تو دیمک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عصا میں نقب لگایا اور وہ اس عصا سے رزق حاصل کرتی رہیں یہاں تک کہ عصا پیغمبر علیہ السلام خدا کا بوجھ نہ سہار سکا۔ تب اہل جنات کو معلوم ہوا کہ ان کے فرماں رواں تو وصال الٰہی سے مشرف ہو چکے ہیں۔ ادھر عصائے سلیمانی گرا ،اُدھر عبادت گزار کی عبادت کی تیسری صدی پوری ہو چکی تھی۔ فرشتہ نمودار ہوا اس نے آواز دی۔ اے مرد خدا اُٹھ آنکھیں کھول اور میری طرف دیکھ میں بارگاہِ خداوندی سے تیری عبادتوں کی قبولیت کی خوش خبری لے کر آیا ہوں۔ مانگ رب کائنات سے کیا مانگتا ہے؟ سلیمان علیہ السلام جیسے فرماں روا کی جانشینی چاہیے تو وہ بھی تجھے مل سکتی ہے۔ عبادت گزار نے یہ ندا سن کر بیک وقت اپنی دونوں آنکھیں کھولیں، دونوں خونِ کبوتر کی طرح لہو رنگ تھیں۔ اس کی آواز بجلیوں کی طرح کڑک دار تھی۔ اس نے غضب آلود ہوتے ہوئے کہا اس سے کہو میرے ساتھ انصاف کر۔ فرشتے نے کہا: اے شخص تجھے کیا ہو گیا تو رب کائنات سے انصاف مانگ رہا ہے تو اس کا فضل و کرم مانگ۔ ہرگز نہیں اس نے گرج کر کہا، نجانے صدیوں کی فاقہ کشی کے باوجود اس کی آواز میں اتنی قوت کہاں سے آئی تھی۔ اُس نے کہا اُ س سے کہو میرے ساتھ انصاف کر۔ فرشتے نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور افسوس کرتے ہوئے کہا اب بھی وقت ہے اپنی ضد سے باز آجا۔ نہیں صرف اور صرف انصاف، عبادت گزار کی آواز میں گھن گرج موجود تھی۔ اچھا تو رب کی طر ف سے انصاف یہ ہے کہ یہ پہاڑ تین سو سال تک تجھ پر سواری کرے گا۔ فرشتے نے یہ کہہ کر اپنے پر زور سے پھڑپھڑائے اوراپنا ایک پر پہاڑ کے نیچے اور دوسرا اس کے اوپر رکھ کر اسے الٹ دیا اور اوپر کی جانب پرواز کر گیا۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 503 reviews.