گھروالوں کو وقت نہ دینے کی وجہ سے بیوی چڑچڑی‘ بچے باغی اور بزرگ ناراض
برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دفتر میں سخت محنت کرنے والے افراد اور وہاں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے والے افراد کی ازدواجی زندگی خطرے کا شکار ہے‘ صرف برطانیہ میں ایسے افراد کی تعداد نصف میں ہے جو اپنی بیویوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔ یہ افراد صرف اپنی بیویوں کو ناراض نہیں کرتے بلکہ بچوں کی جانب بھی ان کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔ دفاتر میں کام کے اس نئے انداز کو EXTREME JOBS کا نام دیا گیا ہے۔ اپنے کیرئیر میں بہت آگے بڑھنے کی لگن میں انٹرٹینمنٹ‘ میڈیا‘ دواسازی‘ قانون یا اکائونٹنگ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بعض اوقات دس گھنٹے تک دفتر میں گزاردیتے ہیں اور اسے اوورٹائم کا نام دیتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس نوعیت کی ملازمتیں لوگوں کی نجی زندگی پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہارورڈ بزنس ریویو کی شائع شدہ تحقیق کے مطابق اندازہ ہے کہ زیادہ تنخواہیں پانے والے پینتالیس فیصد افراد جو بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ہیں ہفتے میں ساٹھ گھنٹے تک فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے دوران کار سو گھنٹوں پر بھی محیط ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ چھٹی بھی کبھی کبھار ہی کرتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق یہ لوگ ہرسال دس چھٹیاں کرتے ہیں ان کی ملازمت اتنی اہم ہوتی ہے کہ وہ اس کی خاطر مسلسل قربانیاں دیتےچلے جاتے ہیں۔ ایسے ہی کام کے دھنی کی بیوی کا کہنا ہے کہ شادی کے پہلے سال ایسا بھی ہوا کہ ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کی خاطر میرے شوہر کو اپنی ماں کی آخری رسومات کے انتظامات اور اوقات کو بھی نئے سرے سے مقرر کرنا پڑا۔ ایک شخص کا کہنا ہے کہ اپنی ’’سخت‘‘ ملازمت کی وجہ سے میں اپنے بزرگوں کی شفقت سے بھی محروم ہوگیا ہوں۔ میرے والد جو وہاں چیئرمین ہیں اس وجہ سے ناراض ہیں کہ انہیں ہسپتال کے پہلے سے طے شدہ شیڈول کو میں نے کئی بار ملتوی کیا ایک اور شخص نے بتایا کہ وہ لندن کے سائوتھ کنگسٹن کے علاقے میں ایک فلیٹ میں دو سال سے رہتا ہے‘ اپنے ملازمت کے شیڈول کی وجہ سے اس نے اب تک صرف ایک گدا اور ایک سلیپنگ بیگ خریدا ہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق سخت مصروف ملازمت کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کو ہوا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اب اپنے بزرگوں کی محبت اور شفقت حاصل نہیں ہے۔ ان میں پینتالیس فیصد افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلسل سفر اور شام کی مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنی گھریلو زندگی سے لطف اندوز ہونے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ سخت ملازمتوں میں مصروف ان افراد کے بچوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں بچے بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے لگے ہیں‘ بہت زیادہ جینک فوڈ کھانے لگے ہیں اور گھر میں ا ن کی وجہ سے ڈسپلن کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ بہت مصروف اور ملازمت کرنے والے اپنے کام سے نفرت بھی نہیں کرتے۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کو ایک اعزاز کی طرح اپنے سینوں پر سجائے پھرتے ہیں۔
کچھ مشورے اور بھی لیتے جائیں: اگر آپ کوئی بھی کام کرتے ہیں تجارت، ملازمت یا فلاحی کام تو بہت اچھا ہے۔ اگر آپ اپنی روزانہ کی روئیداد تجربات اور دن کی کچھ باتیں اپنی اہلیہ سے شیئر کرلیں اور کبھی اپنے دوستانہ رویہ سے اپنی بیگم کو قائل کرنے کی کوشش کریں تو ممکن ہے کہ آپ کی بیوی آپ کی پیشہ وارانہ گفتگو کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکے مگر وہ دلچسپی سے آپ کی بات ضرور سنے گی۔ یہ گفتگو جو باہمی مصروفیات سے متعلق ہوگی مگر وہ آپ دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کردے گی۔ شوہر کیلئے خود کو مضبوط اور صحتمند رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ مہینے میں یا پندرہ دن کے اندر ایک بار اپنے پرانے دوستوں کیلئے بھی کچھ وقت نکالیں۔ ان کے ساتھ بیتے خوشگوار لمحات شیئر کریں۔ ہنسیں ہنسائیں‘ دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد بہت سے افراد دوستوں سے دور ہونے لگتے ہیں کوشش کرکے پرانے دوستوں سے رابطہ میں رہیں۔ بیوی کو بھی چاہیےکہ وہ بھی اپنی پرانی سہیلیوں سے کبھی کبھی رابطہ رکھے۔ قریب آنے اور قریب رہنے کامطلب ایک دوسرے کی ذاتی دلچسپی پر تنقید کرنا نہیں ہے نہ ہی ایک دوسرے کےعزیز واقارب یا دوستوں کامذاق اڑانا ٹھیک ہوگا۔ کچھ رشتوں سے جذباتی لگاؤ زیادہ ہوتا ہےمگر بیوی بیوی ہوتی ہے اور شوہر بھی شوہر ہی ہوتا ہے اور ہم سب انسان ہیں ہم سب کےساتھ کوئی نہ کوئی محرومی، خلش کمزوری بھی رہتی ہے انسان کو انسان سمجھنے کی ہوشیاری دکھائیے ذلت اور تذلیل کو اپنی لغت سے نکال پھینکئے۔ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے بیماری کا دوربھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس وقت میں جب میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک بیمار ہوجائے تو ایسے وقت میں دلداری‘ محبت کا احساس آدھی بیماری رفع کرسکتا ہے۔ آپ کے انداز نشست و برخاست ایسے ہونے چاہئیں کہ میاں یا بیوی اسے احسان نہ سمجھے بلکہ بے غرض محبت کا برتاؤ سمجھے اورآپ کی ذات سے پھوٹنے والی یہ روشنی آپ کے میاں یا بیوی کو دکھ اور بیماری کے اندھیرےسےباہر نکال لائے گی۔ کبھی کبھی تعریف و توصیف سے تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں آجاتا بلکہ زندگی نکھر سی جاتی ہے۔ عورت اپنی تعریف سننا چاہتی ہیں تو مرد کیسے پیچھے رہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے سراپے‘ کیریئر‘ بچوں کی کامیابیوں اور دیگر کامیابیوں پرانہیں سراہا جائے‘ تعریف سن کر سیروں خون بڑھ جانے والی بات ایسی غلط بھی نہیں۔ کچھ مالی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی تکمیل آسان بات نہیں ہوتی مثلاً یہ توقع رکھنا کہ شوہر کی کروڑوں کی جائیداد ہوجائے یا شوہر کی لاٹری نکل آئے قطعی منفی سا رویہ ہے کہ ایک دوسرے کی مالی پوزیشن دیکھ کر محبت کا اظہار کیا جائے۔ گھر کی معیشت کی بہتری کیلئے شوہر کو وسعت نظر کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور جو شوہر اپنی بیوی کو اعتماد اور اعتبار کی دولت دے دیتے ہیں اور بیویاں جی جان سے تحفظات کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں ایسے گھرانے جنت بن جاتے ہیں‘ ایسے گھرانے محبت کے اہل بھی رہتے ہیں‘ ذمہ داریوں کی تقسیم اور جذباتی سہاروں کے بل پر آپ اپنی دنیا فتح کرسکتے ہیں اب ذرا سوچیے کہ شکریہ آپ کا احسان ہے! آپ نے میرا مان سمان بڑھادیا اور مجھے آپ سے محبت ہے‘ کتنے اہم جادوئی جملے ہیں ناں!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں