تمام لوگ آپریشن چھوڑ کر امید ہار کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے کہ اب تو ہی ہمارا سہارا ہے اور پھر صبح کیا دیکھتے ہیں کہ کل شام جو دریا کا پانی اس برف کے پہاڑ جہاں لاشیں پڑی تھیں اس میں جانے کی بجائے دوبارہ واپس نیچے کو بہہ رہا تھا۔
1984ء میں جب ہمارے دشمن ملک بھارت نے سیاچن کی طرف پیش قدمی کی تو پاک فوج نے سیاچن گلیشیئر کے سفید پوش پہاڑوں کا محاصرہ کیا اوردفاع وطن کی خاطراپنا گرم بستر چھوڑ کر برف پر سونے کوترجیح دی اورساتھ ہی بھارت کو بتایا کہ آپ کے سامنے پاکستان کی افواج ہیں دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا‘ اگر پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھاتو آنکھیں نکال دیں گے‘ الحمدللہ پاک فوج نے اس برف پوش پہاڑوں پر بھی دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور آج تک دشمن کوآگے بڑھنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ 7اپریل 2012ء گیاری سیکٹر میں چھ این ایل آئی بٹالین اپنی عسکری خدمات انجام دے رہی تھی کہ رات تقریباً دو بجے اچانک برف کے تودوں کا ایک پہاڑ 350 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے آگے بڑھا اور چھ این ایل آئی بٹالین جو کہ تقریباً ایک کلومیٹر پر محیط تھی اسے نشانہ بنایا۔ اس وقت زیادہ تر لوگ سو رہے تھے اور باقی کچھ حضرات اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہنستا بستا آنگن منوں برف کے نیچے دب گیا۔ شہادتوں کا سفر بدر کے پتھریلے میدانوں سے شروع ہوا اور کربلا کی پیاسی زمین سے ہوتا ہوا یہ 13 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گیاری میں ابھی تمام نہیں ہوا۔ اس وقت یونٹ کی کل تعداد 140 تھی جس میں 11 سویلین شامل تھے اور وہ تمام کے تمام برف کے تودے کےنیچے آگئے۔ کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان شہدا کے جسد خاکی کو بھی کبھی تلاش کیا جاسکے گا۔ گلیشئیر ایک میل چوڑا اورکئی سو فٹ گہرا تھا اور سفاک ترین ہوائیں قدم ٹکنے نہیں دیتی تھیں۔ پاکستان فوج اور تمام ادارے وہاں اس کام کیلئے پہنچے اور بیرون ملکوں سے بھی ماہرین کو مدعو کیا گیا تاکہ ان کی ماہرانہ رائے اور جدید اوزار کے ذریعے ان لوگوں کوزندہ نکالا جاسکے مگر سارے ماہرین نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر سے زندہ نکالنا ناممکن ہے اور سب نے اس آپریشن میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ مگر الحمدللہ! پاکستان آرمی نے ہمت نہیں ہاری اور آپریشن شروع کردیا۔ پہلا بلڈوزر وہاں پہنچا تو برفانی تودے کے سامنے اس کی مثال ماچس کی ڈبیا کی سی تھی‘ دنیا بھر کے ماہرین نے مایوسی کا اظہار کیا مگر جس باپ کے بچے ہزاروں ٹن وزنی برفانی پتھر کے نیچے دبے ہوں اس کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ یہ غمزدہ باپ چیف آف آرمی سٹاف تھے‘ جن کا چہرہ بظاہر کسی احساس سے عاری دکھائی دیتا ہے اور جس کی آواز انسانی گلے سے نکلنے کی بجائے کسی روبوٹ کی مشینی آواز سے مشابہت رکھتی ہے مگر وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا‘ بکھر چکا تھا‘ اسے اپنے فوجی کیریئر کا مشکل ترین چیلنج درپیش تھا‘ میدان جنگ میں شہید کے جسد خاکی کو واپس لانے کیلئے کئی جانیں قربان کردی جاتی ہیں‘ جنرل صاحب نے بظاہر ایک ناممکن العمل عزم کا اظہار کیا کہ ہر شہید کو تلاش کریں گے‘ اسے احترام اور وقار کے ساتھ اس کے عزیزوں کی آنکھوں کے سامنے سپرد خاک کریں گے‘ اس میں وقت لگے گا مگر ہم یہ کام مکمل کرکے چھوڑیں گے۔ جب پاک فوج نے آپریشن شروع کیا تو جہاں پر لاشیں تھیں ان کے اوپر برف کا پہاڑ تھا تو پاک فوج نے برف کے پہاڑ کے نیچے سے ایک راستہ کھودا تاکہ برف کا پانی بہہ کر نیچے دریا میں گرجائے مگر صبح انہوں نے کیا دیکھا کہ برف کا پانی نیچے کی طرف بہنے کی بجائے اوپر کی طرف جدھر لاشیں پڑی تھیں ادھر بہہ رہا تھا۔ پاک فوج نے سوچا کہ اب تو لاشیں نکالنا ناممکن ہے کیونکہ پانی تمام لاشیں دریا میں بہا کر لے جائے گا تو تمام لوگ آپریشن چھوڑ کر امید ہار کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے کہ اب تو ہی ہمارا سہارا ہے اور پھر صبح کیا دیکھتے ہیں کہ کل شام جو دریا کا پانی اس برف کے پہاڑ جہاں لاشیں پڑی تھیں اس میں جانے کی بجائے دوبارہ واپس نیچے کو بہہ (باقی
رہا تھا۔ پاک فوج نے دوبارہ آپریشن شروع کیا۔ کچھ دنوں کے کام کے بعد اس طرح کے مزید مشکل مراحل آئے مگر اللہ نے پاک فوج کا ساتھ دیا اور آخرکار چالیس دن بعد جب پہلی لاش نکالی گئی تو اس کے جسم پر کوئی خراش تک نہیں تھی ایسے لگ رہاتھا کہ وہ ابھی ابھی فوت ہوا ہے اور اس کی لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا۔ پورے دو سال تک یہ آپریشن جاری رہا تو 140 شہداء میں سے 133 شہداء کی لاشیں نکال لی گئیں اور ان کے ورثاء کے حوالے کردی گئیں۔ مگر 7جوانوں کی لاشیں نہ مل سکیں کیونکہ اس وقت برف باری کا موسم شروع ہوچکا تھا اور ان کو وہاں دفن کرکے ان کی عزت و تکریم میں ایک چھوٹا سا قبرستان بنا دیا گیا اور ساتھ ہی ان تمام شہداء کی یاد میں اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک یادگار شہداء بھی وہاں پر بنایا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ماسوائے چند ایک شہداء کے سب کے جسدخاکی اپنی اصلی حالت میں پائے گئے اور جو جس حالت میں پڑا تھا ویسا ہی ملا۔ جب ان شہداء کی لاشیں نکالی جارہی تھیں تو وہ نہ صرف صحیح سلامت تھیں بلکہ اس سانحہ کے دوران ان کی جو بھی پوزیشن تھی تو وہ خود بخود لیٹی حالت میں چلی گئیں اور الحمدللہ ان سب کو اپنے اپنے علاقوں میں دفن کیا گیا۔ یہ وہ ملک ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہے تبھی تو اس برف کے پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ نے ایک ناممکن کو ممکن کردکھایا اور ساری دنیا حیران و پریشان ہوگئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں