صاحبزادی نے یہ خواب دیکھا کہ ان کے والدصاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ اس پریشان کن خواب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھیں اور آواز دی تو دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دوسری مرتبہ آواز دی توکوئی جواب نہیں ملا‘ پاس جاکر دیکھا تو سر سجدہ میں تھا اور روح پروازکرچکی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فرزند ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کیلئے حکمت اور فقہ و تفسیر کے علوم کے حاصل ہونے کی دعا مانگی۔ ان کا علم بہت ہی وسیع تھا‘ اسی لیے کچھ لوگ ان کو بحر (دریا) کہتے تھے اور حبرالامۃ(امت کا بہت بڑا عالم) یہ تو آپ کا بہت ہی مشہور لقب ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت اور گورے رنگ کے نہایت ہی حسین و جمیل شخص تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ان کو کم عمری کے باوجود امور خلافت کے اہم ترین مشوروں میں شریک کرتے رہے۔ لیث بن ابی سلیم کا بیان ہے کہ میں نے طاؤس محدث سے کہا کہ تم اس نوعمر شخص (عبداللہ بن عباس) کی درس گاہ سے چمٹے ہوئے ہو اور اکابرصحابہ کی درس گاہوں میں نہیں جارہے ہو۔ طاؤس محدث نے فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ سترصحابہ کرام ’’جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو وہ سب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قول پر عمل کرتے تھے‘ اس لیے مجھے ان کے علم کی وسعت پر اعتماد ہے۔ اس لیے میں ان کی درس گاہ چھوڑکر کہیں نہیں جاسکتا۔ ان پر خوف خدا کابہت زیادہ غلبہ رہتا۔ آپ اس قدر زیادہ روتے کہ آپ کے دونوں رخساروں پر آنسوؤں کی دھار بہنے کا نشان پڑگیا تھا۔ 68 ہجری میں بمقام طائف 71برس کی عمر میں وصال ہوا۔ (اکمال ص604، واسدالغابہ ج3 ص192)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کرامتوں میں سے تین کرامتیں بہت زیادہ مشہور ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
کفن میں پرندہ: میمون بن مہران تابعی محدث کا بیان ہے کہ میں طائف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے جنازہ میں حاضر تھا جب لوگ نماز جنازہ کیلئے کھڑے ہوئے تو بالکل ہی اچانک نہایت تیزی کے ساتھ ایک سفید پرندہ آیا اور ان کے کفن کے اندر داخل ہوگیا۔ نماز کے بعد ہم لوگوں نے ٹٹول ٹٹول کر بہت تلاش کیا مگر اس پرندے کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا اورکیا ہوا؟ (مستطرف ج2، ص281)
غیبی آواز: جب لوگ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دفن کرچکے اور قبرمبارک پر مٹی برابرکی جاچکی تو تمام حاضرین نے ایک غیبی آواز سنی کہ کوئی شخص بلند آواز سے یہ تلاوت کررہا ہے۔ ’’ترجمہ: اے اطمینان پانے والی جان! تو اپنےرب کے دربار میں اس طرح حاضر ہو جا کہ توخدا سے خوش ہے اورخدا تجھ سے خوش ہے۔‘‘ (کنزالعمال ج16 و حاشیہ کنزالعمال ص73)
حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار: یہ بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک کرامت ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ (اکمال ص604)
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ: یہ مدینہ منورہ کے انصاری ہیں اور خاندان بنی خزرج سے ان کا نسبی تعلق ہے۔ اکابر صحابہ کی فہرست میں ان کا نام نامی بہت مشہور ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کے خطیب تھے اور ان کی حضور اقدس ﷺ نے بہترین زندگی‘ پھر شہادت پھر جنت کی بشارت دی تھی۔ 12 ہجری میں جنگ یمامہ کے دن مسلیمۃ الکذاب کی فوجوں سے جنگ کرتے ہوئے شہادت سے سربلند ہوگئے۔ (اکمال ص588 وغیرہ)
موت کے بعد وصیت: ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خواب میں آکر فرمایا کہ اے شخص! تم امیر لشکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو میرا یہ پیغام دےدو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سےاتار لیا اور اپنے گھوڑا باندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کرکے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کرکے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو میرا یہ پیغام دے دینا کہ مجھ پر جو قرض ہے‘ وہ اس کو ادا کردیں اور میرا فلاں غلام آزاد ہے۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنا خواب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اور واقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اور جب امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو یہ خواب سنایا گیا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے ان کا قرض ادا فرمادیا اور ان کے غلام کو آزاد قرار دے دیا۔ مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایسا کوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ جس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔ (تفسیر صاوی ج2 ص108)
اپنی پسند کی موت ملی: حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اکثر کہا کرتے تھے اور دعائیں بھی مانگاکرتے تھے کہ یااللہ! مجھ کو عام لوگوں کی طرح ایڑیاں رگڑرگڑ کر اوردم گھٹ گھٹ کرمرنا پسند نہیں ہے‘ مجھے ایسی موت ملے کہ اس میں دم گھٹنے اورایڑیاں رگڑنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے‘ چنانچہ ان کی یہ کرامت ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی حکومت کے دوران یہ آدھی رات گزرنے کے بعد نماز میں مشغول تھے کہ ان کی صاحبزادی نے یہ خواب دیکھا کہ ان کے والدصاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ اس پریشان کن خواب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھیں اور آواز دی تو دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دوسری مرتبہ آواز دی توکوئی جواب نہیں ملا‘ پاس جاکر دیکھا تو سر سجدہ میں تھا اور روح پروازکرچکی تھی۔ (اسد الغابہ واصابہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں