کامیاب وہ شخص ہے جو زندگی کے مسائل کا مقابلہ کامیابی اور مو ثر طریقے سے کر سکے۔ لیکن کا میابی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک سامنے کوئی مقصد نہ ہو۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لئے کچھ اصول یہاں تحریر کئے جا رہے ہیں جو خود نو میتی ( ہپناٹزم ) کے ذریعے اپنائے جا سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی ایک بائیسکل کی مانند ہے۔ سائیکل اس وقت تک توازن (Balance) میں رہتی ہے جب تک وہ چلتی رہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ شروع شروع میں جب آپ نے بائیسکل چلانا سیکھی تھی تو آپ اس کو چلا نے کے لئے بیٹھتے تو وہ گر جاتی تھی اور آپ کہتے تھے کہ یہ کھڑی ہی نہیں ہوتی تو میں چلا ﺅ ں کیسے؟ حالانکہ جب سائیکل چلتی ہے تو تب کھڑی ہوتی اور رک جا ئے تو گر جا تی ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی ہے۔ یا د رکھیں کہ زندگی کی منزل کا تعین کئے بغیر آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھیں اور کبھی ماضی کی طر ف باربار مڑ کر نہ دیکھیں۔ بہتر سمجھ کا دارومدار آپ کے اپنے اوپر ہے۔ اگر آپ کسی بات کو غلط سمجھ لیتے ہیںتو کا م ٹھیک طریقے سے نہیں کر سکتے۔ ہمیں زیا دہ تر ناکامی اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہو تی ہے۔ یعنی ہم کسی نہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، جس کے نتا ئج نا کامی کی صورت میں آتے ہیں۔ بہتر سمجھ کے لئے ضروری ہے کہ آپ کسی بات کو غور سے سنیں اور اسی طرح سمجھنے کی کو شش کریں جیسے کہنے والاکہنا چاہتا ہے۔ غلط فہمی اسی وقت پیداہوتی ہے جب ہم کسی بات میں اپنی رائے شامل کر لیتے ہیں۔ مثلاً بیوی کا چچیر ے بھائی کے ساتھ ہنس ہنس کربا ت کر نا اورخاوند کا خیال کہ کوئی غلط بات ہوچکی ہے یعنی بغیرتصدیق کئے خاوند نے اپنی رائے شامل کر لی۔ یہی غلط فہمی ہو تی ہے۔ دوست آپس میں گفتگو کر رہے ہیں لیکن جونہی آپ پہنچتے ہیں وہ خاموش ہو جا تے ہیں آپ فوراً یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں بات کر رہے تھے یعنی آپ نے خود ہی یہ رائے قائم کر لی۔ یہی نا سمجھی کی بنیاد ہے کسی شخص کی بات کو اپنی رائے میں شامل کئے بغیرہی اس طرح سمجھ لینا جس طرح وہ کر رہاہے اس کو بہتر سمجھ کہتے ہیں۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کیا صحیح ہے۔ یہ نہیں کہ کون صحیح ہے، تو آپ کو ہربات ٹھیک ٹھیک سمجھ آ جائے گی۔
اب آپ کے پاس مقصد اوربہتر سمجھ پیدا ہو چکی ہے۔ لیکن پھربھی آپ جرات کئے بغیر کا میاب نہیں ہو سکتے۔ آپ میں عمل کرنے کیلئے جرات ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں ہمیشہ عمل ہی آپ کو آپ کی منز ل خواہش اور یقین کو حقیقت میں بدلتا ہے۔ غلط سمت قدم اٹھانا بہتر ہے بجا ئے اس کے آپ اپنے آپ کو ایک جگہ رکھیں۔ جب آپ نے آگے جانے کا ارادہ کر لیا ہے تو راستہ خود بخود ملتا چلا جائے گا۔ اگر آپ نے اپنے کام کو ایک جگہ جام کر دیا تو آپ کا خود کا ر نظام کا م کرنا چھوڑ دے گااور آپ نا کام ہو جا ئیں گے۔ اس با ت کا انتظار مت کر یں کہ آپ بہت بڑے ہیرو بن کر ہی جرات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ روز مرہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے جرات کی ضرورت ہو تی ہے۔ اگر آپ مسلسل مقابلہ کرتے چلے جاتے ہیں تو آپ میں جرات پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق دیکھیں تو ہمیں بڑے جرات مند لوگ نظر آتے ہیں مثلاً طارق بن زیاد جس نے کشتیا ں جلادیں تاکہ لو گو ں کے ذہن میں یہ خیال ہی نہ رہے کہ اپنے گھرواپس جا نا ہے۔ درحقیقت اس نے لو گو ں کو یہ سمجھا یا (Suggestion) کہ واپس جانے سے مر جا نا بہتر ہے۔ جب لو گو ں نے مرنے کا فیصلہ کر لیا تو ان میںجرات پیدا ہو گئی۔ اسی طر ح محمود غزنوی جس نے سومنا ت کا مندر حاصل کر نے کے لیے 17 حملے کئے اورآخرکار کا میاب ہو گیا۔ آج کے دور میں ہم کسی ایک کام کو دو تین دفعہ کرتے ہیں۔ اگر ناکام ہو جا ئیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔ درحقیقت محمود غزنوی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں مر جا ﺅ ں گا یا سومنات کا مندر حاصل کر لوں گا۔ ان دو مثالوں سے یہ با ت ثابت ہو تی ہے کہ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لئے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں۔ کہ میں مر جاﺅں گا یا یہ کام کر وں گا، ایسی جا ن کی بازی لگانے سے جرات پیدا ہو تی ہے۔ اس کے بعد آپ میں لامحدود قوت ارادی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ الغر ض زندگی میں کامیا ب ہونے کے لئے مضبوط قوت ارادی انتہائی ضروری ہے۔ زندگی میں کامیاب ہو نے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دوسروں کااحترام کریں ان کے مسائل کی طرف خصو صی توجہ دیں اور ان کے ساتھ اس طرح بر تا ﺅ کریں جیسے اپنی ذات کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب ہم لوگو ں کا احساس اپنی طر ح کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی اس کا جواب ہمدردی میں دیتے ہیں۔ حقیقتاً ہر شخص اپنی ہی ذات کی ہمدردی کرتا ہے۔ وہ لو گ جو یہ سوچتے ہیں کہ دوسرے لو گ کچھ بھی نہیں وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہمدردی سے محروم کر لیتے ہیں۔ اپنے اندر ہمدردی پیدا کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ دوسرے لو گو ں پر تنقید کر نا چھوڑ دیں۔ ان کی غلطیوں پر ان سے نفر ت نہ کر یں ، یہ سو چیں کہ دوسرے لو گ بھی قابل احترام ہیں تو پھر آپ کے اندر ہمدردی کا عنصر پیدا ہونا شروع ہو جا ئے گا۔ اپنے بارے میں اچھی رائے اور اس کا احساس اجا گر ہو جانے کو عزت نفس کہتے ہیں یا اپنی نظر میں اپنا مقام ، اپنی قدر وقیمت یا جینے کے حوصلے کا نا م عزت نفس ہے۔ یہ ایسا شخص ہے جو خود انحصاری پر عمل کرتا ہے۔ عزت نفس کی بنیادیںخود اعتمادی اور خودی کو قبول کر نے پر ہیں یعنی اپنے آپ کو خوبیو ں اور خامیوں سمیت قبول کرنا۔ عزت نفس میں ہم اپنے نقائص کا اقرار کرنے سے نہیں گھبراتے ہیں۔ عزت نفس زیادہ محنت، زیادہ دولت ، ڈگریوں یا شہرت کے ساتھ حاصل نہیں ہوتی۔ عزت نفس ایک روحانی کیفیت ہے جو شعور کے بہترین استعمال پر انسان کے اندر پرورش پاتی ہے۔ جب ہمیں پتا چلتا ہے کہ کوئی کام ہمارے بس سے باہر ہے اور ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی عزت نفس بڑھ جاتی ہے متوازن اور کا میاب زندگی کے لئے عزت نفس ضروری ہے جبکہ معیاری عزت نفس کے لئے حساس ہونا ضروری ہے۔ ( جاری ہے )
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 21
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں