مروی ہے کہ ایک شخص جسے دینار عیا ر کہاجا تاتھا اس کی والدہ اسے نصیحت کرتی مگر و ہ نہیں مانتا تھا ایک دن وہ ایک قبر ستان سے گزرا جہا ں ہڈیا ں بہت تھیں اس نے ایک ہڈی اٹھا ئی تو وہ اس کے ہا تھ میں بکھر گئی اس نے اپنے دل میں سوچا اور خود سے کہا تیرا ستیا نا س کل کو تو بھی ایسا ہو جائے گا اور تیری ہڈیا ں اسی طر ح بوسیدہ اور جسم مٹی ہوجائے گا اور آج میں گنا ہ کر رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ نادم ہوا اور سچی تو بہ کی اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہنے لگا، کہ میرے خدا میرا معاملہ تیرے سامنے رکھتا ہوں مجھے قبول کر اور مجھ پر رحم کر ، اور اڑی اڑی رنگت اور ٹوٹے دل کے ساتھ اپنی ما ں کے پا س پہنچا۔ اور کہا اماں جان ! بھاگے ہوئے غلا م کو جب آقا پکڑ لے تو کیا سلو ک کیا جا تا ہے؟ ماں نے کہا کہ اسے کھر درا لباس ، اور سوکھا کھا نا دیا جا تا ہے اور اس کے ہاتھ پا ﺅںباندھ دئیے جاتے ہیں۔ تواس نے کہا کہ مجھے اونی جبہ اور جو کی روٹی کے سوکھے ٹکڑے چاہئیں اور آج تم میرے ساتھ وہی سلو ک کر و گی جو بھا گے ہوئے غلام سے کیا جا تا ہے شاید کہ میرا آقا میری ذلت دیکھ کر مجھ پر رحم کر دے تو اس کی ما ں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب رات ہوئی تو یہ رونا اور آہ و زاری کر نا شروع کردیتا اور اپنے آپ سے کہتا ! اے دینا ر تیرا ستیا نا س ! کیا تجھے آپ پر قوت حاصل نہیں ! تو کس طر ح اللہ کے غضب سے بچ سکے گا۔ اسی طر ح صبح تک کرتا رہتا۔ ایک رات اس کی ماں نے اسے کہا کہ ، اپنے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو۔ اس نے کہا کہ مجھے چھوڑو اس طر ح تھوڑا سا تھکوں گا مگر شاید اس کے بعد طویل آرام مل جائے۔ اے اما ں جان! میرا میرے رب کے سامنے بڑا طویل غلط کر دار موجو د ہے اور مجھے پتہ نہیں کہ مجھے سائے کی جگہ جانے کا حکم دیا جائے گا یا بر ی جگہ پر جا نے کا۔ مجھے ایسی تکلیف کا خوف ہے جس کے بعد راحت نہیں، اور ایسی سزا کا ڈر ہے۔ جس کے بعد معا فی نہیں۔ ماں نے کہا اچھا تھوڑا سا آرام کر لے ! اس نے کہا میں آرام چاہوں۔ کیا تم میر ی معافی کی ضمانت لیتی ہو۔ کون میری ضمانت لے گا۔ پھر کہا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو کہیں ایسا نہ ہوکہکہ کل مخلو ق خدا جنت کو لے جائی جارہی ہو۔ اور میں جہنم کو۔ ایک مر تبہ اس کی ماں وہا ں سے گذری تو وہ یہ آیت پڑھ رہا تھا کہ ” تیری رب کی قسم ہم ان سب سے پو چھیں گے ان کے اعمال کے بارے میں “ ( الحجر آیت نمبر ۲۹۔ ۳۹) پھر وہ اسی میں غورکرتا رہا اور سانپ کی طرح لوٹتا رہا حتی کہ بے ہو ش ہو کر گر گیا۔ اس کی ما ں نے آکر اسے آواز دی تو اس نے جواب نہ دیا۔ ما ں نے کہا ”میری آنکھوں کی ٹھنڈک اب کہاں ملاقات ہو گی۔ اس نے کمزور آواز میں کہا کہ اگر تو قیامت کے دن مجھے نہ پائے تو مالک (جہنم کے داروغہ ) سے پو چھ لینا پھر اس نے ایک چیخ ماری اور انتقال ہو گیا ماں نے اس کی تجہیز و تکفین کی پھر لوگوں کو آواز دی کہ لو گو ! آﺅ اور قتیل جہنم کی نماز جنا زہ پڑھو تو لو گ آگئے۔ اور ان میں کوئی ایسانہ تھا جس کی آنکھو ں میں آنسو نہ ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں