نہر یا کسی تا لا ب میں ایک دوانسانو ں کے ڈوبنے کی خبریں اخبارو ں میں چھپتی رہتی ہیں ۔ کسی کو بچا لیا جا تاہے اور کئی اس طرح ڈوب کر غائب ہو جا تے ہیں کہ دریا یا نہر سے کئی کئی دن لا شیں نہیں ملتیں ۔ بعض کی لا شیں فوراً مل جا تی ہیں ۔ آپ سن کر یقینا حیران ہو ں گے کہ دریاﺅں کے کنا رو ں پر جہا ں لو گ پکنک اور کشتی رانی کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں ، وہا ں پیشہ ور ملا ح اور مانجھی بھی مو جو د ہو تے ہیں۔ ڈوبنے والے اکثر نو جوان ہوتے ہیں جو شو خی میں آکر گہرے اور تیز پانی میں اتر جاتے ہیں ۔ ان میں کوئی ڈوبنے لگتا ہے تو اس کے ساتھی یا رشتہ دار شور مچا تے ہیں ۔ ایک دو ملاح دوڑے آتے ہیں او ر چند سو معاوضہ بتا کر کہتے ہیں کہ پہلے ادا کر و، لڑکے کو بچا لیں گے ۔
ڈوبنے کے ہر حادثے میں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے لیکن ملا ح اور پیشہ ور تیرا ک جہا ں مو قعہ دیکھتے ہیں اپنامطا لبہ پیش کر کے کسی کو بچانے کے لیے نہر میں یا دریا میں اترتے ہیں ۔ اگر کہیں ہجوم زیادہ ہو تو وہ دریامیں اتر جا تے ہیں وہ نہ اتریں تو ہجو م میں سے دو چار آدمی ڈوبنے والے کے پیچھے کود کر اسے بچا لیتے ہیں ۔ ایک مہینہ گزرا ، اخبارو ں میں تین خبریں اکٹھی چھپی تھیں جن میں بتا یا گیا تھا کہ بہت سے افرا د مختلف جگہوں پر ڈوب کر مر گئے ۔ میں جب بھی ایسی خبر پڑھتا ہو ں تو مجھے اپنے ڈوبنے کا و اقعہ یا د آجا تاہے لیکن لکھتے لکھتے رہ جاتا ہوں۔ یہ تین چیزیں اکٹھی چھپیں تو اپنا وا قعہ لکھ ڈالا ہے ۔ میرا واقعہ بہت پرا نا ہو گیا ہے ۔ اس وقت میں فرسٹ ائیر میں تھا۔ میں اچھی طر ح تیرنا نہیں جا نتا تھا۔ پھر میں بھی اپنے کالج کی کشتی رانی ٹیم میں شامل ہو گیا اور تیرا کی کی مشق کر نے لگا ۔ دریا ان دنو ں کچھ جوش میں تھا۔ ہمیں ہمارے پروکٹر صاحب نے ہدا یت کر رکھی تھی کہ اول تو کشتی پانی کا زور ٹوٹنے تک چلا نی ہی نہیں ۔ اگر ضرور چلا نی ہو تو دریا میں زیا دہ آگے نہ جانا ۔ میں ضرورت سے زیا دہ شرا رتی اور جوشیلا ہو ا کر تا تھا ۔ ایک روز میں تین سا تھیو ں کے ساتھ کشتی چلا رہا تھا ۔ ایک دوست نے دریا کے گہرے پانی میں پہنچ کر کہا جو کوئی یہا ں چھلا نگ لگا کر تیرتا ہوا کنا رے تک پہنچ جائے وہ اسے پچاس روپے انعا م د یگا ۔
باقی سب تو چپکے بیٹھے رہے لیکن میں نے جوانی کے جو ش کا مظاہر ہ کیا اور بلا سو چے سمجھے شیخی بگھا رنے کے لیے کشتی سے کپڑوں سمیت دریا میں چھلا نگ لگا دی ۔ میں نیا نیا تیرا ک تھا اور کبھی کبھی کسی تالا ب یا نہر کے کنا رے شو قیہ تیرا کی کر لیا کرتا تھا ۔ میں نے یہی سو چا تھا کہ بس یہ معمول ہی کی تیراکی ہو گی اور میں کنارے تک پہنچ کر پچا س روپے وصول کر لو ں گا ۔ میںنے جو کچھ سو چا تھا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہو گیا۔ میں غوطہ لگا کر ابھر ا تو مجھے اپنی بے وقوفی کا احساس ہونے لگا۔ پانی گہرا اور بہا ﺅ بہت تیز تھا ۔ میں نے کنا رے کی طرف تیرنے کی کوشش کی لیکن میں پانی کے ساتھ بہتا چلا جا رہا تھا ۔ جلد ہی میں غوطے کھا نے لگا اور میرے اوسان آہستہ آہستہ کھو نے لگے ۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہو ش نہ رہا ۔ جب ہو ش آیا میں دریا کے باہر اوندھے منہ لیٹا ہو ا تھا اور ایک بوڑھا شخص میری پیٹھ پر دباﺅ ڈال کر مجھے قے کروارہا تھا تاکہ دریا کا پانی جو میرے پیٹ میں چلا گیا ہے باہر نکل آئے۔
میرے دوست ،جن کے چہرے خوف اور دہشت سے زرد ہو رہے تھے، بھا گ کر کہیں سے ایک تانگہ لے آئے اور مجھے تا نگے میں ڈال کر گھر کی طر ف چل دئیے ۔ وہ بوڑھا شخص جس نے میری جا ن بچائی تھی ہمارے ساتھ ہی تا نگے میں بیٹھ گیا ۔ اس نے بتایا کہ ابھی میرے پیٹ میں پانی مو جو د ہے ۔ پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا ہو گا ۔ اس کے لیے کچھ مالش وغیرہ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی جس کے لیے اس کا میرے گھر جانا ضرور ی ہو گا ۔ میں نے سو چا کہ اس شخص کو میرے با پ سے انعا م لینے کا لا لچ ہو گا ۔
ہم لو گ گھر پہنچے تو میرے دوستو ں نے میرے والدین کو بتایا کہ اس بوڑھے شخص نے دلیری سے مجھے ڈوبنے سے بچالیا تھا جبکہ وہا ں کنا رے پر مو جو د ہٹے کٹے اور جوان ملاحوں نے میرے دوستو ں کے شور مچانے پر کہا تھا کہ پہلے وہ انہیں ان کا نذرانہ دیں اس کے بعد وہ پانی میں چھلا نگ لگائیں گے ۔ میں اپنے والدین کی اکلو تی اولا د ہونے کی وجہ سے ان کا بہت چہیتاتھا ۔ میرے اس طر ح بچ جانے پر وہ بوڑھے ملا ح کے انتہا ئی شکرگزار تھے ۔ اس بوڑھے کی کو شش سے میری جسمانی حالت بحال ہو گئی ۔ اس نے میرے گھر والو ں کو کہا کہ وہ میرے لیے کڑوا تیل گرم کر کے لائیں ۔ پھر اس نے نیم گرم تیل سے مجھے کبھی الٹا اور کبھی سیدھا لٹا کر میرے جسم کے مختلف حصو ں کی ما لش کی اور قریباً ایک گھنٹے بعد اس نے مجھے بالکل پہلے کی طرح تا زہ دم کردیا ۔ میرے والد صاحب نے نذرانے اورتشکر کے طور پر اسے پانچ سو روپے پیش کئے ۔ جو آج کے پانچ ہزار روپے کے برا بر ہو تے ہیں لیکن اس نے بِدک کر ہا تھ باندھ دئیے اور ہم سے التجا کی کہ خدا کے لیے پیسے میرے نزدیک بھی نہ لا ﺅ ،مجھے ان سے وحشت ہوتی ہے ۔ اس کے انکا ر کرنے کا اندا زکچھ ایسا اچانک اور بے ساختہ تھا کہ ہم حیران رہ گئے ۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے ۔
ہم نے اس سے پو چھا کہ آخر وہ کیو ں پیسے لینے سے اتنا خوفزدہ ہے ۔ پہلے تو وہ رسمی باتوں سے ٹالتا رہا پھر اس نے غمگین لہجے میں یہ کہا نی سنائی جو میں اپنے الفا ظ میں بیان کر تا ہو ں ۔ اس ملا ح کا ایک جوان بیٹا تھا اور دوسرے ملا حو ں کی طر ح اس کا بھی یہی کا م تھا کہ وہ لو گو ں کی مجبو ری سے فائدہ اٹھا تا اور جب کبھی کسی کو بچانے کا معاملہ ہوتا تو وہ بھی مدد طلب کرنےوالے سے پہلے پیسے طلب کر تا۔ اگر کوئی بد قسمت اسے منہ مانگی رقم ادا نہ کر سکتا تو وہ اس کی مدد سے انکار کر دیتا ۔ اس نے کئی ڈوبنے والو ں کی لا شیں کثیر معاوضہ پیشگی وصول کر کے نکالی تھیں ۔ اس ملا ح کا جوان بیٹا کشتی میں مسا فروں کو لے کر جا یا کر تا تھا ۔ ایک روزدریا میں اچانک طغیا نی آگئی اور کشتی الٹ گئی ۔ خد ا کا کرنا دیکھئے کہ وہ لو گ جو تیراکی نہیں جانتے تھے وہ تو کسی نہ کسی طرح کنا رے سے لگ گئے لیکن ملاح کا بیٹا ڈوب گیا۔ دوسرے روز اس کی لا ش ملی ۔
اس حادثے نے اس بوڑھے ملا ح کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ اسے بار بار یہی خیا ل آتا تھا کہ اس کا بیٹا بہترین تیراک اور ملا حو ں کی اولا د ہونے کے با وجود کیو ں ڈوب گیا؟ اس کے دل کو ایک خلش سی لگی رہتی تھی۔ ایک روز وہ یہ مسئلہ لے کر ایک بز ر گ کے پا س گیا۔ جس نے اسے بتا یا کہ اصل میں قدرت نے اسے اس طر ح اس کے گنا ہو ں کی سزا دی ہے اور بتایا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو بڑے بڑے تیراکو ں کو ڈبو دیتا ہے اور اگر چاہے تو تیراکی بالکل نہ جاننے والو ں کو بچالیتا ہے ۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے اس کی بوڑھی آنکھو ں سے آنسو بہنے لگے ۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ” یہ بات نہیں کہ میں یا میری بیوی اولا د کو پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تھے لیکن خدا نے مجھے پھر اولا د نہ دی ۔ مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ دوسری شا دی کر لو لیکن میں سمجھ گیا کہ قدرت کی طر ف سے مجھے سزا مل رہی ہے۔اس وقت سے آج تک میں اپنے انہی گنا ہو ں کا کفا را ادا کر رہا ہوں ۔ میں دن را ت دریا پرہی رہتا ہو ں تا کہ کسی کو بھی میری مدد کی ضرورت ہو تو میں اس کے کام آسکوں ۔ مجھے اس طر ح ایک سکون سا رہتا ہے اورمیرا دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ معا ف کر دے گا “ .... اوروہ چلا گیا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں