ہمارے ہاں مائیں اس عمر کے بچوں سے مختلف توقعات وابستہ کرلیتی ہیں۔ ان کے نزدیک دوسروں کے بچے سلجھے ہوئے اور اچھے تمیز والے ہوتے ہیں اور ان کی اولاد میں بدتمیزی کا عنصرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے یہ نظر یہ قطعی درست نہیں
’’دانیال بیٹا کھانا دھیان سے کھانا ہے اور مہمانوں کے سامنے کسی قسم کی بدتمیزی نہیں کرنی۔ فرخندہ بیگم نے اپنے دو سالہ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ آج ان کے گھر مہمانوں کی آمد متوقع تھی اور وہ کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔
دانیال اپنی امی کی بات سننے کے بعد باہر کھیلنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ کھانا پکانے سے فارغ ہوئیں تو دانیال کو باہر دیکھ کر اس پر برس پڑیں۔ ’’ابھی میں نے سارا گھر صاف کیا ہے اور تم نے میری ساری محنت پر پانی ڈال دیا‘‘ تڑاخ تڑاخ کی آواز سنائی دی‘ فرخندہ بیگم نے دو تھپڑ اس کی گال پر جڑ دئیے‘‘ مصیبت ڈالی ہوئی ہے تم نے۔ کہیں سکون نہیں لینے دیتے۔ کبھی یہ چیز چھیڑ کبھی وہ چیز۔ سارے کمرے کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہو‘ میں کوئی مشین ہوں جو سارا دن پاگلوں کی طرح کام کرتی رہوں۔ دو گھڑی جو اس بچے نے آرام کرنے دیا ہو۔ ابھی مہمان آجائیں تو کتنی بے عزتی ہوگی میری کہ گھر تک صاف نہیں رکھ سکتی‘‘
فرخندہ بیگم اپنی دھن میں بولی جارہی تھی اور دانیال بدستور رو رہا تھا ’’چپ کرجاؤ ذرا سی بھی آواز نکالی تو جان نکال دوں گی تمہاری‘‘
کمرے صحیح کرنے کے بعد وہ دوبارہ دانیال کی جانب متوجہ ہوئیں اور اسے چپ کرانے لگیں دانیال سہم کر چپ ہوگیا۔
ایسا منظر تقریباً ہر اس گھر میں دیکھنے کوملتا ہے جہاں چھوٹے بچے ہوں اور ماؤں کیلئے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ان کی تربیت کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور بچے سارا دن اپنی ماؤں کو تنگ کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ خاص طور پر ابتدائی ادوار میں بچوں کو سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں سمجھنے کیلئے بھی ضروری ہوتے ہیں جو کہ ہمارے ہاں نظرانداز کردئیے جاتے ہیں۔ دراصل جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور اپنے اردگرد موجود چیزوں کودیکھتا ہے تو وہ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں ہاتھ میں پکڑ کر اچھی طرح دیکھتا ہے تاکہ ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرسکے لیکن مائیں بچوں کو کسی چیز کو ہاتھ لگانے سے منع کردیتی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو مائیں اس نظرئیے کے تحت کام کرتی ہیں کہ کہیں یہ چیزیں خراب نہ ہوجائیں یا ان سے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے۔ لیکن ایسا کرنے سے بچوں میں خوداعتمادی پیدا نہیں ہوتی اور وہ کچھ بھی کھانے سے پہلے والدین کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ سب سے زیادہ تمیز والا اور سلجھا ہوا ہواس کوشش میں وہ بچوں کو مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کر کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتی ہیں لیکن پس پردہ وہ بچوں کی شخصیت بگاڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
عموماً بچے پہلے سال میں یہ سیکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن ان کا دماغ صرف عمر کے مطابق ہی کام کرسکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں مائیں اس عمر کے بچوں سے مختلف توقعات وابستہ کرلیتی ہیں۔ ان کے نزدیک دوسروں کے بچے سلجھے ہوئے اور اچھے تمیز والے ہوتے ہیں اور ان کی اولاد میں بدتمیزی کا عنصرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے یہ نظر یہ قطعی درست نہیں کیونکہ آپ ایک چھوٹے سے پودے سے کیسے توقع کرسکتی ہیں کہ اس میں پھول بھی لگ جائیں۔
بچوں پر بیجا سختی اور مارپیٹ :بچوں کے سیکھنے سمجھنے کا عرصہ تقریباً اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ مکمل طور پر باشعور نہیں ہوجاتے‘ اس لیے عمر اور دماغی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی توقعات کا تعین کرنا چاہیے۔ ابتدائی دو تین سالوں میں بچہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت سی باتیں اور عادتیں سیکھتا ہے اپنے گھروالوں کا لہجہ ان کا رہن سہن غور سے دیکھتا ہے اور ان جیسی حرکتیں اور باتیں کرتا ہے۔ تین سال کی عمر پر وہ زبان پر عبور حاصل کرلیتا ہے ان ادوار میں بچوں کو پیار محبت سے اچھی باتیں سکھانی چاہئیں اور ان کے فوائد اور نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے کیونکہ عمر کے ان حصوں میں بچہ جو چیز اپنا لیتا ہے وہ مستقبل میں اس کی عادت بن کر ابھرتی ہے۔ اس عمر میں بچوں پر بیجا سختی اور مارپیٹ انہیں ضدی اور ڈھیٹ بناسکتی ہے۔ لہٰذا بچوں سے نرمی اور شفقت سے پیش آناچاہیے اور اگر وہ کوئی غلط کام بھی کرتے ہیں تو انہیں آرام سے سمجھائیں اور اس کے نقصانات بھی ان کے گوش گزار کریں۔
آپ آہستہ آہستہ بچے کی ذہنی صلاحیت دیکھتے ہوئے دنیا سے آگاہ کریں‘ محفل کے آداب‘ مذہب سے لگاؤ‘ دوسروں سے شیئر کرنا سکھائیں‘ عموماً بچے کھلونوں میں دوسروں سے شیئرنگ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ بچے کی تربیت میں اخلاق‘ خداترسی شامل کرتی ہیں یا نہیں۔ جب بچہ سکول جانے کے قابل ہو تو ان میں احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں اور سزا کا تصور بھی دیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب بچے ماؤں کی باتیں نہیں سنتے تو وہ انہیں ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں ایسا کرنے سے بچے کے ذہن میں وہ چیز خوف کی صورت میں نقش ہوجاتی ہے اور وہ تاعمر اس چیز سے اور اس کے نام سے خوف محسوس کرتا ہے بعض اوقات یہ ڈر اور خوف بچے کو بزدل بنانے کا بھی باعث بنتے ہیں اور بچے کوئی بھی کام کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت کافی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو ڈسپلن سکھانا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کمزور بنادینا یہ معیوب بات ہے اس طرح نہ صرف بچوں کی شخصیت متاثرہوتی ہے بلکہ مستقبل میں والدین کیلئے بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
عام طور پر بچے ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا جائے لیکن اگر آپ بچے کو اس کے نقصانات سے آگاہ کردیں تو وہ ایسا کرنے سے رک جائیگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں