ہر قسم کے علاج کیے مگر تکلیف میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور میںنے بارہ سال میں بہت سے علاج کیے۔ آخر ایک ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ کراچی چھوڑ کر پنجاب چلے جاؤ۔ لہٰذا میں ملازمت چھوڑ کر لاہور آگیا مگر دمہ کی تکلیف بدستور رہی
(فاران ارشد بھٹی‘ خانگڑھ)
ہماری ہمسائی اماں جنت بہت مزےمزے کی باتیں کرتی ہے اور اپنے تجربے بتاتی ہے۔ ایک دن میں نے کہا اماں ان نائیوں کے پاس ایک کالی سی مرہم ہوتی ہے جو پھوڑے پھنسی اور زخم کے لیے لاجواب ہے لیکن یہ لوگ نسخہ کسی کو بتاتے نہیں ہیں۔ اس بات پر اماں نے اپنی بات بتائی‘ بیٹا ایسا ہے ایک دفعہ میرے پوتے کو پھوڑا نکل آیا‘ مجھے کسی نے بتایا اسٹیشن کی طرف ایک آدمی رہتا ہے‘ افضل اس کا نام ہے اس کے پاس مرہم ہوتی ہے تم لے آؤ۔ میں افضل کو ذاتی طور پر جانتی تھی میں اس کے گھر پہنچ گئی اور اس سے مرہم کیلئے کہا‘ قیمت بھی پوچھی‘ اس نے قیمت بھی بتادی اور کہا اماں کل ساڑھے آٹھ بجے آجانا‘ میں بناچکا ہونگا تم لے جانا اب صبح آٹھ بجے اس کے گھر پہنچ گئی۔ اس نے مجھے دیکھ کر برا سا منہ بنایا کہا اماں میں نے تمہیں ساڑھے آٹھ کا ٹائم دیا تھا‘ تم آٹھ بجے ہی آگئی ہو۔ میں نے کہا ہاں بیٹا! جیسے مجھے ٹائم ملا میں آگئی ہوں وہ بولا نہیں اماں تم شام کو ساڑھے پانچ بجے آنا جب شام ہوئی میں پانچ بجے ہی پہنچ گئی۔ مجھےدیکھ کر بہت جزبز ہوا۔ بولا اماں مجھے مرہم بنانے کا وقت نہیں ملا تم کل بارہ بجے آجانا‘ اس کی باتوں سے مجھے معلوم ہوا وہ میرے سامنے مرہم بنانا نہیں چاہتا لیکن اب مجھے بھی ضد ہوگئی کہ ضرور مرہم کا نسخہ دیکھ کر جاؤنگی۔ میں پونے بارہ بجے پہنچ گئی مجھے وقت سے پہلے دیکھ کر پھر شش و پنج میں پڑگیا‘ اماں! تو جلدی کیوں آجاتی ہو اب تو مجھے بھی چڑھ غصہ گیا میں نے کہا یہ کیا تماشہ تم نے بنایا ہوا ہے؟ میں بوڑھی عورت ہوں! مجھے کتنے چکر لگوا رہے ہو‘ میں نے تمہیں پیسے دینے ہیں مفت میں دوا نہیں لینی‘ اب مجھے ایک ہی وقت بتاؤ‘ پھر اس نے مجھے شام پانچ بجے کا ٹائم دے دیا۔ میں پھر وقت سے بیس منٹ پہلے پہنچ گئی۔ مجھے دیکھ کر پیچ و تاب کھانے لگا۔ اماں پھر آگئی ہو! میں بھی غصے سے بولی مجھے مجبوری ہے‘ دوا کی سخت ضرورت ہے اسی لیے وقت سے پہلے آجاتی ہوں‘ میرا وقت سے پہلے آنا تجھے کیا نقصان پہنچاتا ہے؟ اب تو بیٹھی ہوں ابھی اس وقت دوائی بناؤ میں لے کر جاؤنگی اور تم میرے سامنے اس لیے نہیں بناتے کہ کہیں نسخہ میرے ہاتھ نہ لگ جائے تیرا کیا خیال میں بنابنا کر بیچوں گی؟ اور تیری روزی کو لات ماروں گی؟ جب میں نے اتنی سنائیں تو پھر معافی مانگنے لگا اور کہا نہیں نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں میں اب آپ کے سامنے بناتا ہوں۔ میں نے کہا بناؤ لیکن بات وہی تھی تم میرے سامنے بنانا نہیں چاہتے تھے اب میں دوا بنتا دیکھوں گی بھی سہی اور دوسروں کو بتاؤں گی بھی ضرور۔میں نے جب خوب شرمندہ کیا تو میرے سامنے بنانا شروع ہوگیا۔ نسخہ حاضر خدمت ہے:۔ دیسی چاول ایک چھٹانک‘ گُڑ ایک چھٹانک‘ نمک ایک چمچ چائے والا‘ پھٹکڑی ایک چمچ۔ ترکیب: چاول ابال لیں اس میں نمک اور گُڑ ڈال دیں جب خوب گل جائے تو اس کو گھوٹ لیں۔ مرہم تیار ہے۔ نیم گرم کی ٹکیہ بنالیں اور اس کے اوپر پھٹکڑی چھڑک دیں اور پھوڑے کے منہ پر باندھ دیں۔ واللہ اعلم یہ وہی نائیوں والی مرہم ہے یا کوئی اور نسخہ ہے۔
سو سے زیادہ مریضوں پر آزمایا دمہ کا کامیاب نسخہ
(محمد ممشاد قدوسی‘ لاہور)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں آپ کو اپنی ذات پر بیتی ہوئی کہانی تحریر کررہا ہوں۔ میں کراچی میں ایک کپڑے کی مل میں اکاؤنٹنٹ ملازم تھا‘ کراچی میں مجھ کو دمہ کی تکلیف ہوگئی‘ ہر قسم کے علاج کیے مگر تکلیف میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور میںنے بارہ سال میں بہت سے علاج کیے۔ آخر ایک ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ کراچی چھوڑ کر پنجاب چلے جاؤ۔ لہٰذا میں ملازمت چھوڑ کر لاہور آگیا مگر دمہ کی تکلیف بدستور رہی۔ ہندوستان جاکر بھی بہت علاج کیے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ میں تکلیف میں بدستور مبتلا رہا۔ اتفاق سے میرے ایک دوست چوہدری ریاض صاحب جو کہ اس مرض میں مبتلا تھے ان کو معلوم ہوا تو وہ تشریف لائے۔ مجھ کو اپنی صحت کے بارے میں بتایا ان کو بھی دمہ جیسا نامراد مرض تھا اور انہوں نے ایک سنیاسی کے بتائے ہوئے نسخہ پر عمل کیا اور اس کے علاج سے بالکل ٹھیک ہوگئے اور میں نے یہی عمل کیا تو میں بھی بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں‘ دمہ کی تکلیف بالکل ختم ہوگئی۔ خدا کا شکر ہے کہ دمہ کی تکلیف تقریباً دس سال سے نہیں ہے۔
نسخہ یہ ہے:۔ سیاہ چونچ اور سیاہ پنجوں والا بگلا جو کہ عام مل جاتا ہے اس کو لیکر حلال کرکے اس کی یخنی بنا کر ایک کپ رات کو پی لیں تقربیاً چھ گھنٹہ تک کھانسی نہیں آئیگی اس طرح صبح کو پی لیں اور یہ عمل دن میں چار بار کریں۔ بلغم فوری خارج ہوجائے گا اور انشاء اللہ دو ہفتہ میں دمہ سے بالکل نجات مل جائے گی۔ میں نے یہ بگلے شکار کرکے تقریباً 100 سے زیادہ مریضوں کو دئیے اللہ کے حکم سے سب دمہ سے نجات پاگئے اور یہ علاج انتہائی کامیاب ہے۔ یہ بگلا بازار سے نہیں ملتا صرف شکار ہی کیا جاتا ہے۔ عموماً تالابوں میں ہوتا ہے۔
مرہم سکون سے سکون ہی سکون
(ابوذر توفیق)
میری بیٹی کے گالوں پر دھدری سی بن گئی‘ میں نے مرہم سکون صرف دو یا تین مرتبہ لگائی تو نشان بھی ختم ہوگیا۔ پھر میرے سکول کی آیا نے اپنے پاؤں اور ہتھیلیوں کے زخموں کا ذکر کیا جو نہ تو خارش ہے نہ پھوڑے پھنسیاں کسی موسم میں زیادہ ہوجاتی ہیں اور کبھی کم۔ میں نے اسے ایک چھوٹی ڈبی میں مرہم سکون دی‘ اسے نام معلوم نہ تھا‘ اگلی صبح اس نے مجھے بتایا باجی آپ کی دوائی میں نے رات کو لگائی بہت سکون ملا۔
محترم حکیم صاحب !مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اللہ تیری شان ہے۔ آپ نے کیا سوچ کر نام رکھا ہوگا۔ پھر اس آیا نے دوسری کو بتایا اس کے بچے کے ہاتھوں اور سر پر پھنسیاں تھیں میں نے سوچا کہ مرہم سکون تو اب بہت کم رہ گئی ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کیوں نہ اس میں تھوڑی سی پٹرولیم جیل ملالوں اور تھوڑی سی کھرل کی ہوئی پھٹکڑی ایک دو لوگوں کو آسانی سے دے سکوں گی۔ میں نے یہ مکسچر تیار کرکے اللہ کا نام لے کر دے دیا‘ وہ گھر گئی اپنے بچے کو لگایا‘ اس کی نند گھر آئی ہوئی تھی اس کے سر پر بھی پھنسیاں تھیں‘ اس نے بھی لگایا دونوں کو فائدہ ہوا۔محترم حکیم صاحب! میرا پختہ ایمان ہے کہ میں جب تک اللہ کے لیے یہ خدمت کرتی رہوں گی خاک میں بھی شفاء ہوجائے گی کیونکہ بعض اوقات میرے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ زیادہ دوا خرید سکوں۔ غریب لوگوں سے پیسے لینے کو بالکل بھی دل نہیں چاہتا۔ میری اولاد اور میرے خاوندکی کمائی میں برکت کی دعا فرمائیں۔جب میں نے آپ کو یہ مرہم سکون میںملاوٹ والی بات بتائی تو ڈر رہی تھی۔ حکیم صاحب کوئی اور شخص یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا کہ اس کوکوئی اس طرح کا نقصان پہنچائے۔ اللہ آپ کو لمبی عمرعطا فرمائے۔ آپ سخی بنے اور اس کو عام کرنے کی اجازت دی اور لکھنے کا حکم دیا کہ لوگ بھی سخی بنیں اور فیض عام ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں