(رافعہ حسین‘ خیرپور میرس‘ سندھ)
اسلام کا ماننا انسان کو ’’مسلمان‘‘ کے نام سے ایک وقار بخشتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے لباس میں اسلامی تعلیم کو ترجیح دیں تو وہ لباس بھی ہمیں دوسروں سے منفرد بنا کر ایک وقار اور یہ اعتماد دیتا ہے کہ چاہے لوگ کچھ بھی کہیں‘ میں جانتی ہو کہ میرا پہننا اوڑھنا بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ اسلام ہمیں کسی بھی حال میں کبھی پیچھے نہیں رکھتا بلکہ صرف اسلام ہی ہے جس نے ہمیں آخری وقت تک کے تمام حالات سے باخبر رکھا ہے۔اسلام جہاں ہمیں تمام معاملات میں سب سے بہترین رہنے کی رہنمائی دیتا ہے وہیں ہمیں لباس کا سب سےبہترین انداز اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کا سلیقہ بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جو خواتین کو ایک مقام اور احترام سے نوازتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حجاب جیسی نعمت سے نوازا گیا۔ اللہ نے خود کو نور کے پردوں میں ڈھکا ہوا ہے اور اپنے گھر (کعبۃ اللہ) کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا ہے پھر انسان کو بھی لباس جیسی نعمت سے نوازا اور تمام مخلوقات میں افضل کیا۔
لیکن۔۔۔! عورت کو اللہ نے حجاب کے روپ میں ایک احترام بخشا ہے‘ عزت دی ہے۔ کاش! کہ ہم اپنے مقام کو پہچان سکیں اور خود کو اس عزت سے محروم نہ کریں جو حجاب کی شکل میں ہمیں عطا ہوئی۔ حجاب خود ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو باوقار ہونے کا احساس بھی دیتا ہے اور حق بھی۔
اس لیے ہماری کوشش ہو کہ عبایہ (برقعہ) کا اہتمام کریں۔ کوشش کریں کہ آپ کا عبایہ سیاہ رنگ کا ہو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیاہ رنگ کو پردے کی نسبت غلاف کعبہ سے ہے اور دوسرا یہ کہ سیاہ رنگ ’’وقار‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
عبایہ میں غیرضروری اسیسریز سے گریز کریں۔ پہلی بات تو یہ کہ دین اسلام میں خواتین کو گھر سے باہر چوڑیاں یا ایسی چیزیں پہننے سے منع فرمایا گیا ہے جن سے آس پاس کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کس طرح کی اسیسریز کا استعمال رکھتی ہیں اپنے لباس میں۔ یہ بات آپ کی شخصیت کو بناتی بھی ہیں اور بگاڑتی بھی ہیں۔
اس لیے پھولوں یا موتی نگینوں والی سکارف پنز کی جگہ کچھ سوبر قسم کے سکارف پن یا پھر بٹن کا استعمال کریں۔
ماہرین فیشن کی اندھی فرمانبرداری سے بچیں! اور سوچیں کہ جن لوگوں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا نہ ہی آپ کبھی ان سے ملے پھر وہ آپ کو کیسے بتاسکتے ہیں کہ آپ کے لیے لباس کا کون سا انداز سب سے موزوں ہے!
یقین جانیے! میرے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن خواتین نے ہمیشہ ہر معاملے میں اور ہر نئے فیشن ٹرینڈ کو ترجیح دی‘ آج وہ نفسیاتی مریضہ ہیں۔ آپ چاہیں تو خود آزما کر دیکھ لیں اور ان نفسیاتی الجھنوں کے شکار لوگوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان کے پاس سب کچھ ہوگا مگر پھر بھی کچھ نہیں ہوگا۔ بظاہر انہیں شاپنگ سے خوشی ہوتی ہے اور بعد میں پھر سے بے چین رہنے لگتے ہیں۔
ان میں حسد پیدا ہوجاتا ہے اور یہ حسد انہیں ہروقت اس پریشانی میں مبتلا رکھتا ہے کہ کہیں کوئی دوسرا مجھ سے بہتر تو نہیں۔ ان کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں سادگی پسند تھی اور آج حد سے زیادہ سنگھار کرتے ہیں اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
آج فیشن نے ہمیں بہت بے سکون کیا ہوا ہے۔ کبھی کہتے ہیں دوپٹہ اچھا لگتا ہے کبھی کہتے ہیں دوپٹہ اچھا نہیں لگتا۔ کبھی کہتے ہیں چمک دھمک زیادہ تو خوبصورتی زیادہ۔۔۔ کبھی کہتے ہیں سادہ کُرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔
دراصل نئے نئے ٹرینڈز صرف اس لیے آتے ہیں کہ معلوم ہوسکے کہ بہترین لباس آخر ہے کونسا؟
لیکن افسوس ہے کہ ہماری زندگی کی آدھی فکر یہی رہ گئی ہے کہ پتہ نہیں اب یہ لباس ان ہے یا آؤٹ۔۔۔
یہی فکر ہمارا اعتماد چھین لیتی ہے اور آہستہ آہستہ ڈیپریشن ہمارے سوچنے کی صلاحیت کو دبوچ لیتا ہے اور فیشن کی مانتے مانتے آخر ہمارے فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔
یوں ہماری شخصیت ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایک ٹھنڈی سانس لیں اور آج سے اپنا فیصلہ آپ خود کریں۔ آپ خود ایک ٹرینڈ سیٹر بنیں اور ڈیزائنر خود بنیں اور ایسے فیشن کا انتخاب کریں جو لازوال ہو جو آپ کو ہر کسی کا فالور نہیں بلکہ صرف ایک اللہ اور اس کے دین کا فالور بنائے۔ کیونکہ اللہ جمیل ہے! اور اس کے بنائے فیشن سے زیادہ خوبصورت فیشن اور کوئی نہیں ہوسکتا اور شرعی لباس سے زیادہ پروقار آپ کو اور کوئی لباس نہیں بناسکتا۔ اس لیے فیشن کے نام پر ٹائٹس سے خدارا بچیں! تنگ کپڑے آپ کی اچھی خاصی شخصیت کو بھی مٹا دیتے ہیں اور شرعی لباس کی طرف آئیں! وہ لباس جو آپ کو وسعت و حیثیت کے لحاظ سے باسلیقہ اور آپ کی تہذیب اور زینت و جمال کا مظہر ہو جس میں نفاست ہو‘ مگر حد سے زیادہ نہ ہو۔ چمک دمک بھی حد سے زیادہ نہ ہو اور سادگی بھی حد سے زیادہ نہ ہو۔ بس نارمل رہیں اور نارمل رہیں!ایک مشورہ جو میرا سالوں سے آزمودہ ہے سچی نیت کے ساتھ تاثیر جُڑجاتی ہے۔کپڑے خریدتے وقت شرعی احکام کو سامنے رکھیں اور سلواتے وقت صرف یہ خیال رکھیں کہ یہ کپڑے نماز اور وضو کے لحاظ سے پرسکون ہوں اگر یہ لباس سادہ بھی ہوگا پھر بھی آپ کو سب میں نمایاں کرکے آپ کی شخصیت کو ایک رونق بخشے گا۔ انشاء اللہ اس کے علاوہ جو لباس آپ کو نماز میں سکون دے گا اس میں آپ کو کبھی الجھن نہیں ہوگی۔
آخری بات: فیشن کی سب سے بڑی مار! اونچی ہیل۔۔۔!!!
قدیم زمانے میں جن گھڑ سواروں کو گھوڑے سے اترنے میں مشکل پیش آتی تھی اور ان کا توازن برقرار نہیں رہ پاتا تھا اور گھوڑے پر چڑھنے میں بھی چھوٹے قد کے باعث جنہیں مشکل درپیش تھی انہوں نے اپنے جوتوں میں لکڑی کا ایک دو انچ لمبا اور چوڑا ٹکڑا لگانا شروع کیا جس سے دوران جنگ بھی وہ گھوڑے سے فوراً اترتے اور ان کا توازن بھی برقرار رہتا۔ یہ مسلمان مجاہدین تھے جب انگریزوں نے ان کے (گھڑسواروں) پیروں میں ایسے انوکھے جوتے دیکھے تو انہوں نے بھی اپنے جوتوں میں لکڑی کے ٹکڑے لگانا شروع کیے۔ انگریز ان جوتوں پر دیوانے ہوگئے تھے اور آہستہ آہستہ ان میں یہ جوتے عام ہوئے اور انہوں نے لکڑی کے ٹکڑوں کو مختلف لمبائی میں جوڑنا شروع کیا۔ یوں اونچی ہیلز ہر دور کے فیشن کا حصہ رہی ہے۔ کیا یہ ہمارے وقار کا مظہر بن سکتی ہے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں