ہر طرف خوشیاں‘ چہل پہل‘ ہنسی مذاق‘ زرق برق لباس ایک بہت زیادہ مالدار اور امیر شخص کی شادی سٹیج پر دلہن‘ دولہا اور دلہن کے والد والدہ براجمان ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنی باریک نظر سے محسوس کیا کہ ہرطرف تو خوشیوں کا سامان لیکن سٹیج پر اداسی افسردگی اور مایوسی کی کیفیت ہے‘ ولیمہ اپنے آخری مراحل میں تھا اور کھانے کے کھلنے کا اعلان ہونے ہی والا تھا دولہا نے سٹیج پر کھڑے ہوکر ایک بلند آواز سے سارے باراتیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا‘ ان کی گرج دار آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ ہونےپرمجبور کیا۔ وہ بولے: میری بات غور سے سنو‘ سب ان کی طرف متوجہ ہوئے‘ خاموشی بھی خاموش ہوگئی‘ وقت تھم گیا‘ ان کے رویے‘ لہجے اور انداز نے مسکراہٹیں ایک پل میں چھین لیں‘ ان کا پراسرار انداز تھا ہی ایسا جس نے سب مجمع کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا۔ اپنی والدہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: میں والدہ کو بیچنا چاہتا ہوں کوئی ہے اس بوڑھی کا خریدار؟ ان کی آواز کیا تھی‘ باراتیوں پر بجلی گرگئی‘ مہمانوں کے انگ انگ اور روئیں روئیں میں سنسناہٹ دوڑنے لگی‘ چند لمحوں کےبعد پھر کہنے لگے: کوئی ہے جو اس بوڑھی کا خریدار ہو؟ یعنی میری والدہ کا۔ تین دفعہ اس اعلان کو دہرایا اور تین دفعہ کے بعد کہنے لگے: آپ بھی حیران ہونگے۔ باراتیوں کو بولنے کا موقع اس لیے نہ ملا کہ سارا مجمع حیرت میں ایسا ڈوبا کہ ان کی زبانوں پر تالے لگ گئے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ پھر خود ہی دولہا بولے: دراصل ہوا یہ کہ پہلی ملاقات میں میری بیوی نے مجھ سے ایک سوال کیا‘ کہ کیا مجھے آپ کی ماں کے ساتھ رہنا ہوگا؟ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں سنگدلی‘ سفاکی اور بے دردی کا ایک مکمل عکس تھا میں خاموش ہوکر کہنے لگا: کیا مطلب؟ کہنے لگی: مطلب واضح ہے میں جوان ہوں‘ آپ جوان ہیں جوانی کی اپنی امنگیں‘ آسیں اور امیدیں ہوتی ہیں۔ ہمیشہ سنا یہ ہے کہ بوڑھے اپنے بڑھاپے کی تدبیریں اور تجربے بتاتے بتاتے جوانی کے مزے اور انجوائمنٹ کو خراب کردیتے ہیں۔ لہٰذا میں تو آپ کے ساتھ رہنا چاہوں گی لیکن ساس کے بغیر اور دوسرے لفظوں میں آپ میرے جیون ساتھی ہیں میں آپ سے پیار کرتی ہوں اور احترام کرتی ہوں لیکن اس بوڑھی کے ساتھ میں کبھی نہ رہ سکوں گی۔ میرا اس کے گھونگھٹ کی طرف بڑھا ہاتھ وہیں رک گیا‘ ساری رات کشمکش‘ بے چینی‘ بے کلی‘ بے قراری میں گزری‘ اب چونکہ میں نے شادی کرلی ہے اور ہمارے ہاں طلاق دینا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں ہوں‘ میری بیوی ہو‘ ہم ہوں ہماری خوشیاں ہوں‘ پیار ہو اور ہماری پیاری نظریں ہوں‘ دل ہو اور دلربائی ہو‘ لمحے ہوں اور کیفیات ہوں۔ لہٰذا میرے دل میں ایک پروگرام آیا کہ اس بوڑھی کو گھر سےنکال دوں تو کہاں جائے گی‘ ساری عمر مجھے دونوں ہاتھوں سے پالا‘ آج کے دن کی آس میں کہ بیٹے کی شادی سے ساری زندگی کے دکھ درد دور ہوجائیں گے۔ سوچا کیوں نہ اس کو فروخت کردوں‘ وہ پیسے اپنی بیوی کو دوں گا وہ انگوٹھی بنوا کر اپنے ہاتھ میں سجائے یا چوڑیاں بنا کر اپنی کلائی میں پہنے اور اس کی چھن چھن اس کے دل کی دھڑکن کو سدا زندہ رکھے گی‘ یوں اس بوڑھی کو چلو کوئی ایک یا دو وقت کھانا تو کھلا دے گا‘ لہٰذا میں اس بوڑھی کی بولی لگا رہا ہوں پھر اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا اور اپنی انگلی ماں کے سر پر رکھ کر کہنے لگا کوئی سو روپے میں خریدے گا‘ پانچ سو میں لے گا‘ اپنی بولی کو بڑھاتے ہوئے مجمع کی طرف نظر کی ہزار روپے‘ پانچ ہزار‘ دس ہزار‘ ابھی اس کے لفظ آگے بڑھنے ہی تھے کہ مجمع میں سے ایک بڑی عمر کے فرد اٹھے اور کہنے لگے ہاں میں تیار ہوں دس ہزار دینے پر‘ اور وہ فرد کون تھے؟ اس بوڑھی کے سگے بھائی‘ اور سٹیج پر آئے اور اپنی بہن کا ہاتھ تھاما اور سٹیج سے نیچے اترے اور ہال سےباہر نکل گئے۔ کھانے دھرے کے دھرےرہ گئے‘ مسکراہٹوں نے کفن پہن لیے‘ قہقہے دفن ہوگئے‘ چہل پہل پر خزاں آگئی‘ آسیں امنگیں چاہتیں اور امیدیں سب مٹی میں مل گئیں اس سے زیادہ حیرت یہ تھی کہ دلہن بالکل مطمئن اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اطمینان سے سٹیج پر بیٹھی سارے مجمع کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی دوسرے لفظوں میں اسے ذلت یا خفت محسوس نہ ہوئی دراصل یہ اس کی فتح تھی‘ کامرانی اور شادمانی تھی‘ دل دماغ کی راحت تھی۔ قارئین! یہ ایک سچی کہانی ہے‘ آنکھوں دیکھا واقعہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا‘ مجھے آپ سے کچھ اور باتیں بھی کرنی ہیں‘ آخر وہ ساس شیرنی کیوں بن جاتی ہے بلکہ بپھری شیرنی جب اس کے سامنے بہو ہو‘ اور وہی ساس ممتا کا روپ کیوں دھار لیتی ہے جب اس کے سامنے بیٹی ہو‘ وہی ساس بہو کا ایک ایک لقمہ اور ایک ایک قدم اٹھا ہوا ایک ایک سانس گنتی ہے اور وہی ساس اپنی بیٹی کیلئے فدا فدا ہوتی ہے‘ اور اش اش کرتی ہے‘ سنا ہے سسرالی معاشرہ ظالم ہوتا ہے‘ مجھے ایک ساس کہنے لگی: میں نے اپنی ہر بہو کو اپنی شادی سے موازنہ کرکے گھر میں بسایا ہے‘ جب میں جوان تھی اور اس گھر میں آئی تھی اس وقت میری ساس زندہ تھی‘ میری ساس بھی روایتی ساس تھی۔ اس نے میرے ساتھ وہی لہجہ‘ وہی رویہ‘ وہی سختی اور وہی انداز اختیار کیا۔ میں سہتی رہی‘ سنتی رہی لیکن ادب احترام کو میں نے کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ مجھے بے شمار بیماریاں اس کڑے ماحول کی وجہ سے لگ گئیں‘ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہمیشہ اپنی بہو کے ساتھ ایسا نہیں کروں گی‘ ایک دانشور نے بات لکھی ہے سیلف میڈ لوگ دو میں سے ایک ہوجاتے ہیں یا بہت زیادہ نرم یا بہت زیادہ ظالم‘ کیونکہ معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور رویوں نے انہیں بہت کچھ سکھایا ہوتا ہے اب یہی ہے یا تو وہ انتقام لے یا پھر محبت رواداری کا اپنے ماتحتوں اور گھر والوں کے ساتھ سلوک کریں۔ ایک یہ بہو ہے جس نے ساس کو فروخت کرادیا اور ایک وہ ساس ہے جس نے بیٹی کو یعنی بہو کو ذلیل اور رسوا کرنا اپنی زندگی کا مشن اور مقصد سمجھا اور ایک وہ ساس ہے جسے اس کی ساس نے ذلیل کیا لیکن اس نے اپنی بہوؤں کو رسوا اور ذلیل نہیں کیا۔ وہ ہروقت یہی کہتی تھی کوئی حرج نہیں ابھی ان کے سونے‘ کھانے‘ پہننے‘ سیروتفریح کرنے اور ہنسی مذاق کرنے کے دن ہیں یہی وقت میرے اوپر بھی آیا تھا‘ مجھے میری ساس نے ایسا نہیں کرنے دیا اس نے میرا دم گھونٹ دیا تھا پر میں اپنی بہو کا دم نہیں گھونٹوں گی‘ سکھ کا سانس لینا ان کا حق ہے انہیں یہ حق ضرور دوں گی۔ قارئین! آئیے معاشرے کے انصاف اور توازن کی زندگی پر چلنے کی کوشش تو کریں۔ اگر آپ شوہر ہیں تو کامیاب شوہر وہی ہوتا ہے جو ماں اور بیوی دونوں کے ساتھ پیار محبت اور انصاف کا تقاضا متوازن رکھے۔ وہ ماں کی محبت میں بیوی کو رگڑا نہ دے وہ بیوی کی محبت میں ماں باپ کو بہن بھائیوں کو قریبی رشتہ داروں کو ہمیشہ کیلئے بھول نہ جائے۔ متوازن معاشرہ ہی زندگی کی چہل پہل کو باقی رکھتا ہے۔ آئیے! بہترین شوہر بننے کی کوشش کریں اور قدم بڑھائیے کہ بہترین ساس بن کر دکھائیں اور اگلا قدم کہ بہترین بہو کا روپ دھار لیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں