بہت بے تابی سے عجب اضطراری حالت میں اپنی بہن کے کبھی سرہانے بیٹھتے اور کبھی پاؤں کی طرف، دو روز تک نہ کھانا کھایا، نہ چائے نہ ناشتہ، بہن کا مرض مرض الموت تھا، سکرات کا عالم طاری ہوا‘ حضرت مولانا فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ سرہانے بیٹھ کر بار بار زور زور سے کلمہ پڑھ کر تلقین فرماتے رہے، کبھی یٰسین شریف پڑھنے لگتے اور پھر کلمہ پڑھنے لگتے، بہن نے آنکھ کھولی اور آسمان کی طرف دیکھا اور زور سے کلمہ شہادت پڑھا۔ اور یہ کہہ کر آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند کرلیں۔ حضرت مولانا فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ نے بہن کے منہ پر پٹی باندھی اور پاؤں کے انگوٹھے باندھے اور گھر والوں سے کہا کہ لاؤ اب کھانا لاؤ‘ مجھے بھوک لگ رہی ہے‘ اہلیہ نے حیرت سے کہا آپ بھی خوب آدمی ہیں‘ بہن کی زندگی میں سب خوشامد کرتے رہے تو منہ میں کوئی چیز رکھنے کو تیار نہیں تھے‘ بہن کا انتقال ہوگیا تو اطمینان سے کہہ رہے ہیں لاؤ اب کھانا لاؤ‘ حضرت نے فرمایا: دل میں یہ بات آرہی تھی کہ ہمشیرہ کا یہ مرض مرض الموت ہے تو دل و دماغ پر عجیب اضطرار طاری تھا‘ نہ جانے خاتمہ کیسا ہو؟ الحمدللہ ثم الحمدللہ! میرے اللہ کا کرم ہے‘ میری بہن کا خاتمہ ایمان پر ہوگیا‘ اس سے زیادہ اطمینان کی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ حضرت مولانا فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں تھے جنہیں رب کریم نے اپنا فضل فرما کر حقیقی بھلے برے کی پرکھ عطا فرمائی تھی‘ وہ زندگی کو سفر اور مرنے کے بعد کی زندگی کو اصل جانتے تھے‘ جہاں کا چین اور سکھ اور راحت کا انحصار صرف حسن خاتمہ پر ہے‘ اس لیے یہاں عیش کے ساتھ زندہ رہنے‘ یہاں کی بیماریوں سے نجات ان کے نزدیک اس کے مقابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ کلمہ شہادت پر موت ہوکر حقیقی کامیابی مل جائے۔میرے حضرت والا حضرت مولانا علی میاں نور اللہ مرقدہ نے مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کا سجدہ کی حالت میں نماز میں انتقال ہوا تھا، ان کے صاحبزادوں کو ان کے انتقال پر تعزیتی خط تحریر فرمایا تو اس میں یہ بات تحریر فرمائی اور بالکل سچی بات تھی کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولانا کے اس قابل رشک خاتمہ پر آپ لوگوں کو مبارک باد دوں یا تعزیت کروں۔ اس دارالامتحان سے گزر جانے کے بعد فیل ہوجانے والوں کے لیے جہنم کی دردناک سزا ہے اور پاس ہونے والوں کیلئے ہمیشہ کی راحت اور جنت ہے جس کے بارے میں مخبر صادق ﷺ نے خبر دی ہے‘ وہاں ایسی نعمتیں ہوں گی جو نہ کسی آنکھ نہ دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں‘ نہ کسی دل میں ان کا خیال آیا اور اس میں پاس یا فیل ہونے کا سارا انحصار سوئے خاتمہ اور حسن خاتمہ پر ہے‘ اس کیلئے کچھ اعمال اور ضابطے اس دارالامتحان میں بھیجنے والے اور اس امتحان ہال کو سجانے والے رب نے طے کئے ہیں‘ جن کو مان لینے اور ان کی پابندی کرنے والوں کو حسن خاتمہ کی دولت سے نوازا جاتا ہے ماضی قریب کے اس راہ کے بڑے ہوش مند اور راز دار حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حسن خاتمہ کیلئے ایک آسان سا نسخہ بتاتا ہوں، جب کبھی یہ خیال آجائے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان عطا فرمایا ہے‘ یا کوئی نیک عمل ہوجائے تو اس خیال کے ساتھ کہ یہ اللہ کا بلا استحقاق فضل ہے دل کی گہرائی سے الحمدللہ کہہ لیا کرو‘ امید ہے کہ انشاء اللہ حسن خاتمہ ہوگا‘ کاش! ہمیں بھی ان ہوش مندوں کی طرح حسن خاتمہ کی ایسی فکر نصیب ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں