Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائیشی دوست علامہ پراسراری

ماہنامہ عبقری - فروری 2017ء

میں یہ کیا کررہا ہوں؟:جب سب نےآپس میں تمام حصے تقسیم کرلیے وہ کل پانچ لوگ (ڈاکو)تھے ‘ان میں سے ایک کہنےلگا: کہ مجھے ایک احساس ہونا شروع ہورہاہے کہ ہم لوگوں کا مال اور جان غصب کرتے ہیں ‘ ان کو نقصان دیتے ہیں ‘ان کو ذلیل کرتے ہیں اور رسوا کرتے ہیں ‘ہم بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی مسلمان ہیں ۔میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘ پر میں نے بڑوں سے سنا تھا کہ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو کسی مسلمان کو نہ ذلیل کرتا ہے نہ اس کا مال چھینتا ہے ‘میرے جی میں یہ بات آرہی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں؟ ساری زندگی گزر گئی مجھے احساس بھی نہ ہوا اور میں بے حس زندگی گزار رہا‘ ساری زندگی گزر گئی میری طبیعت میں آج تک کوئی دکھ بھی نہ ہوا کوئی غم بھی نہ ہوا ‘یہ میں اپنے ساتھ کیا کر بیٹھا؟ دل کا زنگ اترا نور کا رنگ چڑھ گیا:وہ یہ باتیں کرکے رونے لگ گیا اور فوراً ہم خوش ہوئے اس روحانی اور نورانی ماحول اور اعمال کا نور ایسا اس کے دل پر لگا ہے اس کے دل کا زنگ اترا اور نور کا رنگ چڑھا اور نور کے رنگ کے چڑھتے ہی اس کے اندر ایک احساس پیدا ہوا اور اسی احساس نے اس کو ندامت کے آنسو دئیے ہیں اور اعتراف حقیقت دی ہے۔ میں تو بہت بڑا ظالم ہوں!دوسرا بولا: اوہو! یہ کیا بات کہہ دی آپ نے؟ واقعی بات تو ٹھیک ہے میں تو بہت بڑا ظالم ہوں‘ میں نے آج تک کسی انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ میں نے تو کتنی عورتوں کےان کے زیور اتارنے کیلئے کان چیڑ ڈالے‘ کتنی عورتوں کو بے آبرو کیا‘ کتنے لوگوں کو میں نے ذلیل کیا‘ مال کی خاطر کتنے لوگوں کا میں نے قتل کیا‘ وہ یہ بات کرتا جارہا تھا اورساتھ ساتھ اپنا چہرہ نوچ رہا تھا اور منہ پیٹ رہا تھا اور زور زور سے دھاڑیں مار رہا تھا اور آنسو بہارہا تھا۔ اس کی حالت جاری تھی کہ تیسرا پہلے کو متوجہ کرکے بولا‘ تیرا بھلا ہو‘ تونےیہ کیا آج احساس دلا دیا‘ خیال تو بار بار آیا مگر یہ احساس پہلی دفعہ آیا اور میرا دل خود خون کے آنسو رو رہا کہ میں نے اب تک کیا توکیا کیا؟ اتنا گھاٹا ‘اتنا نقصان اور اتنا بے درد اور بے رحم بنا۔ میری ماں نے مجھے ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ روکا تھا اب تو وہ بیچاری روتے روتے خود مرگئی میں نے تو ماں کی بھی بے قدری کرڈالی میری بہن نے مجھے کئی دفعہ ٹوکا میں نے بہن کو تھپڑ مار دیا تھا۔ میں پہلے دن ہی مر کیوں نہ گیا؟ میں نے تو اس مال لوٹنے میں اور بے آبرو کرنے میں ماں کو بے عزت کردیا ‘بہن کو بے وقار کردیا ۔اے کاش! یہ احساس مجھے پہلے آجاتا‘ مجھے یہ پہلےکیوں نہیں آیا؟ اور میرے دل میں یہ احساس گہرا کیوں نہیں ہوا؟ اے کاش! میں پہلے ہی دن مر کیوں نہ گیا‘ جس دن مجھے ماں نے جنا تھا‘ میں قیامت کے دن ان لوگوں کو کیامنہ دکھاؤں گا جن لوگوں کو میں نے اتنا بے عزت‘ بے وقار ‘بے آبرو کیا۔ قارئین! وہ دونوں نیک جنات مجھےبتارہے تھے‘ اور خود ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کہہ رہے تھے کہ ان ڈاکوؤں کی ندامت توبہ اور اللہ کے سامنے بہے ہوئے آنسو ہمیں اتنے اچھے لگ رہے تھے کہ ہم گمان کررہے تھے کہ اےکاش ساری دنیا اس غارمیں کسی نہ کسی طرح آجائے کیونکہ جو بھی آئے گا انشاء اللہ نورانی اعمال کی نورانیت کی وجہ سے دل کی روحانیت اور نورانیت کو پاکر رہے گا۔ وہ نیک جنات کہنے لگے: ان میں سے چوتھا بولا: بلکہ وہ اتنا غمزدہ تھا اس سے بولا ہی نہیں جارہا تھا وہ اپنے آپ کو بس مسلسل گالیاں ہی دے رہا تھا‘ اس کی گالیوں سے ہمیں دکھ پہنچا‘ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن پھر خیال آیا کہ اس کے پاس طریقہ ہی یہی تھا‘ اسے علم ہی نہیں تھا کہ توبہ کے الفاظ کیا ہیں استغفار کی ترتیب کیا ہے؟ اللہ کو راضی کرنے کا انداز کیا ہے؟ اس نے آج تک خونخواری، درندگی‘ وحشت اور حیوانیت سیکھی تھی۔ انسانیت تو اس غار کے داخلےنے اسے بتائی تھی پھر ان کے ساتھ بھلا یہ ہوا کہ وہ آتے ہی سوگئے۔ گھنٹوں اس نورانی‘ روحانی ماحول میں‘ روحانیت میں‘ اپنی سانسوں اورکروٹوں کے ذریعے جذب کرتے رہے اورجب اٹھے تو ان میں ہرشخص وہ تھا جس نے توبہ کا قدم بڑھایا۔ یہ چوتھا شخص مسلسل اپنے آپ کو گالیاں دئیے اور بُرا بھلا کہے جارہا تھا اور پھر ہر برے واقعہ کو یادکررہا تھا اور برملا اپنے آپ کو ذلیل کررہا تھا اور کہہ رہا تھا تجھے ایک دفعہ ایک خنجر لگا تھا تو مر کیوں نہ گیا‘ تو بچ کیوں گیا تھا؟ تو کتنا ظالم اور درندہ ہے کہ تو نے اس خنجر کی خاطر کتنے لوگوں کو خون میں تڑپا دیا تھا اور مٹی میں ان کی لاشوں کے ٹکڑےتو نے پھینک دئیے تھے۔ پانچواں بس بولنا ہی چاہتا تھا اس سے بولا نہ گیا اوروہ غش کھا کر گرگیا اس کے منہ سےجھاگ نکل رہی تھی اور وہ بس پڑا ہوا تھا اسے کوئی سنبھالنے والا ہی نہیں تھاہر شخص اپنی آہ و بکا میں اور ہر شخص اپنی نالہ وفریاد میں اور ہر شخص اپنی ندامت میں ایسا ڈوبا ہوا تھا اس کو دوسرے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ وہ ہمیں قتل بھی کردیں تو قبول ہے:ان کا چہرہ مٹی آلود تھا انہوں نے سر پرخاک ڈالی ہوئی تھی حالانکہ اس وقت ان کے سامنے لوٹ کا بہت قیمتی سامان پڑا ہوا تھا لیکن وہ اپنے پاؤں سے اس سامان کو ٹھوکریں ماررہے تھے‘ بہت دیر تک وہ اسی حالت میں مدہوش رہے پھر ان میں سے ایک جو تیسرا شخص تھا اس کو ہوش آیا۔ کہنے لگا دوستو! اس سب کا کوئی فائدہ نہیں‘ آؤ ان کے مالکوں کو ڈھونڈتے ہیں اور ان کے سامنے توبہ کرتے ہیں اور پھر وہ اس کے عوض ہمیں قتل بھی کردیں توموت کو قبول کرتے ہیں‘ ان کا سامان انہیں واپس کرتے ہیں سب نے خوش دلی سے اس پر رضا مندی کا اظہار کیا اور اپنا لوٹ کا سامان اٹھایا اور تیزی سے چل پڑے۔ ہم ان کا پیچھا کررہے تھے:ان کے پاؤں میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں اب سے پہلے ان کے جذبے حیوانیت‘ شہوانیت‘ درندگی اور لوٹ کے تھے اب ان کا جذبہ روحانیت، توبہ، معرفت اور واپسی کا سفر تھا۔ میں ان کے اس جذبے کو دیکھ رہا تھا اور مجھے ان کے پل پل سے حیرت ہورہی تھی اور یہ حیرت مزید بڑھ رہی تھی کہ وہ جس سمت جارہے تھے واقعی اس سمت میں وہی لوگ تھے جن کے مال کو انہوں نے لوٹا تھا‘ ہم دیکھ رہے تھےاور ایک دوسرے کو بتارہے تھے کہ جس لمحے سے ان کے اندر توبہ کی کیفیت نےجگہ لی ہے اس لمحے سے ان کے اندر ایک روحانیت اور معرفت آگئی ہے اور یہ روحانیت اورمعرفت ہی ہے کہ جس نے ان کے قدم اس طرف مائل کیے جس طرف اس مال کے مالک تھے۔ ہم ان کا پیچھا کررہے تھے۔ آخرکار وہ مالکوں تک پہنچے مالک انہیں دیکھ کر پریشان ہوگئے یہ ڈاکو پھر کیوں آگئے؟ لیکن انہوں نے ان کا مال ان کے قدموں میں ڈالا ان کے قدموں میں گرگئے زارو قطار رو رہے تھے‘ چیخ و پکار کررہے تھے فریادکررہے تھے ہم وہ مشہور ڈاکو ہیں جنہیں آج تک کوئی قانون پکڑنہیں سکا‘کسی بادشاہ کی گرفت میںنہیںآسکے‘ کسی طاقتور سے طاقتور نے ہم پر آج تک اپناجال ڈالنے کی لاکھ کوشش کی پرڈال نہیں سکا۔ پر آج نامعلوم کیا ہوا؟ ہمیں خود خبر نہیں شاید ہمارے لیے توبہ کا دروازہ آج ہی کھلنا تھا آپ اپنامال چیک کرلیں ہم نے ایک چیز کوبھی انگلی نہیں لگائی‘ اب ہمیں سزا دیں آپ جو ہمارے لیے سزا مقرر کریں گے ہمارے لیےوہی سزا ہوگی اور ہم اپنےلیے اسی سزا کا خود انتخاب کریں گے۔
روح کی تسکین‘ روح کی غذا اور روح کی دوا: وہ رو رہے تھے‘ وہ چیخ رہے تھے‘ وہ زاریاں کررہے تھے‘ وہ معافیاں مانگ رہے تھے اور ہمارے دل سے ان کیلئے اٹھنے والی دعائیں پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ جس جگہ اعمال کیے جاتے ہیں‘ ذکر کیے جاتے ہیں‘ تسبیحات کی جاتی ہیں اور اللہ کو راضی کرنے کی مشق کی جاتی ہیں وہ جگہ ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں روح کی تسکین روح کی غذا اور روح کی دوا ہوتی ہے‘ اے کاش! جس طرح ان ڈاکوؤں کو زندگی بھر کیلئے توبہ نصیب ہوئی اور پھر ان ڈاکوؤں نے صرف وہ نہیں بلکہ ہر اس شخص کو ڈھونڈا ‘تلاش کر کرکے ڈھونڈا ‘قریہ قریہ ڈھونڈا جس کسی کا مال‘ جس کسی کی جان ‘کسی کی عزت آبرو کو نقصان پہنچایا۔ایک ڈاکو کو ایک شخص نے قتل کردیا: اسی دوران ایک ڈاکو کو ایک شخص نے اپنے باپ کے قتل کے بدلے میں قتل کردیا۔ دوسرے تائب ڈاکوؤں نے اپنے دوست کو دفنایا اُف نہیں کیا‘ شکوہ نہیں کیا‘ بلکہ یہ کہتے رہے کہ اےکاش! کہ جس طرح اس کودنیا میں اس کے قتل کا بدلہ مل گیا‘ ہمیں بھی مل جاتا‘ ہم آخرت کا عذاب نہیں سہہ سکتے ہماری چاہت ہے کہ جس طرح بلوچستان کے غار میں ایک روحانیت‘ نورانیت اور اعمال کا ماحول ہے اور کوئی بھولا بھٹکا یہاں آ بھی جاتا ہے تو اس کا دل ایک پل میں بدل جاتا ہے اس کے دل کا زنگ اتر جاتا ہےرنگ چڑھ جاتا ہے اور جینے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ ان نیک جنات نے کچھ اور واقعات بھی سنائے ۔جو قارئین کے گوش گزار کرتا ہوں آپ کو ضرور سناؤں گا۔ خود میری عقل دنگ رہ گئی:ان غار کے جنات نے مزید اور حیرت انگیز حالات سنائے اور اتنے عجیب اور حیرت انگیز تھے خود میری عقل دنگ رہ گئی‘ دراصل کائنات پراسرار چیزوں سے بھری ہوئی ہے‘ ضروری نہیں کوئی چیز ہماری عقل میں اور ہمارے شعور میں آجائے۔ ہماری عقل بھی مختصر اور ہمارا شعور بھی مختصر‘ ہم ہر چیز کو اگر اپنی عقل وشعور اور احساس سے جانچیں اور پرکھیں گے بعض اوقات ہم مایوس بھی ہوں گے اور پھر اس کو شاید جھوٹ قرار دیں گے۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ جنات کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس نے بڑی بڑی سائنس اور سائنسدانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہی سائنس اور سائنسدان جو آج تک اس کو ڈھکوسلے‘ نفسیاتی کہانیاں‘ نفسیاتی الجھنیں اور انسانی رویوں سے تعبیر دیتے تھے وہی لوگ آج یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جنات کی ایک حقیقت ہے اور جنات اس معاشرے میں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ قارئین! غار والے جنات نے مجھے کچھ ایسی حقیقتیں بتائیں جو سچ بھی ہیں اور ان کا وجود بھی ہے۔جنات کی شادیوں کی تقاریب: مثلاً ایک واقعہ سنایا کہنے لگے: ہم مسلمان ہوں یا کافر، ہر فرد کی شادی میں موجود ہوتےہیں‘ جنات کو شادیوں کی تقاریب بہت اچھی لگتی ہیں‘ اگر نیک اور صالح جنات ہوتے ہیں تو وہ دورسے ان تقاریب میں شرکت کرتے ہیں اور اگر بدکار جنات ہوتےہیں تووہ قریب سے‘ ہاں نیک جنات اتنی احتیاط ضرور کرتے ہیں کہ کسی کی رازداری اور پردہ دری کو وہ نہ دیکھیں اور اس میں شامل نہ ہوں۔ ورنہ شادیوں کی تقاریب میں کسی نہ کسی شکل میں وہ اپنے تقویٰ کا خیال رکھتے ہوئے ضرور شامل ہوتےہیں جبکہ بدکار جنات شادی کی ہر کیفیت‘ ہر تقریب اور ہر نظام میں اپنے آپ کوکسی نہ کسی شکل میں ضرور شامل کرلیتےہیں۔ غار والے جنات کہنے لگے ایک واقعہ ہے کہ ہم کچھ جنات ایک لمبے سفر میں جارہے تھے‘ ایک جگہ دیکھا کسی بستی کے بڑے سردار کی بیٹی کی شادی تھی کھانوں کی خوشبوئیں اوپر تک آرہی تھیں‘ ہم نے سوچا کہ اس میں ہم شامل ہوجائیں حالانکہ اس وقت ہمیں بھوک نہیں لگتی تھی لیکن ان کھانوں کی خوشبوئیں ایسی تھیں جنہوں نے ہمیں بہت مسحور اور متاثر کیا تھا۔ بدمعاش‘ عیاش اور مکار جنات:ہم وہاں چلتے گئے جب پہنچے‘ تو دیکھا بہت بڑی تقریب ہے ‘خواتین کا نظام علیحدہ اور مردوں کا نظام علیحدہ‘ ہم اس تقریب میں شامل ہوگئے‘ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ ہم سے پہلے بھی جنات وہاں موجود تھے لیکن وہ ایک کونے میں بیٹھے تھے‘ ان کے کسی کھانے پینے اور کسی اور تقریب شامل نہیں ہوسکتے تھے‘ میرےساتھ جتنے بھی جنات تھے‘ وہ سارے وہ تھے جو خوف خدا رکھنے والے تھے اور ہمارے سامنے جتنے بھی جنات بیٹھے تھے۔ وہ سارے بدمعاش، عیاش اور مکار تھے۔ ان جنات نے ہمیں دیکھا ہم نے انہیں دیکھا‘ دیکھنے کے بعد میں ان کے قریب گیا، میں نےکہا: آپ تو لگتا ہے خصوصی اس تقریب کیلئے تیار ہوکر آئے ہو انہوں نے ہاں میں سرہلایا پھر میں نے کہا آپ اس تقریب میں شامل کیوں نہیں ہوپارہے؟ وہ خاموش رہا‘ اس نے مجھے کوئی جواب نہ دیا میں اس کی خاموشی سے متاثر بھی ہوا اور پریشان بھی ہوا وہ کس چیز پر خاموش ہے؟ میں نے اس کو چھوڑ کر تمام شادی کی تقریب کا چکر لگایا۔ فرشتے حفاظت پر معمور: دیکھا ساتھ ہی کمرے میں ایک بزرگ تھے جن کو وہ ’’پیر صاحب‘‘ کہہ رہے تھے اور وہ کچھ تسبیحات‘ ذکر ‘ وظائف اور اعمال پڑھ رہے تھے۔ میں نے انہیں چھوڑکر مزید تمام شادی میں مدعو حاضرین اور ناظرین کا بغور مطالعہ اور معائنہ کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ پورے شادی کے مجمع کے اردگرد ایک نور کا حصار ہے اور مضبوط دیوار ہے‘ جو تنی ہوئی ہے اور فرشتے چاروں طرف حفاظت کیلئے معمور ہیں اوراپنی ڈیوٹی پر مستعد ہیں۔مجھے اس نیک ہستی پر اعتماد ہے: میں نے یہ چیز پہلے بھی کئی بار دیکھی اور مجھے پتہ ہے کہ فرشتے حفاظت پر اس وقت معمور ہوتےہیں اور نور کی دیوار اس وقت ہوتی ہے جب کوئی نورانی وظائف اور نورانی اعمال کیےجائیں اور نورانی تقاریب یا کوئی نورانی ہستی ایسی ہے جس کا اللہ کی ذات سے تعلق بہت گہرا ہو اور اس کی وجہ سے فرشتوں کی حفاظت کا نظام بہت مضبوط ہوجاتا ہے۔میں نے تمام حاضرین کو بار بار دیکھا مجھے کوئی ایسا فرد نظر نہ آیا جس کا تقویٰ بہت بلند ہو یا جس کے پاس ایسے طاقتور اعمال ہوں جن طاقتور اعمال کی وجہ سے یہ حفاظت اور حصار کی اتنی بڑی دیوار موجودہو، مجھے رہ سہہ کر صرف اس نیک ہستی پر اعتماد تھا‘ یہ سب اس نیک ہستی کی وجہ سے اور اس کے کیے جانے والے مبارک اور مقدس اعمال کی وجہ سے یہ سب کچھ ہے‘ میں خاموشی سے جاکر اس درویش کے ساتھ بیٹھ گیا اور میںنےان کی ایک ایک چیز کو محسوس کرنا شروع کردیا۔ میرے بیٹھتے ہی اس بزرگ ہستی کو فوراً میرے بیٹھنے کا احساس ہوگیا مجھ سے فوراً سوال کیا‘ کہاں سے آئے؟ اور کس لیے آئے؟ میں نے اپنا تعارف کروایا میرے تعارف پر بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دینے لگ گئے۔ میں نے پوچھا: آپ یہاں کتنی دیر سے ہیں؟ فرمانے لگے: مجھےآج پانچواں دن ہے۔(جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 506 reviews.