انسان ساری زندگی سیکھتا ہے اور سیکھتا رہے تو اچھا ہے جب یہی شخص کہہ دیتا ہے کہ میں سیکھ گیا ہوں یہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور یہ زوال جہالت‘ لاعلمی‘ کم علمی تک حتیٰ کہ موت تک یہ لاعلمی رہتی ہے‘ چلتے چلتے انسان قبرمیں چلا جاتا ہے۔ میری طبیعت ہے کہ میں ہرکسی سے سیکھتا ہوں اور ہرکسی کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ میں اس سے سیکھوں‘ اس سے مجھے فائدہ بھی ہوتا ہے اور چونکہ میرا تعلق پورے عالم کی انسانیت کے ساتھ ہے (تقریباً212 ملک عبقری ویب سائٹ کے ذریعے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے فیضان کو پارہے ہیں) تو اس لیے وہ میری معلومات ذاتی نہیں ہوتیں بلکہ عالم اور انسانیت اس سے فیض یاب ہورہی ہے۔ ختم القرآن کی ایک محفل تھی‘ میں ایک پرانے اور بوڑھے نیک صالح تجربہ کار شخص کے پاس بیٹھا تھا میں نے ان سے عرض کیا آپ کی عمر؟ فرمانے لگے: اسی سے بہت اوپر‘ دوسرا سوال کیا: اپنی زندگی کے اسی سالہ تجربات میں سےمجھے کچھ عنایت فرمائیں۔ بے ساختہ فرمانے لگے: ’’کم کھاؤ غم نہ کھاؤ۔ حلال کھاؤ حرام نہ کھاؤ‘‘ میں انہیں غور سے دیکھتا رہا‘ لیکن ان کا بار بار اسی بات کا دہرانا تھا‘ انہیں محسوس ہوا کہ واقعی میں نے ان کی بات کو لیا ہے اور میرے دل میں اس بات کی حیثیت اور اہمیت ہے میں نے پوچھا: اگر آپ ان لفظوں کی وضاحت کردیں تو سمجھنا آسان ہوگا؟ کہنے لگے: اب تک جتنے لوگ مرے ہیں‘ کوئی ایک فرد بھی کم کھانے سے نہیں مرا‘ سب زیادہ کھانے سے مرے ہیں‘ اور دنیا میں جتنے مریں گے آئندہ بھی وہ سب زیادہ کھانے سے ہی مریں گے‘ لہٰذا کم کھائیں‘ سکھ سے جئیں‘ سکون سے جئیں اور چین سے جئیں‘ دوسرا نکتہ غم نہ کھاؤ: انسان جہاں زیادہ کھانے سے مرتا ہے وہاں اس کو ٹینشن‘ ہروقت کا غم‘ اس کی ہڈیوں تک کو گلا دیتا ہے‘ گوشت تو دور کی بات ہے‘ اس کی چربی پگھلا دیتا ہے‘ دل‘ جگر‘ معدہ‘ ذہن‘ نیند‘ اعصاب ہرچیز متاثر ہوتی ہے‘ کیا کسی کہنے والے نے کہا کہ انسان کو غربت نہیں مارتی اس کو ٹینشن مار جاتی ہے‘ ٹینشن کی بنیادی وجہ رب کی تقسیم پر راضی نہ ہونا‘ مجھے تھوڑا کیوں دیا؟ مجھے غم دیا‘ اُس کو سکھ دیا‘ مجھے سائیکل دی اس کو گاڑی دی‘ مجھے رتبہ نہیں دیا اس کو مقام دیا‘ جو تسلیم و رضا کے مزاج پر چلتا ہے وہ کبھی بھی ٹینشن نہیں لیتا بلکہ سکھ‘ سکون‘ چین اور راحت کو اپنے مزاج کا حصہ بنالیتا ہے اور وہ مزے میں ہوتا ہے‘ جیسے لکھا ہوتا ہے ’’موج فقیر دی‘‘۔ تیسرا نکتہ موصوف نے فرمایا: ’’حلال کھاؤ حرام نہ کھاؤ‘‘ اس کا تو خود عکس میں نے اپنی زندگی اور ان کی نسلوں میں دیکھا مرحوم کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں جو ماشاء اللہ ابھی موجود ہیں‘ ان کی نسلیں پھر ان کی آگے کی نسلیں‘ سب کی زندگی میں حلال‘ طیب‘ طاہر‘ لباس‘ غذا اور رہنا اور اٹھنا بیٹھنا ہے‘ رب نے ان کو صلہ یہ دیا‘ بہت تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے ساتھ برکتوں کے وہ دروازے کھلے‘ خیروں اور عافیتوں کی وہ راہیں کھلیں‘ رزق اور وسعت کے وہ دریا بہے جو عام عقل انسانی‘ شعور اور ادراک سے کہیں زیادہ ہے۔ قارئین! زندگی بہت مختصر ہے‘ اگر اس کو زیادہ کھا کر بیماری کی حالت‘ غم کھا کر بے سکونی کی کیفیت اور حرام سمیٹ کر نسلوں کیلئے عذاب اور وبال چھوڑ کر جائیں گے تو زندگی سکھ اور سکون سے ہمارے ساتھ نہیں چل سکے گی‘ اس زندگی کی سسکن‘ تڑپ اور مرنے کے بعد کا نظام کیسا ہوگا؟ آپ خود محسوس کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ نصیحت کیسی لگی؟ میں اب بھی اس شخص کی نسلوں کیلئے بہت دعاگو رہتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کیلئے ٹھنڈی آہیں بھر بھر کر خیریت اور عافیت کے بول بولتا ہوں۔ اس محسن کے یہ لفظ اور بول آج بھی میرے لیے آپ کیلئے مشعل راہ ہیں اور ہم سچی راہوں کو اگر لے کر چلنا چاہتے ہیں تو ان بولوں پر عمل کریں اور میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی گاڑی کے سامنے جہاں آپ کی نظر پڑے کچن میں جہاں آپ اس کو بار بار دیکھتے رہیں اپنے دفتر میں‘ اپنے بیڈ روم میں‘ دکان میں‘ زمیندار ہیں تو ٹریکٹر پر‘ اس کو لکھ کر لگائیں ہماری نظریں بار بار اس پر پڑیں جس چیز کو بار بار دیکھا جائے اس کی تاثیر اور طاقت دل میں اترتی ہے اور طبیعت شادو آباد ہوجاتی ہے اور زندگیوں کے دھارے اور رخ بدل جاتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں