میں ایک طویل عرصہ سے مشاہدہ کررہا ہوں کہ انتہائی مصروف اور سنجیدہ رہنے والے حضرات ایک خول میں بند ہوجاتے ہیں ایک ایسا حصار ان کے گرد ہوتا ہے جس کو وہ نہیں توڑ پاتے۔ ان کے نزدیک تازہ ہوا ٹکرا کر واپس ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک الٹے پڑے گلاس یا بند شیشی میں ہوا نہیں جاسکتی میں نے نہایت قابل ترین اونچی پوسٹ کے لوگوں کو دیکھا کہ ریٹائرڈ ہوگئے شادی نہیں کی۔ کیوں؟کیونکہ دوست پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ کیا؟ وقت توجہ، اخلاص، اعتماد، بھروسے کے بیج اس لیے نہیں بوئے یا انوسٹمنٹ نہیں کی تو ان کی فصل کیسے لے لے گا؟ ہوٹلوں کے کھانے کھائے گا۔ بے شمار جائیداد چھوڑ کر مرجائے گا‘ کسی کے رفاعی ادارہ کے نام بھی نہیں کرے گا۔ کیا مزہ آیا اس پھیکی زندگی کا۔ رشتوں بچوں، بیوی دوست سے محروم زندگی۔ یہاں بزرگوں کی بات کہے بنا چارہ نہیں کہ نیکی کی دوستی دونوں جہانوں تک چلتی ہے۔ بدی کی دوستی وقتی اور غرض کی ہوتی ہے اور بزرگ مزید فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد سب سے اعلیٰ دوستی والدین اور اولاد کے درمیان ہے۔ پھر معاشرتی دوستیاں ہیں۔ باپ بیٹوں کی حقیقی دوستی کا مزہ کیا ہے؟ شاید یہ لفظوں میں بیان نہ ہوسکے۔ یہ ذائقہ وہی جانتے ہوں گے جنہوں نے چکھا ہوگا کہ یہ دنیا بھی ان کے لیے گلزار بن جاتی ہے۔ اگرچہ ہزار بکھیڑے ہوں۔ میں نے اپنی کوئی بھی بات اپنے باپ سے چھپائی نہیں ہے۔ جھوٹ نہیں چلے گا۔ دل میں جو بھی اچھا یا بُرا خیال آرہا ہے۔ ایک دوسرے سے بانٹنا ہے۔ شیئر کرنا ہے۔ ادھر یہ عمل کیا اُدھر ہی پرسکون ہوجانا ہے کہ اب مسئلہ کسی نہ کسی طور حل ہوہی جائے گا۔ اس سوچ کا اجرا اچھا ہی ہوگا۔ اپنے مطب میں اکثر میرا مشاہدہ رہتا ہے کہ اب وہ زمانہ ہے کہ گھر کے افراد کھانے کی میز پر بھی بمشکل اکٹھے نظر آتے ہیں اور ان کے آنے جانے کی ٹائمنگ مختلف ہوتی ہے۔ یوں کئی کئی دن ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ ملاقات جس میں دل دیا دل لیا جاتا ہے۔ غمی خوشی بانٹی جاتی ہے۔ اب شاید اس کا رُخ باہر کی طرف ہوگیا ہے یا موبائل‘ فیس بک‘ کمپیوٹر کی نظر ہوا‘ وقت اتنا کم ہوتا ہے کہ اپنے یا گھر کے افراد کیلئے وقت بچ پائے۔ دوستی کے بیج والدین کے تعلق داروں سے ملتے ہیں‘ رشتے بنتے ہیں‘ پنیری‘ درخت بنتی ہے۔ جس بچے نے
یہ ہوتا نہیں دیکھا اس کا ذوق نہیں بنا نہیں ڈھلا۔ وہ زندگی میں اچھے دوست ہمراز‘ مددگار‘ مشورے سے محروم شخص رہے گا۔ چاہے کسی بھی پوسٹ پر پہنچ جائے کتنا بھی رئیس ہو۔ میں جب اپنے والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوتا تو امی جی اٹھ کر باہر جانے لگتیں اباجی ان سے مسکراتے ہوئے کہتے کہاں جارہی ہو؟ جواب ملتا: اب میری سوکن آگئ ہے اب میرا یہاں کیا کام‘ تم نے اپنے جہان کی بات کرنی ہے تم اپنی میں غرق ہوجاؤگے اور میں تمہاری شککل دیکھوں‘ پھر میں اور اباجی ان کو محبت سے بٹھاتے ان کی دلچسپی کی بات کرتے تو ٹِک جاتیں۔ حتیٰ کہ کچھ دیر بعد اپنی ضرورت سے جاتیں اور ہم دین، دنیا، سپورٹس، علم و ادب پر آجاتے۔ جب دین کے علاوہ کی بات ہوتی تو مزاح اور کشتی زور آزمائی ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنا‘ ہمارا اکھاڑہ ہوجاتا۔ ہم دین دار تو بننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن معاملات میں چونکہ نفس (انا) پر زد اتی ہے اس لیے اصلاح سے خالی رہتے ہیں۔ میرے چچاڈاکٹر زین العابدین صاحب کبل سوات کے رہائشی تھے، میرے پاس ملتان تشریف لائے تو موسم بے حد گرم تھا‘ نہایت نازک انداز شخص تھے۔ میں نے کہا موسم کا کچھ خیال کیا ہوتا۔ فرمایا: جب دوست کی یاد زور کرجائے تو مسم نظر انداز ہوجاتا ہے کردینا چاہیے‘ پھر فرمایا: میرے دہلی کے کلاس فیلو غالباً بحرین میں یا اپرسوات میں رہتے ہیں۔ برف باری ہورہی تھی اور ایس کہ ایسے میں کار پر جانا عبث تھا اور جناب پہنچ گئے تو میزبان نے کہا اس موسم میں اتنا خطرہ مول لیا۔ فرمایا: دوست کی یاد آجائے تو موسم خواہ کچھ بھی ہواہمیت نہیں رکھتا۔ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان رحمۃ اللہ علیہ اپنے بچپن کے دوست موچی کے پاس جاتے وہ ایسی بے تکلفی تک جا پہنچتا جہاں دوسرا کوئی اور نہ جاسکتا ہر ایک سے نہیں ملتی یہ قدرتی پن نایاب دوا ہے۔ سپورٹنگ آف فرینڈ کی ضرورت آج شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن بات بڑے حکیم صاحب والی ہے کہ گلے میں ڈالا ہی کیا ہے؟ اور جتنا ڈالا ہے اتنا ہی نکالوگے۔ یہ کام دینے دل لینے کا ہے۔ اے ذوق بہتر ہے مسیحا و خضر کی ملاقات سے کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں