قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر: شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
بارش کا تو رمضان کی بہاروں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘ کیونکہ رمضان میں رحمت کی‘ نور کی‘ تجلیات کی‘ راحت کی‘ انوارات کی‘ فیضان کی اور رزق‘ کرم جودو سخا کی بارش ہوتی ہے۔ اگر دو بارشیں اکٹھی کرلی جائیں ایک رحمت کی بارش اور ایک پانی کی بارش اور اس کو ملا لیا جائے تو یہ دو آتشہ ایک مرکب بن جائے گا وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ اگر آپ کے پاس بارش کا پانی میسر ہے تو ایک گھونٹ سحری اور افطار کے وقت اگر زیادہ میسر ہے تو زیادہ مقدار میں اور اگر موقع ملے تو بارش کے پانی اور زم زم کے پانی کو ملا کر اسی سے روزہ افطار کریں کیونکہ زم زم کا پانی پینے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں افطاری کے وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
سالہا سال کے رمضان میں میں نے بے شمار لوگوں کو بارش کے پانی سے روزہ افطار کرنے کی ترتیب اور ترغیب دی‘ جب بھی یہ کسی نے آزمایا اس کا بہترین نتیجہ‘ بہت کمال پایا۔ بارش کے پانی کا ہر قطرہ رب کی رحمت قدرت طاقت اور عنایت کو لاتا ہے‘ بارش اللہ کے امر سے ہوتی ہے‘ عرش سے برسنے والا یہ رحمت کا نظام غیبی راحتیں اور غیبی برکتیں لاتا ہے‘ آپ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہیں کسی بھی روگ کسی بھی دکھ اور کسی بھی تکلیف کو آپ جھیل رہے ہیں آئیے! میں آپ کو بارش کے پانی کا جاتے جاتے ایک عمل بتائے دیتا ہوں عمل کیا ہے؟ ایک حیرت انگیز طاقت اور تاثیر۔ کبھی بارش کے پانی سے آٹا گوندھ کر دیکھیں پہاڑی علاقوں میں جہاں چشمے اور بارش کا پانی ہوتا ہے ان کے ہاں تویہ عمومی رواج ہے‘ ان کی صحت‘ حسن و جمال‘ طاقت ‘قوت ‘ فٹنس اور اس کا اظہار ان کو دیکھتے ہی ہوجاتا ہے‘ آٹا گوندھیں اور یہی پانی کھانے میں‘ پینے میں‘ پکانے میں‘ لسی اور چائے بنانے میں استعمال کریں۔ جن کے گھر سے نحوست نہیں جاتی‘ بیماریاں چھوڑتی نہیں‘ تکالیف‘ مشکلات اور مسائل ہروقت ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خیروں اور برکات کی نعمتوں سے محروم ہیں بارش کا پانی عرشی خیر ہے‘ عرشی برکت ہے اور غیبی نظام اور غیبی رحمت ہے‘ اس کا عمومی استعمال اپنی زندگی میں لائیں بلکہ میرا مشورہ ہے کہ بارش کا پانی تلاش کریں‘ رمضان کی ساعتوں میں اور اس کے علاوہ بھی۔
بارش کا پانی خود پئیں‘ بچوں کو پلائیں‘ بڑے اعزاز اور عظمت کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کریں مجھے ایک واقعہ یاد آیا آپ کو سنائے دیتا ہوں‘ علامہ ابن البر ایک بہت بڑے محدث گزرے ہیں انہوں نے جتنا حدیث ‘ فقہ اور تفسیر پر کام کیا ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی ساری زندگی کو ساٹھ سال میں شمار کیا جائے جتنا انہوں نے ہاتھ سے لکھا ہے تو روزانہ کا ڈیڑھ سو سے زیادہ صفحہ بنتا ہے وہ کس وقت سوتے تھے‘ کھانے کیلئے کون سا وقت نکالتے تھے زندگی کی اور مصروفیات کو کیسے سمیٹتے تھے کچھ سمجھ نہیں آتی‘ بس ایک سمجھ آتی ہے کہ ان کی زندگی میں کچھ چیزیں ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو پھر عقل کہتی ہے کہ ان کے اندر اتنا علم، طاقت، قوت اور قلم کی روانی واقعی ممکن ہے! یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ ان کے تجربات میں سے چند موتی چن لیجئے: خود کہتے ہیں کہ میری کوشش ہوتی تھی بارش کے پانی کے ایک ایک قطرے کو میں سمیٹ کر رکھوں سنبھال کر رکھوں اور شیشے کے برتن میںر کھوں تاکہ اس کی تاثیر اور قوت باقی رہے۔ اور لکھا تھا کہ میں بارش کے پانی کو نہانے کیلئے‘ وضو کیلئے‘ کھانا پکانے‘ روٹی کو پانی لگانے آٹا گوندھنے‘ سالن میں ڈالنے اور زندگی کی ہر ضروریات حتیٰ کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو میں اپنے ساتھ ایک برتن میں بارش کا پانی لے لیتا ہوں جب بھی میں تھکتا ہوں ایک ہلکی سی چسکی یعنی چھوٹا گھونٹ بارش کا پانی پی لیتا ہوں میری طاقتیں قوتیں دوبالا ہوجاتی ہیں اور میں پھر سے جوان ہوجاتا ہوں۔ آگے لکھتے ہیں: یہ چیز مجھے علامہ ابن جوزی نے بتائی تھی۔ یہ اس دور کی بات تھی جب میں ابھی لکھنا پڑھنا سیکھ رہا تھا‘ تو لکھتے پڑھتے سیکھتے ہوئے میں نے دیکھا ان کے پاس ایک برتن ہوتا تھا اس میں پانی تھا وہ کسی کو پانی نہیں پینے دیتے تھے وہ پانی خود ہی استعمال کرتے تھے میں نے ایک دفعہ سوال کیا کیا یہ آب زم زم ہے؟ سر ہلایا نہیں۔ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگے کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: اس پانی کی قدر دانی نے مجھے یہ احساس دیا ہے کہ اس پانی میں کچھ ہے‘ کہنے لگے: چالیس دن نفل پڑھ‘ پھر بتاؤں گا یہ کیا ہے۔ چونکہ مجھے لگن تھی اور میرے اندر تڑپ تھی میری لگن تڑپ اور بے چینی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے چالیس دن کا چلہ دیا۔ میں دو نفل کیا‘ بہت زیادہ نوافل پڑھنے لگا‘ اور ہر نفل میں میں یہ اللہ سے مانگتا تھا یااللہ! شیخ متقی اتنے بڑے عالم‘ فاضل‘علامہ‘ صاحب کلام‘ صاحب فصاحت و بلاغت مصنف‘ قلم کار‘ منقش نقش و نگار جو کہ سونے اور چاندی سے لکھے ہوئے ہوتے تھے میں سوچتا رہتا تھا کہ ان کے اندر یہ صلاحیتیں صفات قوتیں کہاں سے آگئیں؟ چالیس دن کے بعد میں ان کے دروازے پر حاضر ہوا دروازہ کھٹکھٹایا فرمانے لگے مجھے پتہ ہے آج چالیسواں دن ہے تسلی سے بیٹھ جاؤ مجھے بھوک لگ رہی تھی میں نے سوچا شاید مجھے کھانے کو کچھ دیں لیکن انہوں نے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ حتیٰ کہ دوپہر ہوگئی‘ جس وقت ظہر کا وقت ہوا گھر سے باہر نکلے ان کے ہاتھ میں مٹی کا ایک پیالہ تھا جس میں پانی کا ایک گھونٹ تھا‘ مجھے پینے کو دیا‘ اور فرمانے لگے اس کو ایک گھونٹ نہیں پینا‘ اس ایک گھونٹ کے چالیس گھونٹ کرنے ہیں اور ہر بار درود پاک پڑھتے ہوئے ایک گھونٹ پئیں مجھ سے صبر نہیں ہورہا تھا بھوک اور پیاس سے میرا برا حال لیکن آج یہ بات سمجھ آتی ہے کہ شیخ متقی نے میرے ساتھ وہ زیادتی نہیں بلکہ بھلا کیا تھا‘ اگر مجھے چالیس دن کا چلہ نہ کرواتے‘ گھنٹوں باہر گرمی بھوک میں بھوکا پیاسا نہ بٹھاتے تو مجھے اس بابرکت پانی کی سمجھ تو کیا قدر دانی بھی نہیں آنی تھی۔ میں نے چالیس گھونٹ صبر سے پئے اور پینے کے بعد میں نے ان کا منہ دیکھا اور میری نظریں سوالی تھیں کہ یہ کیا پانی ہے؟ ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد کہنے لگے: کہ بیٹا یہ بارش کا پانی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو خبر نہیں کہ بارش کے پانی میں رب نے کیا خیریں اور برکات رکھی ہیں اور علم و حکمت کے کیا دروازے اور ان کی چابیاں رکھی ہیں صحت اور تندرستی کا انوکھا جہان بارش کے پانی کے اندر رکھا ہے۔ لہٰذا اس دن کے بعد میں نے اپنی زندگی کو بارش کے پانی کے ساتھ سی لیا۔ قارئین! آپ نے بارش کا پانی کسی بھی مقصد کیلئے آزمایا ہو اپنے تجربات مشاہدات ابھی لکھیں اور عبقری کو بھیجیں۔ (ایڈیٹر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں