کئی بزرگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں ایسے بزرگوں کے بچے پوتے اور نواسے وغیرہ ان کی دیکھ بھال کرکے ان کی دعائیں اور محبت لے سکتے ہیں ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آپ کا قیمتی سرمایہ ہوگا۔ ہر حالت میں ان کی مدد کریں ان کو تحائف دیں.
ہم اس بھری دنیا میں رہتے ہیں ہمارے بڑے بزرگ بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے بڑے بزرگوں کیلئے باقاعدگی سے وقت نکالیں اور ان کی خدمت کریں۔ ہم نے اپنے بزرگوں اور بڑوں کے زیر سایہ ہی پرورش پائی ہوتی ہے ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے لئے رحمت ہوتا ہے جب یہ بچے اپنے دادا دادی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو یہ وقت ان کیلئے شاندار ہوتا ہے۔ دادا دادی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو وہ کبھی فراموش نہیں کرپاتے ان کی شفقت اور غیر مشروط محبت بچوں کیلئے عظیم الشان تحفہ ہوتی ہے۔ جب وہ بچے جوان ہوکر خود ماں باپ بنتے ہیں تو پھر انہیں پتا چلتا ہے کہ ان کے بڑوں کی محبت اور شفقت نے ان میں کیا کیا اقدار پیدا کی ہیں۔ تب وہ ان اقدار کو اپنے بچوں تک منتقل کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ کے والدین بھی آپ کے ساتھ ایسا محبت کا سلوک کرتے ہیں آپ کے والدین آپ کو اس دنیا میں لے کر آتے ہیں آپ کی پرورش کرتے ہیں‘ وہ آپ کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔
عظیم کے دو بچے ثانیہ اور علیم ہیں جب ثانیہ کی عمر صرف دو سال تھی تو عظیم کے والدین عظیم کے گھر کافی عرصہ تک رہے تھے۔ اب ثانیہ کی عمر چودہ سال ہے‘ اسے ابھی بھی اپنے دادا دادی کی محبت یاد ہے اور ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت اس کا بہترین سرمایہ ہے۔ عظیم کے دونوں بچے اپنے دادا دادی کی محبت کو اب بھی بہت یاد کرتے ہیں۔ عظیم کے والدین جب اس کے ساتھ رہتے ہیں تو عظیم کی بیوی ان کی بہت زیادہ خدمت کرتی تھی‘ اور اس کے بدلے اس کو بزرگوں کی دعائیں اور محبت ملتی تھی جبکہ عظیم کی بیوی کے والدین فوت ہوچکے تھے وہ عظیم کے والدین کو اپنے ماں باپ سمجھتی تھی اور ان کی خدمت کرکے ایک روحانی سکون محسوس کرتی تھی۔ بزرگ بچوں میں محبت کی خوشیاں بانٹتے ہیں ان سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں اس طرح بڑے ہوکر بچے اچھے انسان بنتے ہیں۔ عظیم کا کہنا ہے کہ جب میرے والدین میرے ساتھ رہتے ہیں تو میں ایک عجیب طرح کا سکون محسوس کرتا ہوں اور اپنے آپ کو آپ کو زیادہ محفوظ خیال کرتا ہے۔ جب ہم بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں تویہ ان کے لئے عظیم الشان تحفہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ صحت مند اور توانا محسوس کرتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ چھوٹے بچوں کے جوش اور ولوں کا غلط اندازہ نہ لگائیں‘ یہ جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے کیونکہ بچوں نے یہ جذبہ اپنے بڑوں کے تجربات سے حاصل کیا ہوا ہوتا ہے‘ بزرگ اور بچے دونوں ہی ہمیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ اسی سے خاندان کی اقدار اور روایات مستحکم ہوتی ہیں۔ اس لئے آپ کیلئے سنہری موقع ہے کہ اپنے بڑوں کی خدمت کرکے بے شمار خوشیاں سمیٹ لیں۔ کئی بزرگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں ایسے بزرگوں کے بچے پوتے اور نواسے وغیرہ ان کی دیکھ بھال کرکے ان کی دعائیں اور محبت لے سکتے ہیں ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آپ کا قیمتی سرمایہ ہوگا۔ ہر حالت میں ان کی مدد کریں ان کو تحائف دیں اور ان کے ساتھ ملکر کھانا کھائیں یہ ان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ پھر آپ کو زندگی کے بہت سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی‘ آپ کو نئی نئی چیزیں معلوم ہوں گی آپ کے بزرگ آپ کی توجہ کے مستحق ہیں یہ بزرگ بھی آپ کے خاندان کا حصہ ہیں‘ آپ ان کو توجہ دیں گے تو آپ کو بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ (فرحت ‘لاہور)
بچے رمضان کی تیاری کیسے کریں گے؟
رمضان المبارک میں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس اہم مہینے کو بچے بھی بہترین انداز میں گزاریں۔ اس کی اہمیت کو سمجھیں، لیکن ان کی دلچسپی کو کس طرح بڑھایا جائے، یہ اکثر والدین نہیں سمجھ پاتے۔ ان کی آسانی کے لیے چند قیمتی مشورے یہاں پیش کرتے ہیں: 1۔ بچوں کو رمضان کی اہمیت اور تاریخ سے آگاہ کرنا: رمضان المبارک کی ملک بھر میں بڑی خاص تیاریاں ہوتی ہیں، جسے یقینا بچے بھی محسوس کرتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ بس یہی وقت ہے کہ بچوں کے لیے وقت نکالیں اور رمضان کی مکمل تاریخ اور اہمیت کو دلچسپ پیرائے میں بچوں کے سامنے پیش کریں۔ 2۔ رمضان کے متعلق مضمون لکھوائیں: اگر آپ کے بچے لکھ سکتے ہیں، تو ان سے رمضان کے متعلق مضمون لکھوائیں۔ اگر وہ لکھ نہیں سکتے تو ان کی زبانی رمضان کہانی ضرور سنیں اور پھر اسے خود تحریر کی شکل دیں۔ یہ تحریر تا عمر بچوں کے ذہنوں پر نقش رہے گی۔ 3۔افطار پارٹیوں کا انعقاد: والدین اپنے بچوں کے ہم عمر دوستوں کے لیے ’’استقبال رمضان‘‘ کا پروگرام بھی کر سکتے ہیں تا کہ اس
اہم مہینے کی آمد کے بارے میں بچوں کو سمجھ آئے یا پھر دوران رمضان افطار پارٹیوں کا اہتمام کریں۔ اس تیاری میں بچوں کو شامل بھی کریں۔ اس سے نہ صرف بچوں میں روزہ رکھنے کی عادت پروان چڑھے گی بلکہ دوستی کی مشترکہ سرگرمی سے دلچسپی بھی بڑھے گی۔4۔ سحر و افطار کی تیاری میں شمولیت: عموماً بچوں کو گھر کے کاموں، خاص طور پر باورچی خانے سے دور رکھا جاتا ہے اور یہی عادت بعد میں ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بچوں کو گھر کے اہم کاموں میں شامل رکھا جائے، خاص کر رمضان میں سحر و افطار اوقات میں بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان میں کاموں کی تقسیم کریں، تو اس سے ان کی دلچسپی بہت بڑھے گی۔ 5۔ قرآن سے لگاؤ: رمضان میں قریباً ہر گھر میں تلاوت قرآن مجید کا انتظام ہوتا ہے، مگر اس میں بچوں کی دلچسپی نہیں ہوتی، مگر جب انہیں قرآن کے پیغام کو کہانیوں کی شکل میں بتایا جائے گا، تو دلچسپی غیر معمولی طور پر بڑھے گی۔ اس لیے بچوں کو قرآن میں موجود واقعات دلچسپ پیرائے میں سنائیں یا قرآن کی اہمیت کو کہانیوں کے انداز میں ثابت کریں 6۔ خوشیوں میں غریبوں اور مسکینوں کو شامل کریں: رمضان دوسروں کا احساس کرنے کا مہینہ ہے۔ مہینے کے آغاز ہی میں بچوں کے اندر دوسروں کی مدد کا جذبہ ابھاریں۔ افطاری کے لیے سامان غریبوں اور مسکینوں کے لیے بھی مختص رکھیں اور انہیں بچوں کے ہاتھوں سے تقسیم کروائیں، پھر اپنے کھلونے یا دیگر چیزیں بھی غریب بچوں میں تقسیم کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ عادت اس عمر میں پختہ ہو گئی تو تا عمر ساتھ رہے گی۔ 7۔ مسجد کو مرکز بنائیں: بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی مسجد سے لگاؤ پیدا کرنا چاہیے چونکہ رمضان میں مساجد میں عوام کی حاضری غیر معمولی ہوتی ہے، اس لیے بچوں کو نماز پڑھنے ساتھ لے کر جانا چاہیے۔ اس سے نماز سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط سیکھنے اور اجتماعیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ (زرتاشیہ میر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں