ملک شام کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے اور اردن حکومت کو پرواہ نہ کرتے ہوئے بریگیڈ کو وہاں سے نکال کر دمشق کے دفاع پر لگایا گیا تو اسرائیل کی پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ ان کو گولان ہائٹ تک دھکیل دیا گیا۔ اس دوران کئی دفعہ بریگیڈ کو دست بدست جنگ کی نوبت آئی۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے والد مرحوم پاک فوج میں ملازم تھے‘ اسلامی تاریخ کی جنگوں کے واقعات سے انہیں گہری دلچسپی تھی‘ میری ان کے ساتھ گھنٹوں جنگ کے واقعات کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی تھی‘ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے خفیہ طور پر جو حصہ لیا اس کے متعلق والد صاحب نے کئی باتیں بتائیں۔ اس میں ایس ایس جی کمانڈوز کے 200 جوان‘ ایک بریگیڈ نفری 5 ہزار اور ایئرفورس کے تقریباً دو اسکوارڈن شامل تھے۔ پہلے دشمن کی دفاعی تیاریوں کے بارے میں تفصیل بتانا ضروری ہے۔ اسرائیل نے نہر سویز کے کنارے پر دنیا کا جو مضبوط ترین دفاعی نظام تیار کیا تھا اس کو بارلیف لائن کا نام دیا گیا‘ یہ ریت کی سترفٹ اونچی دیوار کنکریٹ کے پشتے کی مدد سے کھڑی کی گئی تھی‘ اس کے ساتھ پیچھے مضبوط قلعہ بندیاں جن میں ہر سو میٹر کے فاصلے پر ایک پلاٹون (28 فوجی) موجود رہتے پھر ان قلعہ بندیوں کے اردگرد بارودی سرنگیں اور کانٹے دار تار کا علاقہ اور ساتھ ہی لوہے کے بنکروں میں ہیوی مشین گنیں نصب تھیں۔ اس کے علاوہ فرنٹ لائن سے پانچ چھ سو میٹر پیچھے ٹینکوں کے فائر کرنے کی پوزیشنیں بنائی گئیں اور چندکلومیٹر پیچھے فیلڈ آرٹلری اور اینٹی ٹینک ہتھیاروں کے مورچے تھے‘ نہر سویز کو مزید مشکل کرنے کیلئے پانی میں پمپ داخل کیے گئے جس میں کسی بھی وقت تیل بھر کر بھیجا جاسکتا تھا تاکہ پانی میں آگ لگ جائے اس کے علاوہ سڑکوں کا جال پورے صحرائے سینامیں بنایا گیا ان کے خیال میں اس سے زیادہ مضبوط ڈیفنس آج تک کسی نے نہیں بنایا تھا۔ اس جنگ میں شام اور مصر نے 1967ء کی جنگ کا بدلہ لینے کا پروگرام بنایا تھا۔ پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں نے مصر کا اندرونی دفاع سنبھالا ہوا تھا۔ ایس ایس جی کے دو سو جوان جنرل ٹکاخان کی سرگردگی میں پانچ اکتوبر 1973ء کو نہر سویز کے کنارے تیار کھڑے تھے۔ صبح سویرے مصر کی راکٹ یونٹوں اور دو ہزار سے زائد توپوں نے اسرائیلی مورچوں پر گولہ باری شروع کی۔ اس کور فائر کی آڑ میں ایس ایس جی کے جوان موٹربوٹ کے ذریعے نہر سویز پار کرنا شروع ہوئے۔ دشمن کی فائرنگ لائن کے سامنے سے اور پانی میں سے لڑتے ہوئے گزرنا‘ ہوائی جہازوں کی بمباری اور پانی میں تیل کی آگ نے ماحول کو انتہائی ہولناک بنادیا تھا۔ کئی جوان پانی میں شہید ہوگئے جو پار نکل جاتے وہ دشمن کے مورچوں پر کِس طرح حملہ آور ہوتے ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ صرف اکیلی خدا کی ذات ان کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے یقینی موت کے سامنے ہوکر جنگ کی‘ تقریباً سبھی جوان شہید ہوگئے لیکن مضبوط ترین دفاعی نظام روئی کے گالے بن کر اڑ گیا۔ دو سو جوانوں میں سے صرف دو جوان زندہ بچے لیکن دشمن کا چار سے پانچ کلومیٹر کا فرنٹ خالی کرالیا تب مصری فوج نے نہر سویز پر تیزی سے پل بنایا اور صحرائے سینا میں داخل ہوگئی۔ دوسری طرف شام کے محاذ پر اسرائیلی بڑھتے بڑھتے دمشق کے قریب پہنچ گئے تھے لڑائی کا آٹھواں دن اور وہ دمشق سے صرف 25 میل دور تھے۔ پاکستان کا بریگیڈ جو ابھی تک اردن میں تعینات تھا اردن حکومت کے جنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے رُکا ہوا تھا۔ شام کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے اور اردن حکومت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بریگیڈ کو وہاں سے نکال کر دمشق کے دفاع پر لگایا گیا تو اسرائیل کی پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ ان کو گولان ہائٹ تک دھکیل دیا گیا۔ اس دوران کئی دفعہ بریگیڈ کو دست بدست جنگ کی نوبت آئی۔ پاکستان ایئر فورس سے مصر کا اندرونی دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کے کم از کم پانچ جہازوں کو مار گرایا۔ اس میں فلائٹ فائٹر ستار علوی کا نام قابل ذکر ہے اور پاکستان کے ایک جہاز کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ پاک فوج کی قلیل تعداد نے مصر اور شام کو شکست سے بچایا۔ یہ ہے وہ ایمانی جذبہ جب مقصد صرف کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد کرنا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہوتا ہے تو اسی قدر اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں