ہر ماہ توحید و رسالت سے مزین مشہور عالم کتاب کشف المحجوب سبقاً حضرت حکیم صاحب مدظلہٗ پڑھاتے ہیں اور مراقبہ بھی کرواتے ہیں۔قارئین کی کثیرتعداد اس محفل میں شرکت کرتی ہے۔ تقریباًدو گھنٹے کے اس درس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
عند اللہ مقبولیت کی فکر کریں: یہ جوپیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تنصیف کا خلاصہ آپ حضرات کی خدمت میں ٹوٹا پھوٹا عرض کر رہا ہوںیہ ٹوٹا پھوٹا اپنے شیخ رحمہ اللہ سے سیکھا اورسیکھ کرعرض کررہا ہوں۔احباب کہتے ہیںکہ یہ سن کر نفع ہوتا ہے۔آنے والے حضرات جو لوگ آتے ہیں حلقہ کشف المحجوب میں وہ کہتے ہیں نفع ہوتا ہے۔ یہ میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ جو بھی عمل کریں، اس کیلئےاللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کا احساس ہواور خوف ہوکہ پتہ نہیں قبول ہو یا نہ ہو۔ پتہ نہیں اللہ کے ہاں اس کا صلہ ملے گایا نہیں ملےگا۔ پتہ نہیں کیا بنے !اسکی مقبولیت کا شوق ہو اور مقبولیت کیلئے سو فیصد فکرمند ہو۔ یااللہ! تو اس کو قبول کر لے قبول کر لے، سو فیصد فکرمند ہو۔ یہاں کا آنا اسکی قبولیت کیلئے فکرمند ہو۔ یا اللہ! میں تیری رضا کیلئے آیا ہوں۔ کس لیے آیا ہوں؟ اپنے دل کی دنیا کو ٹٹولے۔ کیوں آیا؟ صدقہ کیوں دیا؟ یہ عمل کیوں کیا؟ نماز کیوں پڑھی؟ ذکر کیوں کیا؟ ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس دن تمہارے دل سےاپنے لئے کیوں، کیوں چلی گئی اس دن تم بے حس اور مردہ ہو جائو گے۔
اپنا محاسبہ کرتے رہیں: جب تک تمہارے اندر اپنی ذات کیلئے( دوسرے کیلئے نہیں )کیوں کیوں رہے گی، (جیسے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا تھا؟) تمہاری ترقی ہوتی رہے گی ۔ فرماتے تھے کہ دوسروں سے پوچھ گچھ کا حق صرف تین آدمیوں کو ہے۔ ایک استاد کو،دوسرا ماں باپ کو اور تیسرا مرشد کو!۔ پھر فرماتے تھے کہ لوگ مجھے مرشد کہتے ہیں اور اگر میں کسی کو کہتا ہوں کیوں؟ تو پھر اپنے آپ سےاستفسار کرتا ہوں کہ تجھے یہ حق تو تھا لیکن تو نے کہا کیوں تھا؟میں پھر اپنے اندر سے پوچھتا ہوں کہ اللہ کیلئے یا اپنی حاکمیت کیلئے کہ مجھے بڑا کہیں۔ یہ جو امرباالمعروف اور نہی المنکر ہے یہ کیوں کیا تھا ؟ اللہ کیلئے یا کس لیے؟ (جاری ہے)
ترقی شروع ہوجائے گی
جس دن اپنی ذات کیلئے کیوں ،کیوں نکلنا شروع ہو جائے کہ تو نے وہ کیوں دیکھا تھا؟ تو نے وہ کیوں کیا تھا؟ وہ لفظ کیوں بولا تھا؟ وہ فقرہ کیوں بولا تھا؟ وہ عمل کیوں کیا تھا؟ تو بس سمجھ لیں کہ میرے اندر کی اصلاح شروع ہو گئی، ترقی شروع ہو گئی ،کمال شروع ہو گیا۔ بس میں کامیاب ہو گیا اور جس دن اسکے اندر اپنی ذات کیلئے کیوں ختم اور دوسروں کیلئے کیوں شروع ہو گئی تو سمجھ لو کہ فتنہ شروع ہو جائے گا۔ تو ایک تو یہ ہے کہ اپنے عمل کو مقبول کرانا ہے۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی منشاء یہ ہے اور انہوں نے مقبول کرایا تو آج کشف المحجوب ایک ہزار سال کے بہت بعد آنے والے کسی مسلمان کے سامنے پڑی ہوئی ہے۔ ورنہ تو ہزاروں ایسی کئی آئیں اور زمانے کی نذر ہو گئیں۔ ٹھیک ہے؟
کہیں حیوانیت پر اطمینان تو نہیں
دوسری بات جو آج کے بیان، آج کے اس حلقے میں عرض ہوئی وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہر وقت ٹٹولتے رہیں کہ ہم انسان ہیں یا حیوان ہیں؟ اگر کہیں حیوان ہیں تو اپنی حیوانیت پر اطمینان تو نہیں؟ اور پھر انہوں نے انسان اور حیوان کے پورے کے پورے فرق بیان کیے ہیں۔ پورے فرق بیان کیے ہیں اور آخر میں انہوں نے حیوان کو کیا کہا؟ کہا کہ سرالٰہی کی تحقیق سے روگرداں ہے،جہالت پر اکتفا کیا ہے۔ حق کو اپنے لیے اس نے حجاب دل سے خرید لیا ہے، کشف کے جمال سے بے خبر ہے ،توحید الٰہی کی بو سونگھی ہے نہ احادیت کے جمال کو دیکھا ہےاور نہ ہی توحید کا مزا چکھا ہے۔
اس کتاب کو کسی سے پڑھیں
تیسری اور آخری چیز جو بیان کی شیخ رحمہ اللہ نے وہ یہ بیان کی ہے۔ ساری چیزیں بیان کرنے کے بعد جو عجیب چیز بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو میں تمہیں نفس کی برائی سے منع کرنے کے بعد یہ کہتا ہوں کہ میں نے یہ جو کتاب ساری کی ساری لکھی ہے، اس میں ہر درویش سے استفادہ کیا ہے اور استفادہ حاصل کر کے اس کتاب کو تمہارے سامنے لایا ہوں اور لانے کے بعد کہتا ہوں کہ اس کتاب میں لطیف عبارتیں ہیں، جو تمہاری شاید سمجھ میں نہ آئیں ۔تم ذرا اس کو اچھی طرح سمجھنا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسکو بہت سمجھ کے پڑھنا اور سمجھ کے وہی کتاب پڑھی جاتی ہے، جس کو سمجھانے والا سمجھائےاور میں نے اپنے سمجھانے کے بارے میں وضاحتاً دعویٰ نہیں کیا۔ میں نے اپنے سمجھانے کے عرض کیا کہ جو سواں حصہ میں سمجھ سکا، میں شاید اسکا بھی سواں حصہ آپکو سمجھا رہا ہوں۔ تو بات سمجھ آئی ہے کچھ؟ اللہ کی تائید کے بغیر کوئی وجود ہو سکتا ہے؟ اللہ چاہے گا تو ہو گا ،اللہ نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔
صرف مقبول و محبوب کی قیمت اور حیثیت ہے
اور اگر کوئی چیز اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور محبوب ہے تو اسی کی قیمت اور حیثیت ہے اور اگر اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور محبوب نہیں تو چاہے وہ بے نقطہ تفسیر ملا فیضی کی ہی کیوں نہ ہو تو اسکی بھی کوئی حیثیت نہیں۔خواہ اس میں علم کے بحر ِبے کراں اورہی کیوں نہ ہوں،اللہ کے ہاں اسکی کوئی حیثیت نہیں!
آپ روز اللہ سے ایک بات مانگتے ہیں لیکن توجہ نہیں کرتے ’’التحیا ت للہ و الصلوٰۃ و الطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ التحیات اور درودشریف کے بعد’’ ربنا وتقبل دعاء ‘‘ یہ آتا ہے نا؟ ، یہ ساری چیزیں پڑھنے کے بعد آخر میں ایک بات کہتے ہیں ۔یقیناً آپ توجہ کرتے ہونگے لیکن آج کے بعد آپ توجہ بڑھائیں۔’’ ربنا وتقبل دعاء ‘‘ قبولیت کیوں مانگ رہے؟ اس لئے کہ الٰہی میں نے چار رکعات پڑھی یا دو رکعات پڑھی یا تین رکعات کی نماز پڑھی ہے۔ الٰہی جو عبادت کی ہے، اب آخر میں سلام پھیرنے سے مراد یہی ہے کہ عبادت سے نکلنے لگا ہوں۔ اگر تیری قبولیت نہ ہوئی تو کام نہیں بنے گا۔ آپ ہر نماز میں خواہ وہ وہ نفل ہے،یا فرض ، وہ سنت مؤکدہ ہے یا غیرمؤکدہ ہے یاچاہے وہ واجب ہے۔ ان سب میںالتحیات میں یہ پڑھتے ہیں۔ قبولیت کے بغیر نہ خدمت قبول ہے اور نہ ہی عبادت! اگر نیت ٹھیک نہیں ہے اور خدمت کر رہاتو اس سے فائدہ نہ پائے گا ۔
برکت کا ایک عمل
میرے شیخ رحمہ اللہ فرماتے تھے جو کسی کے ہاں ملازمت کرتا تھا۔ فرماتے تھے کہ بھئی ملازمت کرنے کی نیت نہ کر، خدمت کرنے کی نیت کر۔ یہ ملازمت کرنے پہ جو تنخواہ ملے گی یہ ایسے جھونگے میں ملے گی تو اسکی نیت نہ کر۔ اور پھر فرماتے تھے کہ بھئی تو نے کبھی سنا کہ بھینس گوبر کی وجہ سے کسی نے لی۔ بندہ بھینس تو دودھ کی نیت سے لیتا ہے گوبر تو مفت میں مل جاتا ہے۔ تو خدمت کی نیت سے نوکری کر ملازمت کر سچے جذبے کی نیت سے نوکری کر، ملازمت کر اور خدمت اور سچے جذبے کی نیت سے کرے گا ،یہ سچا جذبہ تیرے لیے برکتوں کا سبب بنے گا پھر تیری نسلیں پلیں گی اور اگر تو نے اس نیت سے نہ کیا پھر تو بھی نہیں پل سکے گا ۔ اللہ برکت اٹھا دیتا ہے۔ یہ بڑا گہرا نکتہ ہے یاد رکھئے گا۔ اللہ کیا کرتا ہے؟ برکت اٹھا دیتا ہے۔
اصل چیز قبولیت ہے۔ تو قبولیت کا فکر کریں گے نا؟ قبولیت کا فکر کریں گے؟ نہیں کریں گے؟ جب تک قبولیت کا فکر نہیں ہو گا، اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔ اللہ جل شانہ ہمارے آج کے اس حلقہ کشف المحجوب کو قبول فرمائے۔ لفظوں کی غلطیوں سے درگزر کر کے اللہ پاک اسکو قبولیت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ہماری خطائوں سے درگزر کرکے اور پردہ پوشی کرکے اللہ پاک اسکو امت کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں