جنگل کا ہرجانور جَلاڈالا: اس نے منظر دیکھا ایک بہت بڑا گڑھا ہے‘ ایک شخص آیا اس نے گڑھے میں لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں ‘اتنا بڑا گڑھا تھا کہ اگر دس اونٹ اس میں کھڑے کردئیے جائیں تو نظر نہ آئیں‘ اس نے اس گڑھے کو لکڑیوں سے پُر کرکے آگ لگائی‘ آگ جب بہت زیادہ بھڑکی اور اس کے شعلے اور انگارے بنے تو اس نے جنگل کے تمام جانور پکڑ کر اس میں ڈالنے شروع کردئیے۔ سب سے پہلے لومڑی کی باری آئی‘ اس کے بعد بھیڑئیے کی‘ وہ ایک ایک کرکے جانورڈال رہا تھا اور جانور جل رہے تھے اور جلتے جلتے وہ کوئلہ ہوجاتے‘ وہ ان کا کوئلہ ہونے کا انتظار کرتا‘ اس کے پاس کوئی ایسی طاقت یاچیز تھی کہ تمام جنگل کے جانور اکٹھے کھڑے تھے اور لائن بنا کر کھڑے تھے‘ تمام جنگل کے جانور آہ ہ بکا کررہے تھے‘ چیخ و پکار‘رو نا‘ اس سے سارا جنگل دہل رہا تھا‘ خوف کامنظر‘ خوفناک آوازیں تھیں اور کربناک ایک انوکھا نظام تھا جس سے انسان ایسا دہل جاتا کہ اچھا خاصا انسان اس کو دیکھ کر مر جائے‘ پھر جب ایک کوئلہ ہوجاتا پھر دوسرا کوئلہ بننا شروع ہوتا‘ چھوٹے چھوٹےمعصوم جانوروں کے بچوں کو حتیٰ کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی یوں آگ میں ڈالتا کہ ان کی سسکی اورسسکاری تک نہ نکلتی اور وہ چیزیں جل کر کوئلہ ہوجاتیں۔ جانورجلتے گئے‘ بھیڑیے بھی جل گئے‘ ہرنوں کی باری آئی پھر ہرن بھی جل گئے‘ پھر پرندوں کی باری آئی‘ غول کےغول پرندے آرہے تھے اور وہ شخص اکٹھے پکڑ پکڑ کر یوں آگ میںجھونک رہا تھا جیسا کہ خشک پتوں کو جھونکا جاتا ہے اور وہ سارے ایک ہی شعلہ میں جلے جارہے تھے اور ایسے جل رہے تھےکہ ایک طوفان تھا‘ ہاتھی جلے‘ شیر جلے‘ چیتے جلے‘ کوئی جانور ایسا نہیں جو بچ گیا ہو۔ تو برداشت نہ کرسکے گا:یہ عامل یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ تھوڑی دیر کے بعد سارے جنگل کو جلانے والے شخص نے اس عامل کی طرف دیکھا (کیونکہ میں نے پہلے اسے کہا ہوا تھا کہ تجھے ایسے خوفناک منظر دکھائی دیںگےجن کو تو برداشت نہیں کرسکے گا‘ لیکن کبھی ڈرنا نہیں‘ ہلکی سی جھرجھری بھی تیرے عمل کی چادر کو
تجھ سے اتار دے گی اور وہ چادر حفاظت کی چادر ہوگی‘ اس نے بالکل یہی کیا‘ سارے منظر کو دیکھنے کے بعد اس نے کسی قسم کا خوف اپنےاوپر سوار نہیں کیا )حتیٰ کہ وہ قاتل اور خونخوار شخص اس کی طرف بڑھا اور اس پر ہاتھ ڈالا‘ اس نے اس کے ہاتھ کے لمس کو اپنے جسم پرمحسوس کیا لیکن اس کے پیچھے میری بات تھی وہ اس بات پر مضبوط رہا اور اس نے ہلکا سا خوف محسوس نہ کیا‘ بس تھوڑی دیر کے بعد اس خونخوار شخص نے زور سے قہقہہ مارا اور وہ قہقہہ اتنا زور کا تھا کہ اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکلنےلگے اور اس کے قریب جتنے بھی درخت تھے وہ جل گئے اور تھوڑی دیر کے بعد وہ چھوٹاہوتا چلا گیا۔ یہ خزانہ تیرے لیے خیر کا ذریعہ نہیں: اس سے پہلے اس کا قد پہاڑ جتنا تھا‘ چھوٹا ہوتےہوتے پہلے وہ ہاتھی بنا ‘پھر گھوڑا بنا‘ پھر خچر بنا ‘پھر گدھا بنا ‘پھر بکری بنا ‘پھر کتا بنا ‘پھر کتے کا بچہ بنا‘ پھر بلی بنا ‘پھر بلی کا بچہ بنا‘ پھر چوہا بنا اور ایک بل میں گھس گیا اور ایک آواز آئی کہ یہ خزانہ تیرے لیے خیر کا ذریعہ نہیں ‘ چونکہ تونے نوری عمل کیا ہے اور نورانی عمل کیا ہوا کبھی ضائع نہیں جاتا اس کی طاقت اس کی تاثیر اور اس کا کمال ہمیشہ رہتا ہے اور اس طاقت تاثیر اور کمال کی وجہ سے اس کے اندر ایک ایسی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے اس کا راستہ نکلتا ہے اور کہیں نہ کہیں سے وہ عامل کو خیر دے کر جاتا ہے اور ایسی خیر دے کر جاتا ہے جس سے اس کی نسلیں شادو آباد ہوجاتی ہیں۔ وہی غیبی آواز ایک بار پھر گونجی اور اور ایسی گونجی کہ اس کے قلب اور جگر میں اترگئی اور اس آواز نے پھر کہا یہ خزانہ تیرے لیے خیر کا ذریعہ نہیں اب تو اگر اس خزانہ کو پانا چاہتاہے تو اس کو اسی حال پر چھوڑ دے اور اس غیبی آواز نے بتایا ہم تجھے ایک عمل بتاتے ہیں وہ ہے سورۂ رحمٰن کی آیت فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ بس اس آیت کوپڑھ اس غیبی آواز نے ایک ترتیب بتائی کہ اس ترتیب سے پڑھتا جا اور اس کے کمالات دیکھتا جا‘ وہ شخص مجھ سےکہنے لگا کہ چالیس دن پورے کرکے میں نے وہ عمل چھوڑ دیا اگر پیچھے آپ کا ہاتھ اور ہدایات اور آپ نے میرے لیے جو حصار اور حفاظتی روحانی ‘نورانی قلعہ بنایا تھا وہ نہ ہوتا وہ مجھے بھی اٹھا کر اس میں جلا دیتا اور جلانے سے مراد یہ ہےکہ یا تو یہ شخص پاگل ہوجاتا یا لولا لنگڑا ‘اپاہج‘ کانا‘ اندھا کسی نہ کسی شکل میں یہ شخص ہوجاتا اور بربادی اور نقصان اس کی نسلوں میں چلا جاتا۔ علامہ صاحب غریب پرور:اور وہ بار بار آنسو بہا کر ایک بات کہہ رہا تھا کہ حضرت علامہ صاحب میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے ایسا روحانی عمل بتایا جس کو میں نے کیا ‘میں ایک مفلس اور غریب آدمی ہوں اور تنگدست انسان ہوں آپ غریب پرور ہیں‘ غرباء کی مدد کرتے ہیں‘ غرباء کا ساتھ دیتے ہیں‘ غرباء پر شفقت فرماتے ہیں اور غرباء میں عنایات کرتے ہیں‘ آپ کا احسان ہے وہ شخص مزید کہنے لگا کہ اس غیبی آواز نے مجھے اس آیت کا جو عمل بتایا کیا میں کرلوں؟ اس عمل سے تجھے بہت کچھ ملے گا:میں نے اعتماد اور بھروسے سےکہا: ہاں کرلے!میری روحانی توجہ‘ روحانی طاقت اور روحانی کمالات تیرے ساتھ ہوں گے۔ انشاء اللہ اس عمل میں تجھے بہت کچھ ملے گا‘ وہ ستر دن کا عمل تھا اور اسی ترکیب کے مطابق جو ترکیب اس غیبی آواز نے بتائی تھی اس نے کرنا شروع کردیا اور کرتے کرتے بالآخر اس کے ستر دن پورے ہوگئے اس دوران اسے کوئی خواب نہ آیا‘کوئی خیال نہ آیا اور نہ ہی کوئی خوف محسوس ہوا‘ بہت سادگی اور اطمینان سے اس نے یہ تمام عمل پورا کرلیا اور پورا کرنے کے بعد پھر میرے پاس آیا مجھے کہنے لگا :اب کیا ہوگا؟ میں نے پوچھا :اس غیبی آواز نے اس عمل کی طاقت‘ تاثیر‘ نفع یا فائدہ وغیرہ کچھ بتایا۔ کہنے لگا: انہوں نے کہا تھا بس یہ عمل کرلے اور اس کا نفع ہم پر چھوڑ دے‘ اس کا فائدہ ہم خود دیں گے اور ہم اس کا جو فائدہ دیں گے تیرا خیال اور گمان سےبالاتر ہوگا۔ خیر کے غنچے برکات کی کلیاں: قارئین! آج سالہا سال ہوگئے میں آپ کو یہ واقعہ سنارہا ہوں‘ آج بھی مجھے وہ شخص ملتا ہے جس نے کالے عمل کے زور سے خزانہ نکالنے کی کوشش نہیں کی‘ اس نے روحانی اورنوری عمل کی مدد سے خزانہ تک رسائی حاصل کرلی لیکن ایک روحانی آواز نے اس کو خزانہ سے روک کر اس آیت کا عمل دے دیا اور اس آیت کے عمل کے کرنے کے بعد کئی سال تک تو اس کو اس کانفع‘ فائدہ ‘رزلٹ یا نتیجہ نہ ملا بس! چند سالوں کے بعد اس کے لیے خیر کے غنچے کھلنے لگے۔ برکات کی کلیاں پھوٹنے لگیں‘ راحت کےدروازے کھلنے لگے‘ خوشیاں مچلنے لگیں اور ایسے ایسے کمالات‘ برکات‘ ثمرات اور خیریں اس کے قریب آنا شروع ہوگئیں کہ خود اس کی عقل‘ اس کا شعور‘ اس کا احساس حیران تھا۔ رزق ملا‘ صحت ملی‘ بیماریاں گئیں‘ دکھ دور ہوگئے‘ پریشانیاں دور ہوئیں‘ مشکلات حل ہوئیں‘ مسائل حل ہوئے‘ اور زندگی کی ناکامیاں ختم ہوکر کامیابیوں کے دروازے کھلنا شروع ہوگئے۔ آج وہ خوشحال ترین ہے: شان و شوکت عزت و راحت خیر اور برکت اس کے قریب آنا شروع ہوگئے اور اس کا وہ نظام بنا کہ جو شاید یہ سوچ نہیں سکتا تھا اوراس کے گمان میں نہیں آسکتا تھا ۔آج بھی وہ دنیا کا خوشحال انسان ہے‘ راحتیں‘ برکات‘ عزتیں‘ شہرت‘ سواریاں اور گھر اس کے پاس بے بہا اور بےشمارہیں۔قارئین! اصل بات یہ ہے کہ جو شخص ایک فیصلہ کرلے کہ میں نے خیر کو ہی تلاش کرنا ہے شر سے دوررہنا ہے اور برکت کا متلاشی رہنا ہے‘ اسے اللہ سب دیتا ہے۔ سندھ کا عامل اورانوکھا کالاعمل:ـایک شخص میرے پاس آیا اسے کسی سندھ کے عامل نے ایک عمل دیا‘ اس عمل میں اسے یہ کہا گیا کہ تو کیلے کے درخت کے نیچے بیٹھ کر صرف گیارہ دن یہ عمل کر گیارہ دن میں دن کو عمل کرنا تھا اور رات کو سونا تھا کوئی سختی پابندی نہیں تھی یعنی ترک جلالی‘ ترک جمالی‘ ترک لذات‘ ترک حیوانات‘ ترک شہوات‘ بڑا گوشت نہیں کھانا‘چمڑے کےبرتن‘ چمڑے کی جوتی اور چمڑے کی چیزیں استعمال نہیں کرنی‘ بیوی سے نہیں ملنا‘ نظروں کو پاک دل کو پاک اور حرام سے بچنا ہے اور بھی بے شمار قیود اور چیزیں اس کے ساتھ تھیں۔ یہ ساری چیزیں اس نے کیں اور گیارہ دن کا پورا عمل کیا لیکن گیارہ دن کے بعد رزلٹ یہ نکلا کہ اسے بظاہر کچھ محسوس ہوا نہ فائدہ نہ نقصان لیکن یہ اس کی بھول تھی‘ میں اس شخص کی زبوںحالی بربادی اور تمام ظاہری نقشے دیکھ رہا تھا جب اس کے ظاہری نقشے دیکھ رہا تھا تو مجھے احساس ہورہا تھا کہ اس کے گھر میں نامعلوم کتنے دنوں سے روٹی شاید پکی ہوگی یا نہیں۔ اس کے رزق کا کیا بنتاہوگا؟ اور اس بیچارے کے حالات کیا ہوں گے؟ بس میں یہی سوچ رہا تھا وہ خود ہی بولا مجھے کہنے لگا کہ میں تھک گیا ہوں اور میرا اندر کہتا ہے یہ اس عمل کی وجہ سے ہے جس عمل کو میں نے کیا‘ مجھے اس کا بظاہر نقصان محسوس نہیں ہوا اورنفع بھی محسوس نہیں ہوا لیکن اس کا نقصان چند ہی ماہ کے بعد ہونا شروع ہوگیا حادثے درحادثے‘ مسائل درمسائل‘ مشکلات در مشکلات‘ ہرقسم کی پریشانیاں‘ دکھ‘ تکالیف‘ الجھنیں اور بہت زیادہ مسائل‘ اتنے زیادہ مسائل کہ میں ان مسائل سے تھک گیا ہوں اور میں الجھنوںکی انتہا پر پہنچ گیا ہوں۔ اس نے مجھے یہ کہاتھا کہ یہ نوری عمل ہے اور مجھے سندھی زبان کے کچھ بول بتائے تھے۔عرشی فیضان سے تاثیر ملتی ہے: میں نے فوراً اسے کہا اگر یہ نوری عمل ہوتا تو قرآن و حدیث کے کچھ بول ہوتے‘ کسی انسانی زبان کے بول تو نہ ہوتے‘ انسانی زبان کے بول تو تاثیر رکھتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی تاثیر تمہارے حق میں ہو قرآن و حدیث کے بولوں کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے‘ تاثیر ہوتی ہے اور اپنا ایک کمال ہوتا ہےاور اس طاقت تاثیر اور کمال میں عرش کی مدد ساتھ ہوتی ہے اور عرشی فیضان ساتھ ہوتا ہے اورعرشی فیضان سے ہی تاثیر ملتی ہے اب اس شخص کی صورتحال یہ ہے کہ کپڑا نہیں تو روٹی ہے‘ روٹی نہیں تو جوتی ہے‘ پہننا نہیں توچھت ‘نامعلوم وہ کن کن مسائل میں اچانک گھرا ہے اور چند ہی ماہ میں مشکلات‘ مسائل‘ دکھ اور پریشانیوں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ذرا سوچ کر عمل شروع کیجئے: قارئین! کبھی بھی کوئی عمل کوئی کتنا بڑا عامل ہی کیوں نہ ہو بس ذرا سوچ سمجھ کر کیجئے گا اور خاص طور پر خزانہ حاصل کرنے کیلئے خزانہ کے نام پرجتنی لوٹ مار لگی ہوئی ہے اور اکثر خزانہ کے متلاشی سفید پوش نچلے درجے کے غریب‘ تنگدست اور ایسے لوگ جو راتوں رات امیربننے کے خواب دیکھتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو لوگ لوٹتے ہیں اور ایسے لوگوں کو لوگ تلاش کرتے ہیں اور ان کو تلاش کرکے پھر ان کو خواب دکھاتے ہیں‘ پھر ان کو بعض جگہ کھدائیاں کرواتے ہیں‘ بعض اوقات چلے کرواتے ہیں‘ بعض اوقات جنگلوں میں‘ دریاؤں میں‘ سمندروں میں‘ نہروں میں‘ پہاڑوں میں‘ غاروں میں‘ نامعلوم کیا کیادھوکہ فریب ان کے ساتھ کرتے ہیں اور لوگ انہی دھوکہ فریب میں چلتے چلتےآخر کار اپنے گھر کے برتن‘ روٹی کے دو لقمے‘ جو بچا کھچا اپنی اولاد کیلئے تھوڑا سا سرمایہ یا کوئی چیز تھی وہ سب کچھ ختم کرکے خالی ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور ایسے خالی ہوتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہم خالی ہوبھی چکے ہیں یانہیں کیونکہ خزانہ ایک عرشی طاقت اور قوت کے ساتھ محفوظ کیاجاتا ہے‘ مجھےکئی جنات نے یہ بات بتائی کہ ہمارے بڑے ہمیں خزانے دکھا دیتے ہیں اور چونکہ ہماری نظروں سے وہ چیزیں بھی پوشیدہ نہیں جو بظاہر انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں‘ اس لیے ہم آنکھوں سے ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں اور ہماری نظریں وہ چیزیں مسلسل تلاش کرلیتی ہیں۔ابھی تک وہ خزانے دفن ہیں: ہماری نظروں کے سامنے اس زمین میں بےشمار خزانے ہیں‘ خاص طور پر ایک جن نے مجھے ایک پتے کی بات بتائی کہ 1947ءکے ہنگاموں میں جب ملک تقسیم ہوا تو ہندو پاکستان میں اور دولت مند مسلمان انڈیا میں اپنے خزانے محفوظ مقام پر دفن کرکے آئے ان کے خیال میں ایک وقتی اور عارضی تقسیم اور بٹوارہ ہے بس کچھ عرصہ کے بعد یہ ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد ہم واپس اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور پھر اپنا خزانہ نکال لیں گے۔ وہ جن کہنے لگا ہم نے خزانے دفن ہوتے دیکھے اورابھی تک وہ خزانے دفن ہیں۔ خزانہ کی وجہ سے بربادی مقدر بن گئی:چند ایک خزانے ایسے ہیں جو اچانک کسی کھدائی‘ مکان بننے بنانے یا کسی جگہ دھنسنے کے نام پر وہ نکل آئے لیکن جن جن کے بھی نکلے بہت کم ایسے ہیں جن کو ان کی خیر نصیب ہوئی ہوگی اور اس کی وجہ سے ان کے گھروں میں ان کو برکات ملی ہوں گی‘ ورنہ تو اکثر کو ان برکتوں کے نشان تو کیا گمان بھی نہ ملے اور ان خزانوں کی وجہ سے بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ وہ جن مزید کہنے لگا ہمارے لیے ایک انوکھی بات ہے‘ انسان سمجھتے ہوں گے جنات ہر چیز دیکھ لیتےہیں یقیناً ہم دیکھ لیتے ہیں لیکن ہم عرشی طاقت سےزیادہ طاقتور نہیں‘ ہم عرشی قوت سے زیادہ محفوظ نہیں‘ عرشی طاقت‘ عرشی قوت اورعرشی توانائی سے ہم زیادہ طاقتور نہیں وہ ان چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہمارے دیکھنے کے باوجود بھی ہم اس کو چھو نہیں سکتے۔ ہماری نسل درنسل سےیہ واقعات چلے آرہے ہیں۔ وہ جن ٹھنڈی سانس لے کر کچھ دیرخاموش بیٹھ گیا اور پھر بولا کہ ہماری نسل در نسل یہ واقعات چلے آرہے ہیں کہ ہم نے جب بھی ان خزانوں کو چھیڑا بربادیاں‘ اموات‘ مشکلات‘ مسائل اور پریشانیاں ایسی ہوئیں کہ ہمارے لیے نسل در نسل عبرت کی کہانیاں بنتی چلی گئیں اور عبرت ہی عبرت ہوگئی۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں